1982ء میں اقوام متحدہ کے جینوا کنونشن کے فیصلے کے مطابق 9 اگست کو پوری دنیا میں مقامی لوگوں کا دن منایا جاتا ہے کسی بھی چیز کے دن کو منانے کی ضرورت اس وقت پیش آتی ہے جب وہ ختم ہو ررہی ہو، 9 اگست گزر گیا پاکستان میں ’’مقامی آدمی‘‘ کے حوالے سے کسی تقریب کا انعقاد نہیں ہوا، حالانکہ پاکستان اقوام متحدہ کا رکن ہے اس حوالے اقوام متحدہ کی طرف سے قرار دیا گئے ہر تہوار کی تقریب ہونی چاہئے، مقامی آدمی کا المیہ یہ ہے کہ وہ امریکا ، کینیڈا ، آسٹریلیا جہاں بھی ہے ، نہ ہونے کے برابر ہے، حقیقت یہ ہے کہ مقامی اس جرم میں ختم ہو گئے کہ وہ مقامی تھے دنیا کے ممالک کی تعداد 200 سے زائد ہے، ان میں سے ایک سو سے زائد ملک ایسے ہیں جہاں کوئی مقامی آدمی باقی نہیں ، اقوام متحدہ کے سروے کے مطابق ایک سو سے کم ممالک قلیل تعداد میں جو مقامی باقی ہیں ان میں سے 90 فیصد انتہائی غربت کا شکار ہیں ، ان کی زبان محض ان کے اپنے گھروں میں بولنے کی حد تک باقی ہے، معاشرے میں ان کی زبان ، ثقافت اور طرز زندگی سے نفرت کی جاتی ہے، یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ حملہ آور مقامی افراد کے صرف وطن ہی نہیں ان کی زبان و ثقافت پر بھی حملہ کرتے ہیں ، وہ مقامی بندے کو قتل کرنے سے پہلے اس کی زبان و ثقافت کے قتل کا ارتکاب کرتے ہیں۔ صوفی تاج گوپانگ نے 2017ء میں مقامی آدمی کے نام ایک کتابچہ تحریر کیا جسے جھوک پبلشرز نے شائع کیا۔ انہوں نے اس کتابچے میں تاریخی حالات و واقعات کا ذکر کیا اورلکھا کہ مقامی آدمی کے مسئلے کو عالمی سطح پر دیکھنے اور سمجھنے کی ضرورت ہے، مقامی آدمی کا مسئلہ صرف وسیب ہی نہیں ، سب کا مسئلہ ہے، اس سلسلے میں بتاتا چلوں کہ لاہور میں میرے ایک دوست چوہدری منیر احمد تھے ان کی فائونڈری تھی جو پرنٹنگ پریس کا میٹریل تیار کرتی، وہ بند ہو گئی، انہوں نے مجھے بتایا کہ قیامِ پاکستان سے پہلے ہمارے بزرگ بھاٹی گیٹ کے اندر وسیع جائیداد کے مالک تھے ، قیام پاکستان کے بعد جو مخلوق باہر سے آئی ان کے محلات اور پلازے کھڑے ہوتے گئے اور ہم مقامی سکڑتے گئے، آج حالت یہ ہے کہ میری رہائش ایک چھوٹے سے مکان میں ہے اور مشکل سے گزارہ ہو رہا ہے۔ میں نے ان کی طرف دیکھا اور کہا کہ آپ لاہور والے بھی ایسا کہہ رہے ہیں ؟توانہوں نے معصومیت سے جواب دیا کہ جب آپ اس پر تحقیق کریں گے تو لاہور کا مقامی اور ملتان کا مقامی آپ کو ایک ہی حالت میں نظر آئے گا۔ صوفی تاج گوپانگ کا ذکر آیا ہے وہ ’’مقامی آدمی ‘‘کے پیش لفظ میں لکھتے ہیں کہ مقامی آدمی ہر جگہ ، ہر مقام اور ہر ملک میں صدیوں سے مظلوم و مقہور ہے، تیز تلواریں اُسے کاٹتی رہیں اور بہتے ہوئے خون میں تیز طراز گھوڑے رقص کرتے رہے جس خطے میں بھی باہر سے آکر طاقتور لوگوں نے چڑھائی کی تو انجام کار دھیرے دھیرے مقامی آدمی کے پاس زمین نہ رہی ، نہ علم ، نہ گھر نہ گھاٹ، نہ وقار نہ آبرو۔ مقامی آدمی ہر جگہ مصائب کا شکار ہے، اس خطے میں بلوچ اقوام سمیت بہت سی اقوام باہر سے آئیں ان میں عرب ، افغانی، ایرانی ، ترک اور دوسری شامل ہیں جو اقوام صدیوں پہلے آئیں وہ مقامی ہو گئے۔ اقوام متحدہ نے بہت اچھا کیا کہ مقامی آدمی کا عالمی دن مقرر کر کے اس مسئلے کی اہمیت کو اجاگر کیا۔ جب ہم تاریخ پر غور کرتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ 18 ویں صدی میں امریکا کے طول و عرض میں یورپ اور افریقہ سے آئے ہوئے یا لائے گئے لوگوں کی اکثریت ہو گئی اور اس سر زمین کے اصل باشندے اقلیت میں تبدیل ہو گئے، اس سر زمین کا نام امریکا اور کینیڈا رکھے جانے سے قبل یہاں کے باشندے اس پورے بر اعظم کو ’’پیرارے‘‘ کے نام سے جانتے تھے ۔ پیرارے کے قدیم باشندے قانون فطرت کے مطابق زندگی گزارتے تھے ، انقلاب فرانس پر اپنے گہرے اثرات مرتب کرنے والے جینوا کے عظیم اسکالر ، ردسوکے مطابق ریڈ انڈین کی پالیسی کا بنیادی عنصر فطری آزادی تھی، اس فطری آزادی کے ساتھ ان کی سر زمین پر فطرت اور موسموں کی رنگا رنگی کا راج تھا۔ یہاں کے لوگ کسی قانون ، کسی پولیس یا کسی مسلمہ عقیدے کے بغیر ہی زندگی گزارتے تھے ، وہ اپنی سرزمین سے بے پناہ محبت کرتے تھے ۔و اشنگٹن کے مضافات میں ددامیش قبیلے کے لوگ آباد تھے ، 1780ء میں واشنگٹن کے ایک جزیرے بلیک آئی لینڈ میں اس قبیلے کے سردار کے گھر میں بچے کی پیدائش ہوئی اس بچے کا نام سی ایل رکھا گیا بعد ازاں اسے سردار سینتھ ، سیتھل ، سیٹل اور سی گوتھ کے نام سے بھی پکارا جانے لگا۔ یہ بچہ بڑا ہو کر اپنے قبیلے کا سردار بنا، سردار سینتھ ایک جنگ جو بہادر سردار تھا جو دریائے سبز اور کامیکا ڈے کی پہاڑیوں پر حملے کرنے والے گروہوں سے جنگوں میں مصروف رہا۔ امریکا کے 14 ویں صدر فرینکلن پیرسے نے 1855ء میں سردار سینتھ کو ایک خط لکھا جس میں اس خواہش کا اظہار کیا گیا کہ واشنگٹن شہر کی توسیع کے لئے سردار سینتھ امریکی حکومت کو اپنی زمین فروخت کر دے ۔ سردار سینتھ نے فرینکل پیرسے کو جوابی خط لکھا اور اپنے قبیلے کے ایک اجتماع سے خطاب بھی کیا، سردار سینتھ کا یہ خط اور اس کی لافانی تقریر دنیا بھر کی ’’غلام قوموں‘‘ کا خزینہ ہے، یہ ایک چیخ ہے جو امریکا اور کینیڈا کے لاکھوں مربع میل رقبے کے وسیع و عریض پیرارے میں تاریخ کی صدائے باز گشت کے طور پر پھیلی نظر آتی ہے۔ تحریر اور تقریر لمحہ بہ لمحہ اپنے پڑھنے والے کے جسموں میں ایک جھرجھری سی پیدا کرتی ہے، سردار سینتھ کا مقبرہ واشنگٹن میں موجود ہے ، اس سردار کے مجسمے کئی امریکی شہروں میں لگے ہوئے ہیں۔ سینئر صحافی اور معروف سرائیکی دانشور جناب نذیر لغاری نے اس خط کا ترجمہ اردو میں ترجمہ کیا ، خط طویل ہے مگر ایک جملے میں سمجھ آ سکتی ہے ،سردار سینتھ نے خط میں لکھا کہ واشنگٹن میں موجود بڑا آدمی لفظ بھیجتا ہے کہ اس کی یہ خواہش ہے کہ وہ ہماری زمین خریدے ، بڑے آدمی نے ہمیں دوستی اور خیر سگالی کے الفاظ بھی بھیجے، یہ اس کی مہربانی ہے اور یہ بات ہم جانتے ہیں کہ اسے ہماری کسی جوابی دوستی کی ضرورت نہیں، ہم اس کی پیشکش پر غور کریں گے جب کہ ہم جانتے ہیں کہ ہم ایسا نہیں کریں گے ، سفید آدمی بندوقوں کے ساتھ آ سکتا ہے اور ہماری زمین لے جا سکتا ہے۔