نسل ‘ مذہب یا رنگ کی بنیاد پر جابر اکثریتی حکومت کے ہاتھوں کسی مخصوص گروہ کی نسل مٹانے کے جرائم پر نظر رکھنے والی تنظیم جینو سائیڈ واچ نے اقوام متحدہ سے کہا ہے کہ وہ مقبوضہ کشمیر اور بھارت کی دیگر ریاستوں میں مسلمانوں کی نسل کشی کے منصوبے کو روکنے کے لئے اپنی ذمہ داریاں پوری کرے۔ تنظیم کی طرف سے جاری الرٹ میں کہا گیا ہے کہ نریندر مودی کی حکومت کشمیر میں ہندو توا کی پالیسی پر عمل پیرا ہے۔ ہندو آبادی کو مسلمانوں کے خلاف اکسایا جاتا ہے۔ اب تک 70ہزار کشمیری شہید ہو چکے ہیں۔ رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ بی جے پی نے مسلمانوں کو دہشت گرد اور علیحدگی پسند بنا دیا ہے۔ خواتین کو اغوا کرنے اور عصمت دری کے واقعات بڑھ رہے ہیں ‘خواتین سے زیادتی کو بطور ہتھیار استعمال کیا جا رہا ہے۔ مخصوص انسانی گروہوں یا نسل کو مٹانے کا سلسلہ وحشی ادوار سے جاری ہے۔ طاقتورانسانی گروہ اپنے دفاع‘ خوراک کو بچانے یا پھر مخالف کو غلام بناتے وقت اس قدر قتل و غارت کرتے کہ مظلوم گروہ کئی صدیوں تک سر اٹھانے کے قابل نہ رہتا۔ عجب اتفاق یہ ہے کہ کئی بار مظلوم جب طاقتور بنے تو انہوں نے ظالم کو بھی اسی انجام سے دوچار کیا۔ حالیہ تاریخ میں جرمنی کے نازی حکمران ہٹلر کے ہاتھوں یہودیوں کی ہلاکت کو دنیا بڑی اہمیت دیتی ہے۔ یہودیوں کا دعویٰ ہے کہ کم از کم 60لاکھ یہودی نازیوں کے ہاتھوں مارے گئے۔ ہٹلر نے صرف یہودیوں کی نسل کشی نہیں کی بلکہ رومانیہ‘ پولینڈ اور سلاواکیا کی شہری آبادی کے ساتھ بھی یہ ظالمانہ سلوک روا رکھا۔ کمبوڈیا میں پال پوٹ کے کھیمروج گوریلوں نے ملک میں زرعی سماج کی تشکیل کا منصوبہ بنایا۔ اس منصوبے میں نسلی برتری کو بھی اہمیت دی گئی۔ شہری آبادی کو قتل کیا گیا۔ تشدد کیا گیا اور مجبور کیا گیا کہ وہ دیہی علاقوں کو آباد کریں۔افریقی ملک روانڈا اور یوگنڈا میں بدترین نسل کشی ہوئی۔ اس مذموم بربریت میں کتنی بڑی تعداد میں لوگ شریک ہوئے اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ 120000افراد کو نسل کشی کے الزام میں گرفتار کیا گیا۔ ان میں سے 60ہزار مجرم ثابت ہوئے۔بوسنیا میں سربوں کے ہاتھوں مسلمانوں کی نسل کشی بیس سال پہلے کے واقعات ہیں۔ جنگ عظیم دوم کے خاتمہ کے بعد سے نوے کی دہائی تک لاکھوں مسلمانوں کو قتل کیا گیا۔ بچوں اور خواتین کو خاص طور نشانہ بنایا گیا۔ دنیا میں دارفر اور کانگو میں جاری نسل کشی پر تشویش کا اظہار کیا جاتاہے۔ ایسے اکثر ممالک سوائے بوسنیا کے غیر مسلم ہیں اس لئے وہاں اقوام متحدہ کی امن فوج تعینات کر کے اس سلسلے کو روکا جاتا رہا ہے۔ صرف یہی نہیں بلکہ نسل کشی کے الزام میں بہت سے لوگوں کو خصوصی ٹربیونلز نے سخت سزائیں دیں۔ کشمیر گزشتہ 72برس سے آگ میں جل رہا ہے ۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان اس تنازع پر چار جنگیں ہو چکی ہیں جن کے نتیجے میں معاملہ حل ہونے کی بجائے مزیدالجھتا گیا۔ بھارتی فوج نہتے کشمیریوں کو پرامن احتجاج کا حق دینے پر آمادہ نہیں۔ ہر گھر کے سامنے دو فوجی تعینات ہیں۔ تصدیق شدہ اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ بھارتی فوج کے ہاتھوں اب تک 70ہزار سے زاید کشمیری شہید ہو چکے ہیں۔ بی جے پی حکومت نے آئین کی شق 370کو ختم کر کے کشمیر کی الگ آئینی حیثیت کا یکطرفہ خاتمہ کر دیا ہے۔ اس فیصلے سے قبل بھارتی حکومت نے ایک لاکھ مزید فوج مقبوضہ کشمیر میں تعینات کر دی۔ ایک منصوبے کے تحت نوجوانوں اور کمسن لڑکوں کو گھروں سے اٹھا کر غائب کیا جا رہا ہے‘ بھارتی فوج کشمیری خواتین کی بے حرمتی کرتی ہے ارو پھر اس سفاکیت کے بعد ان کو قتل کر دیا جاتا ہے۔ بھارت میں حکومت کی حامی تشدد پسند تنظیمیں اپنے مسلح غنڈے کشمیر میں لانے کی کوشش کر رہی ہیں۔ ایسی رپورٹس موصول ہو رہی ہیں کہ سنگھ پریوار کی کچھ جماعتیں مسلمانوں کے خلاف اشتعال پیدا کر کے ہندو غنڈوں کو مقبوضہ کشمیر میں ہنگامے اور مسلمانوں کے قتل کے لئے گروپوں کی شکل میں بھیج رہی ہیں۔ بھارت اور اس کی انتہا پسند تنظیمیں یہ سب کچھ ایسے عہد میں کر رہی ہیں جب دنیا بنی اسرائیل کی نسل کشی سے لے کر بوسنیا کے مسلمانوں کے گلے کاٹنے تک کے جرائم سے واقف ہو کر اس پر ایک متفقہ سوچ اپنا چکی ہے۔ بھارتی حکومت ایسے عناصر کے ہاتھ میں ہے جو اپنے سوا کسی کو پاک نہیں سمجھتے۔ بلا شبہ دو قومی نظریہ ان ہی جیسی سوچ رکھنے والوں کی وجہ سے سامنے آیا اور مسلمانوں نے الگ وطن کا مطالبہ کیا ۔کشمیر پر مسلط بی جے پی اور اس کے حامیوں کا خیال ہے کہ بھارت صرف ہندوئوں کا ہے۔ ہر غیر ہندو یا تو یہاں سے نکل جائے یا پھر وہ ہندو مت قبول کر لے۔ اگر کوئی ان دونوں میں سے کوئی صورت قبول نہیں کرتا تو پھر اسے قتل کر دیا جانا ان کے نزدیک درست ہے۔ بھارت کشمیریوں پر الزام عاید کرتا رہا ہے کہ وہ بھارتی فوج پر حملوں میں ملوث ہیں۔ مقبوضہ کشمیر میں ہلاکتوں کا تقابلی جائزہ لیا جائے تو معلوم ہو گا کہ بھارتی افواج نے جن لوگوں کو شہید کیا وہ اکثر نہتے تھے۔ ان حالات میں انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیم جینو سائیڈ واچ نے اقوام متحدہ سے بڑا معقول مطالبہ کیا ہے کہ وہ کشمیریوں کی نسل کشی کے خوفناک منصوبے کو روکنے کے لئے اپنا بین الاقوامی کردار ادا کرے۔ دنیا کے زندہ ضمیر معاشروں کو یک زبان ہو کر بھارت کی اس سازش کو ناکام بنانے کی سعی کرنا چاہیے۔ اقوام متحدہ سے کہا جانا چاہیے کہ وہ مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوج کے ہاتھوں ہلاکتوں اور عصمت دری کے واقعات کی تحقیقات کرائے اور ایسے واقعات میں ملوث بھارتیوں کو جنگی مجرم قرار دے کر سخت سزائیں دے۔