پانچ مئی جمعرات کو مودی حکومت کی طرف سے قائم کردہ کمیشن نے جموں و کشمیر میں اسمبلی اور پارلیمانی حلقوں کی حد بندی کے لیے اپنی حتمی رپورٹ پیش کی ہے۔ بی جے پی کو چھوڑ کر تمام سیاسی جماعتوں نے اِن تبدیلیوں کی مخالفت کی ہے لیکن مودی کی قیادت میں بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکومت اپنی روایتی ضد پر قائم ہے اورحکومتی جبر اور طاقت کی بدولت مقبوضہ جموں و کشمیر کے مسئلہ کو ہمیشہ کے لیے دبانا چاہتی ہے۔ کشمیر کا تنازعہ واحد عالمی اِیشو ہے جو 73سال گزرنے کے باوجود ہندوستان کی ہٹ دھرمی کی وجہ سے حل نہیں ہوسکا۔ 1947میں پاکستان اور بھارت کے آزاد ہونے سے لیکر آج تک بھارت کی ہٹ دھرمی کشمیر کے عوام کو ان کا بنیادی حق یعنی آزادی دینے کی راہ میں رکاوٹ ہے اور شروع سے ہی بھارت کا رویہ گمراہ کن رہا ہے۔ 5 اگست 2019 کو مودی حکومت نے آرٹیکل 370 کو منسوخ کرتے ہوئے ریاست جموں و کشمیر (جس میں لداخ بھی شامل تھا) کو تقسیم اور اس کی حیثیت مرکز کے زیر انتظام دو علاقوں (یونین ٹیریٹریز) میں بدل دی ہے۔ یعنی جموں و کشمیر اور لداخ۔ کشمیر کے عوام کو آرٹیکل 370 کی نسبت شق 35 اے کے خاتمہ پر زیادہ تحفظات ہیں۔ مودی حکومت آئین کی شق 35 اے کو ختم کرکے کشمیر کی تسلیم شدہ متنازعہ حیثیت کو ختم کرنے کی کوشش کررہی ہے۔ میڈیا کی اطلاعات کے مطابق، شق 35 اے کے خاتمے کے بعد سے ریاست جموں و کشمیر میں آبادی کے تناسب میں تبدیلی لانے کے لیے غیر مقامی افراد کو کشمیر میں آباد کیا جارہا ہے اور انہیں ڈومیسائل جاری کیے جارہے ہیں جبکہ جموں و کشمیر میں اسمبلی اور پارلیمانی حلقوں کی حد بندی بھی اِسی سلسلے کی ایک کڑی ہے اور جموں و کشمیر کو بھارتی ناجائز قبضے کی بدولت ہندوستان میں ہمیشہ کے لیے ضم کرنے کا ایک سوچا سمجھا منصوبہ ہے۔ سپریم کورٹ کی ریٹائرڈ جج جسٹس رنجنا پرکاش دیسائی کی سربراہی میں، حد بندی کمیشن 6 مارچ 2020 کو قائم کیا گیا تھا۔ جموں و کشمیر کے چیف الیکشن کمشنر اور جموں کشمیر کے چیف الیکٹورل آفیسر بطور ممبر ہیں جبکہ جموں و کشمیر کے پانچ ممبران اسمبلی بطور ایسوسی ایٹ ممبران ہیں۔ حد بندی کمیشن کے قیام کا اہم مقصد ریاست جموں و کشمیر کے انتخابی حلقوں کی ازسر نو حد بندیاں تھیں تاکہ ہندو آبادی کی اکثریت پر مشتمل اِنتخابی حلقے تشکیل دیئے جائیں جس کے نتیجے میں جموں کے نمائندوں کو ریاستی اسمبلی میں اکثریت حاصل ہو جائے تاکہ ریاست کی اگلی حکومت ہندوؤں پر مشتمل ہو اور کشمیری مسلمانوں کی اسمبلی میں نمائندگی کم سے کم ہو۔ اَب حد بندی کمیشن کی طرف سے پانچ مئی کو جاری کردہ جموں و کشمیر میں اسمبلی اور پارلیمانی حلقوں کی حد بندی کے لیے جاری کردہ حتمی رپورٹ بھارتی حکومت کے اِنھی مقاصد کو حاصل کرتی دکھائی دیتی ہے۔ حد بندی کمیشن نے اسمبلی کی سات نشستوں میں اضافہ کیا ہے- جموں میں چھ (اب 43 نشستیں) اور کشمیر میں ایک (اب 47)۔ اس سے پہلے جموں کے لیے 37 اور کشمیر کے لیے 46 نشستیں تھیں۔ کمیشن نے موجودہ اسمبلی سیٹوں کے ڈھانچے میں بھی بڑے پیمانے پر تبدیلیاں کی ہیں تاکہ آئندہ ہونے والے نام نہاد اِنخابات میں بھی بی جے پی امیدواروں کی جیت کو یقینی بنایا جاسکے اور جموں و کشمیر اسمبلی میں ہندو نمائندوں کو اکثریت حاصل ہوسکے۔ جب حد بندی کی بنیاد 2011 کی مردم شماری ہے، تو تبدیلیوں کا مطلب ہے کہ 44 فیصد آبادی (جموں) 48 فیصد سیٹوں پر ووٹ ڈالے گی، جب کہ کشمیر میں رہنے والے 56 فیصد باقی 52 فیصد سیٹوں پر ووٹ دیں گے۔ سابقہ سیٹ اپ میں 56 فیصد آبادی والے کشمیر کے پاس 55.4 فیصد سیٹیں تھیں اور 43.8 فیصد والے جموں کے پاس 44.5 فیصد سیٹیں تھیں۔ جموں کی چھ نئی نشستوں میں سے چار میں ہندو اکثریتی آبادی ہے۔ خطہ چناب کی دو نئی نشستوں میں سے ڈوڈا اور کشتواڑ اضلاع پر مشتمل پیڈر سیٹ پر مسلمان اقلیت میں ہیں۔ کشمیر میں، ایک نئی نشست کپواڑہ میں ہے، جو پیپلز کانفرنس کا گڑھ ہے جسے بی جے پی کے قریب دیکھا جاتا ہے۔ مودی اور امیت شاہ کی قیادت میں بھارتیہ جنتا پارٹی کا یہ اِیجنڈا ہے کہ جموں و کشمیر کی اسمبلی میں پہلی مرتبہ ہندو اکثریت کے ساتھ ہندو وزیرِاعلیٰ بنایا جائے جس کے لیے فلسطین میں اِسرائیل کی طرف سے اَپنائے گئے ماڈل کو اِختیار کیا گیا ہے کیونکہ شق 35 اے کے خاتمے کے بعد سے ریاست جموں و کشمیر میں آبادی کے تناسب میں تبدیلی لانے کے لیے غیر مقامی افراد کو کشمیر میں آباد کیا جارہا ہے اور انہیں ڈومیسائل جاری کیے جارہے ہیں اور قیاس یہی ہے کہ عنقریب نئی بستیاں بھی قائم کی جائیں گی جن میں غیر کشمیریوں کو آباد کیا جائے گا۔ کشمیر کے تمام سیاسی رہنماؤں نے انتخابی حلقوں کی نئی حد بندیوں کی مخالفت کی ہے کیونکہ ہندوستان میں انتخابی حلقوں کی حد بندی کا عمل 2026 میں ہونا ہے جبکہ صرف کشمیر میں قَبل اَز وَقت حد بندی کا ہونا بذاتِ خود سوالیہ نشان ہے۔ مقبوضہ جموں و کشمیر پاکستان اور اِنڈیا کے درمیان ایک تصفیہ طلب معاملہ ہے جس کو اِنڈیا نے اقوامِ متحدہ سمیت عالمی فورم پر ایک متنازع اِیشو تسلیم کیا ہوا ہے۔ 1972 میں ہونے والے شملہ معاہدہ سمیت بھارت اور پاکستان کے مابین فروری 1999 میں ہونے والے " لاہور اَمن معاہدہ" میں جموں و کشمیر کو متنازعہ اِیشو تسلیم کیا گیا ہے۔ اِس کے بعد دونوں ملکوں کے مابین کَمپوزِٹ ڈائیلاگ" کے تحت منعقد ہونے والے بات چیت کے مختلف راؤنڈز میں آٹھ نکاتی اِیجنڈا کی فہرست میں بھی جموں و کشمیر کا تنازعہ پہلے نمبر پر رہا ہے۔ بھارتی حکومت کے اِن اَقدامات کا مقصد کشمیری مسلمانوں کو طاقت کی بدولت کشمیر پر انڈیا کے ناجائز قبضے کو تسلیم کرنے پر مجبور کرنا ہے جس کے بعد "زمینی حقائق" کی بنیاد پر پاکستان کے ساتھ مزاکرات کرنا ہے تاکہ ہندوستان ریاست جموں و کشمیر پر اپنے ناجائز قبضے کو برقرار رکھ سکے۔ پاکستان اور اِنڈیا کے مابین پرامن اور دِیرپا تعلقات صرف اسی وقت ہی ممکن ہو سکتے ہیں جب تک کشمیر کے مسئلے کا کشمیریوں سمیت تمام فریقوں کے لیے ایک قابلِ قبول حل تلاش ہو سکے۔