نئی دہلی،سرینگر (نیٹ نیوز) مودی سرکار نے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حثیت ختم کرنے کے 8 ماہ بعد کشمیریوں پر ایک اور وار کر دیا،مقبوضہ جموں و کشمیر کیلئے ڈومیسائل کا نیا قانون نافذ کر دیا ہے جسکے تحت اب نہ صرف بھارتیوں کیلئے شہریت لینے کی راہ ہموار ہو گئی ہے بلکہ وہ جائیدادیں بھی خرید سکیں گے ۔ دہلی حکومت کی طرف سے جاری گزٹ نوٹیفکیشن میں جموں و کشمیر کے ڈومیسائل (رہائشی) کی نئی تعریف مقرر کی گئی ہے اور ملازمت کیلئے کچھ نئے ضابطے بھی شامل کئے گئے ہیں۔نوٹیفکیشن کے مطابق جو بھی شخص جموں و کشمیر میں پندرہ برس تک رہائش پذیر رہا ہویا جس نے وہاں 7 سال تک تعلیم حاصل کی ہو اور دسویں اور بارہویں جماعت کے امتحانات وہاں کے ادارے سے دیئے ہوں وہ ڈومیسائل سرٹیفکیٹ کا حقدار ہوگا۔ ایسا شخص سرکاری ملازمتوں کا اہل اور غیرمنقولہ جائیداد کا مالک بھی بن سکتا ہے ۔رہائشیوں میں وہ لوگ بھی شامل ہونگے جو مرکزی حکومت کے اہلکار، پبلک سیکٹر انڈرٹیکنگ کے اہلکار،سرکاری سیکٹر کے بینکوں کے ملازمین، سنٹرل یونیورسٹیوں کے اہلکار مرکزی تحقیقی اداروں کے اہلکار کے طور پر 10 سال تک خدمات انجام دے چکے ہوں، ان اہلکاورں کے بچے بھی رہائشیوں کے زمرے میں شامل کئے جائینگے ۔ان افراد کو بھی ڈومیسائل دیا جائیگا جنہیں راحت اور بازآبادکاری کمشنرنے ریاست میں ہندو پناہ گزین یا یا غیرمقیم رہائشی کا درجہ دیا ہو۔اب تحصیلدار ڈومیسائل سرٹیفکیٹ جاری کرنے کا مجاز افسر ہوگا۔ پہلے یہ کام ریاست کی طرف سے نامزد ڈپٹی کمشنر کرتا تھا۔ اسکے علاوہ مقبوضہ جموں و کشمیر سے متعلق 29 قوانین منسوخ کر دئیے گئے اور 109قوانین میں ترمیم کی گئی ہے ۔نئے قانون کے نفاذ سے سابق وزرائے اعلیٰ کو مفت قیام گاہ سمیت ملنے والی دیگر مراعات بھی ختم کردی گئی ہیں۔سابق وزیراعلیٰ عمر عبداللہ نے اپنے ردعمل میں کہاجب ہم دیکھتے ہیں کہ اس قانون سے کوئی بھی وعدہ پورا نہیں ہوتا تو زخم ہرے ہوجاتے ہیں۔ مودی کی حمایت سے بنائی گئی نئی جماعت ’’اپنی پارٹی ‘‘ کے صدر الطاف بخاری نے اس اقدام کو بدقسمتی قرار دیتے ہوئے کہا یہ وزیر اعظم مودی اور وزیر داخلہ امیت شاہ کے پارلیمنٹ میں کئے گئے وعدوں کے برعکس تھے ۔کنوینر آل پارٹیز حریت کانفرنس عبداللہ گیلانی نے کہا ڈومیسائل قانون کی تبدیلی سے مقبوضہ کشمیر میں آبادی کا تناسب تبدیل ہو گا، یہ قانون کشمیریوں کے حقوق پر ڈاکہ ہے اور اقوام متحدہ کی قراردادوں کی خلاف ورزی بھی ہے ۔پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی نے نئے قانون کو لوگوں کے زخموں پر نمک چھڑکنے کے مترادف قرار دیتے ہوئے اسکی فوری واپسی کا مطالبہ کیا۔ جموں وکشمیر پیپلز کانفرنس نے اس قانون کو تضحیک آمیز قرار دیا۔