ڈیووس میںعالمی اقتصادی فورم کا اجلاس ہوا اور ایک بار پھر وزیر اعظم عمران خان نے عالمی ضمیر کو مقبوضہ کشمیرکو جیل میں تبدیل کرکے وہاں ڈھائے جانے والے بھارتی مظالم کی داستان بھرپور انداز میں سنا کر جھنجھوڑنے کی کوشش کی جو کہ بے سود نظر آتی ہے۔ دنیا بھر کے اہم سربراہان ، دانشور، معاشی، ماحولیاتی، ٹیکنالوجی کے بڑے بڑے نام وہاں موجود تھے لیکن ایسا دکھائی دے رہا ہے کہ اس معاملے پر جانتے بوجھتے بے حسی کا مظاہرہ کیا جا رہا ہے۔ مقبوضہ کشمیر کو جیل بنانے اور وہاں کے باشندوں کا ہر طرح سے ناطقہ بند کرنے ،شہریت کے قانون کے ذریعے بھارتی مسلمانوں کو نشانہ بنانے کے بعد کوئی شک نہیں رہا کہ دنیا کے سامنے بھارت کا گھنائونا چہرہ بے نقاب ہو چکا ہے۔مودی نے کشمیر کی تحریک کے ساتھ منافقانہ طرز عمل اختیار کرنے والوں کو شیشے میں انکا مکروہ چہرہ دکھا دیا ہے اور وہ بھی اب واویلا کرتے نظر آتے ہیں۔ہندوتوا کی ہٹلرانہ سوچ کے بارے میں بھی دنیا میں پوری طرح ادراک پایا جاتا ہے، اور یہ احساس بھی موجود ہے کہ مسئلہ کشمیر عالمی امن کے لئے خطرہ ہے ۔لیکن بین الاقوامی رد عمل ان تمام خطرات کے عشر عشیر بھی نہیں ہے۔ بھارت کے اندر موجود خطرے کی آواز بہروں کو بھی سنائی دے رہی لیکن جو ملک یا شخصیات مودی کا ہاتھ روک سکتی ہیں وہ ایسی انجان بنی ہوئی ہیں جیسے کچھ ہوا ہی نہیں ہے۔کشمیر سے اٹھنے والی آوازیں عالمی ضمیر کو نہ جھنجوڑ پائیں لیکن پورا ہندوستان سراپا احتجاج ہے پھر بھی کسی کے کان پر جوں تک نہیں رینگی۔ امریکہ بہادر دنیا بھر میں تنازعات پیدا کرنے کا شوقین رہا ہے لیکن کشمیرکے مسئلے پر ثالثی کی غیر سنجیدہ پیشکش امریکی تاریخ کے سب سے غیر سنجیدہ صدر آئے دن کر دیتے ہیں جس کو اگلے ہی دن بھارت کی حکومت ٹھکرا دیتی ہے۔ جارج سوروس جو کہ ارب پتی امریکی ہیں اوردنیا کے 120ملکوں میں فلاحی کام اوپن سوسائٹی فائونڈیشن کے ذریعے کر رہے ہیں، وہ اصلی جمہوری نظام اور ملکوں کے درمیان وسیع تر اشتراک کے حامی ہیں انہوں نے عالمی اقتصادی فورم میںانتہائی زوردار تقریر کی ، جس میں دنیا کے طاقتور ملکوں سے انسانیت کو لاحق خطرات کے بارے میں انہوں نے تفصیل سے بات کی۔ شاید وزیر اعظم عمران خان کے بعد وہ واحد شخص ہیں جنہوں نے مودی کے اقدامات سے دنیا کو لاحق خطرات کے بارے میں بہت پر زور انداز میں بات کی ہے۔دنیا کے سیاسی دگرگوں حالات کا ذکر کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ قوم پرستی کھلے معاشرے کی سب سے بڑی دشمن ہے اور جمہوری معاشروں کو سب سے بڑا خطرہ قوم پرستی سے ہے۔’’سب سے بڑا اور خوفناک دھچکا انڈیا میں لگا ہے جہاں جمہوری طریقے سے منتخب نریندر مودی ایک ہندو قوم پرست حکومت قائم کر رہے ہیں‘‘۔جارج سوروس کا مزید کہنا تھا کہ مودی نے مسلم آبادی والے (مقبوضہ کشمیر) کو اجتماعی طور پر معتوب کر رکھا ہے اور جو ملک کے لاکھوں مسلمانوں کو انکی شہریت سے محروم کرنے کی طرف گامزن ہیں۔ دنیا کو اس بات کا احساس نہیں ہو رہا کہ راشٹریہ سویم سیوک سنگھ یا آر ایس ایس کو وزیر اعظم مودی کی شکل میں اکھنڈ بھارت کا خواب پورا کرنے کا ایک نادر موقع ملا ہے اور وہ اس کو کسی صورت ضائع کرنے کو تیار نہیں ہے۔وقتاً فوقتاً اس بارے میں اس ہندو انتہا پسند تنظیم نے کوشش کی لیکن اسکو کو ئی ایسا مضبوط سیاسی یا فوجی سہارا نہیں ملا جس کے ذریعے یہ اپنے اس گھنائونے منصوبے کو پایہ تکمیل تک پہنچاتے۔ برّصغیر کی تقسیم کے بعد کانگریس کی حکومت قائم ہوئی جس نے بھارت کا ایک سیکولر تصوّر قائم کرنے کی کوشش کی لیکن کشمیر کا مسئلہ ہر حوالے سے اسکے گلے کی ہڈی ثابت ہوا ۔ اسکے علاوہ جس طرح انہوں نے دیگر ریاستوں کا الحاق کیا اس نے بھی اسکے سیکولرازم کے دعوے کو بہت پزیرائی نہیں بخشی لیکن وہ اپنے تئیں اس کوشش میں مصروف رہے ،مسئلہ بغل میں چھری منہ میں رام رام والا ہی رہا۔ کہنے کو بھارت دنیا کی سب سے بڑی سیکولر جمہوریت کا دعویدار ہے لیکن اہنسا کے پرچارک گاندھی کو انتہا پسند ہندئووں نے قتل کر دیا۔ سیکولر بھارت کے داعیوں نے اس انتہا پسند ہندو تنظیم کی اقلیتوں خصوصاً مسلمانوں کے خلاف کئی بڑی دہشت گردانہ کاروائیوں کے باوجود آر ایس ایس کو پھلنے پھولنے کا موقع فراہم کئے رکھا۔ بابری مسجد کے مسمار کرنے کے واقعہ سمیت آر ایس ایس ایسے کئی سانحوں کی ذمہ دار ہے جس میں بم دھماکے تک شامل ہیں۔ کشمیریوں کی حق خود ارادیت کی جدوجہد جس کو بھارت بین الاقوامی سطح پر تسلیم کر چکا ہے، کے لئے کاوشوں کو دہشت گردی قرار دینے والوں نے آر ایس ایس کے دہشت گردوں کی کبھی مذمت بھی نہیں کی اور اس جن کو پھلنے پھولنے کا موقع دیا۔ اب یہ جن بے قابو ہو چکا ہے۔ دنیا کے معروف جریدے اکانومسٹ نے اپنے حالیہ ایڈیشن میں شائع ہونے والے مضمون کا عنوان ’’ مودی نے دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت میں تقسیم کی آگ لگا دی ہے‘‘۔اس مضمون میں مودی کو متنبہ کیا گیا ہے کہ انتخابی فتح کی بنیاد بننے والے نفرت کے بیانیے کو’’ امرت‘‘ سمجھنے کی غلطی کی جا رہی ہے۔در اصل یہ بھارت کی سیاست اور جمہوریت کے لئے زہر قاتل ہے۔ اکانومسٹ کے مطابق ،بد قسمتی کی بات یہ ہے کہ اس نفرت کے بیانئے نے مودی اور اسکی جماعت کو بہت بڑا سیاسی فائدہ پہنچایا ہے اور اسکے مقلدین اس بیانئے کے نشے میں سرشار ہیں۔جیسے ہی مودی یا اسکے ساتھی دوسرے مذاہب خصوصاً مسلمانوں کے بارے میں ہرزہ سرائی کرتے ہیں یہ انکے پیروکاروں کے لئے آکسیجن کی طرح ہوتا ہے۔ وہ اور زیادہ قوت سے اقلیتوں کے خلاف بھڑکتے ہیں۔ مقبوضہ کشمیر میں کرفیو اور شہریت کے قانون کے بعد بی جے پی کے پیروکاروں کی اس قسم کے اقدامات کے حوالے سے مودی حکومت سے توقعات بہت بڑھ گئی ہیں۔ اسکے بعد کا قدم بہت خطرناک بھی ہو سکتا ہے۔اگر بین الاقوامی بے حسی اسی طرح برقرار رہی تو اس خطے میں صورتحال خطرناک حد تک بگڑسکتی ہے۔