ہم اپنی بچگانہ لڑائیوں میں مگن ہیں۔ اردگرد کیا ہو رہا ہے اس سے بے خبر ہیں‘ غافل ہیں بلکہ بے پروا ہیں۔اگر ہمارے حکمران اور سیاست دان سنجیدگی اور درد مندی کی نعمت سے محروم نہ ہوتے تو وہ ساری دنیا کے کونے کونے میں آباد کشمیریوں اور پاکستانیوں کو متحرک کر کے نام نہاد عالمی کمیونٹی اور امریکہ جیسے انسانی حقوق اور امن و سلامتی کے ٹھیکیداروں کو جھنجھوڑتے۔ اقوام متحدہ اور سلامتی کونسل سے سوال کرتے کہ تم نے بھارتی درندوں کو نہتے کشمیریوں کے قتل عام کی آزادی کیوں دے رکھی ہے۔ اگر امریکہ کے کسی کونے کھدرے میں کوئی پرندہ زخمی ہو جاتا ہے یا یورپ میں کوئی بھی حادثے کا شکار ہو جائے تو کہرام مچ جاتا ہے۔ اگر چین یا سعودی عرب میں تمہارے مشاہدے اور تجزیے کے مطابق انسانی حقوق پامال ہوتے ہیں تو تم آسمان سر پر اٹھا لیتے ہو مگر کشمیر میں روزانہ دن دہاڑے بھارت ریاستی سرپرستی میں قتل و غارت گری کرتا ہے‘ انسانی حقوق پامال کرتا ہے اور کشمیریوں سے زندہ رہنے کا حق چھیننے کے درپے ہوتا ہے۔ تو تمہارے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی یا تم نے کانوں میں انگلیاں ٹھونس رکھی ہیں اور اپنی آنکھیں بند کر رکھی ہیں۔ کیا اس مجرمانہ غفلت کے بعد تمہیں انسانی حقوق کی دعویداری اور ٹھیکیداری کا کوئی حق پہنچتا ہے۔ ممتاز کشمیری رہنما اور حریت فورم کے چیئرمین میر واعظ عمر فاروق جب بھی بات کرتے ہیں، خوب ناپ تول کر بولتے ہیں اور مبالغہ آرائی سے کام نہیں لیتے۔ انہوں نے سال 2018ء کے اختتام پر کہا کہ گزشتہ ایک برس کے دوران بھارت نے 416کشمیریوں کو شہید کیا ان میں 20خواتین بھی شامل تھیں۔4524کشمیری شہریوں کو زخمی کیا گیا۔ صرف اس ایک برس میں 724افراد سے پیلٹ گنوں کے ذریعے ان کی بینائی چھین لی گئی۔ پانچ ہزار چھ سو نوجوانوں کو گرفتار کر لیا گیا اور 16مرتبہ سری نگر میں کشمیری مسلمانوں کو نماز جمعہ کی ادائیگی سے روکا گیا۔ ادھر ہماری نئی حکومت جو سابقہ حکومت کو مودی کی یاری کا طعنہ دیتی رہی کرتار پور کا راستہ کھول کر ’’عزت سادات‘‘ کو ملیا میٹ کرتے ہوئے بھارت سے مذاکرات اور بات چیت کی بھیک مانگتی رہی۔ تمام پاکستانیوں کو منت سماجت کے جواب میں بھارتی غرور و تکبر اور رعونت کا سامنا کرنا پڑا۔ اگر پروقار انداز اختیار کیا جاتا اور ڈپلو میسی و سفارت کاری کے طور طریقے اختیار کئے جاتے تو نتائج مختلف ہوتے۔ آزاد کشمیر کے صدر مسعود خان منجھے ہوئے سفارت کار اور صاحب علم شخص ہیں۔ وہ عالمی منظر نامے سے بھی کس قدر آگاہ ہیں۔ انہوں نے بھی سال2018ء کے اختتام پر ایک اخبار کو انٹرویو دیتے ہوئے بڑے ذمہ دارانہ طریقے سے بہت سی تشویشناک باتیں کیں۔انہوں نے کہا کہ بھارت جرمن نازیوں کے نقش قدم پر چلتے ہوئے کم رفتار ہولوکاسٹ کے طریقے پر عمل پیرا ہے۔ہولو کاسٹ کیا ہے؟ ہولو کاسٹ دوسری جنگ عظیم کے دوران خوفناک قسم کے جنگی جرائم کا ارتکاب کرتے ہوئے ہٹلر کے نازیوں نے لاکھوں یہودیوں اور دوسرے مخالفین کو موت کے گھاٹ اتارا اور ان کی نسل کشی کے لئے گیس چیمبرز سے لے کر دیگر اجتماعی قتل و غارت گری کے طریقے اختیار کئے۔ ہم بھارت کو اتنی بات بھی باور نہیں کر ا سکے کہ تم کشمیر کو اپنا اٹوٹ انگ کہتے ہو بھلا اپنے شہریوں سے کوئی ایسا بھی سلوک کرتا ہے۔ ہم عالمی کمیونٹی اور انصاف کے عالمی اداروں کو یہ نہیں بتا سکے کہ کشمیری مسلمان اقوام متحدہ اور سلامتی کونسل کی قرار دادوں کے مطابق اپنا حق مانگ رہے ہیں، جس کے جواب میں انہیں بھارتی ریاستی دہشت گردی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔مقبوضہ کشمیر کے نہتے اور مجبور کشمیری اپنے زندہ جاوید جذبوں کے سہارے ’’کشمیر بنے پاکستان‘‘ کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ وہ ظلم کو خاطر میں لاتے ہیں نہ جبر کے ہتھکنڈوں سے ہراساں ہوتے ہیں اور نہ ہی لالچ کے کسی حربے کا شکار ہوتے ہیں۔ ان کا صرف اتنا مطالبہ ہے کہ انہیں سلامتی کونسل اور یو این او نے اپنی قسمت کا آپ فیصلہ کرنے کا جو حق دیا تھا وہ اس حق کی خاطر وہ بے تیغ اپنی جنگ لڑ رہے ہیں۔عالمی کمیونٹی سے یہ سوال کیا جانا چاہیے کہ اگر آج بھی جس کی لاٹھی اس کی بھینس کا قانون لاگو ہے‘ اگر آج 21ویں صدی میں بھی پتھر کے زمانے کا چلن عام ہے کہ ہر کمزور کو طاقتور کے سامنے سرنگوں ہونا چاہیے تو پھر ان انصاف کے عالمی اداروں کا ناٹک بند کر دینا چاہیے اور کشمیر و فلسطین اور برما وغیرہ کے مظلوموں کو بتا دینا چاہیے کہ ہمارے پاس انصاف کے لئے آنے کی ضرورت نہیں اور تمہیں اپنی جنگ خود لڑنا ہو گی۔ زمانہ کوئی ہو صدی کوئی ہو‘ دورِ جدید ہو یا دورِ قدیم قانون فطرت ایک ہی ہے جو ہمیں مرشد اقبال بتا گئے ہیں کہ: عصانہ ہو تو کلیمی ہے کار بے بنیاد قائد اعظم محمد علی جناح نے کشمیر کو پاکستان کی شہ رگ قرار دیا تھا۔ اس کے علاوہ انہوں نے ہمیں تلقین کی تھی کہ بھارت کے کروڑوں مسلمانوں اور لاکھوں کشمیریوں کے تحفظ کا ایک ہی طریقہ ہے کہ پاکستان کو زیادہ سے زیادہ مضبوط بنائو۔ ہم نے قائد اعظم کے دنیا سے رخصت ہونے کے ساتھ ہی پاکستان کو مضبوط بنانے کی بجائے اسے زیادہ سے زیادہ کمزور کرنے کے درپے ہو گئے۔ ہم ایک طرح سے نہیں سو طرح سے پاکستان کو کمزور کرنے کے لئے برسر پیکار ہو گئے۔ ہم نے پاکستان کی دولت کو لوٹ کر اپنے وطن کو کمزور کیا‘ ہم نے سیاسی میدان میں بھی ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے لئے طرح طرح کی سازشیں کیں۔ آج بھی کچھ ہو رہا ہے جو ہم گزشتہ ساٹھ برس سے کرتے چلے آ رہے ہیں۔ اس وقت ہمیں دو چیلنج درپیش ہیں۔ ایک معاشی اور دوسرا سیاسی۔ ہم دوست ممالک کے پاس جا جا کر دستِ سوال دراز کرتے ہیں۔ کشکول گدائی ان کے سامنے پیش کرتے ہیں کہیں سے امداد مانگتے ہیں اور کہیں سے قرض طلب کرتے ہیں‘ ہم بھاری شرح سود پر کمرشل قرض لینے پر آمادہ دکھائی دیتے ہیں اور ہم نہ نہ کرتے آئی ایم ایف کی ہر بات سر جھکا کر تسلیم کرنے پر بھی تیار ہیں۔ اب ہمارے حکمران اسے اپنی شامت اعمال نہیں گردش دہر کی ستم ظریفی کہیں گے کہ ہمیں محض دوچار ارب ڈالر اپنی بگڑتی ہوئی معیشت کے لئے ملے تھے کہ اوپر سے عالمی بینک کی عدالت برائے سیٹلمنٹ آف انوسٹمنٹ نے پاکستان پر 4ارب ڈالر کے جرمانے عائد کر دیے ہیں۔ بیرونی سرمایہ کاری کے تین مقدمات میں عائد کئے جانے والے جرمانے کی عدم ادائیگی پر پی آئی اے کے طیارے 60ممالک میں روک لئے جائیں گے۔ حکمرانوں کو ہوش کے ناخن لینے چاہئیں۔ اپنے کندھوں پر پڑنے والی ذمہ داریوں کا ادراک کرنا چاہیے۔ سیاسی اکھاڑ پچھاڑ بند کر کے ملکی استحکام پر توجہ دینی چاہیے۔ ہر کسی کے مینڈیٹ کا احترام کرنا چاہیے اور معیشت کی بہتری کو پہلی ترجیح قرار دینا چاہیے۔ پاکستان مضبوط ہو گا تو بھارتی مسلمان محفوظ ہو گا اور کشمیری مسلمان کو اسی کا حق خود ارادیت بلا تاخیر ملے گا۔ مگر ابھی تک تو ہم سب کچھ بھول کر سیاسی کھیل تماشے میں مشغول ہیں: ہم تجھے بھول کر خوش بیٹھے ہیں ہم سا بے درد کوئی کیا ہو گا