اگلے ماہ فروری کے وسط میں نریندرمودی سرینگر آ رہے ہیں اس دورے کامقصدمقبوضہ کشمیرکی صورتحال کاجائزہ لینابتایاجاتاہے ۔لیکن واقفان کاکہناہے کہ اس متوقع دورے سے ایسامعلوم ہوتاہے کہ مقبوضہ کشمیرمیں نام نہاد صدرراج کو ختم کرکے بھارت کی طرف سے نہایت عجلت میںنام نہادکشمیراسمبلی انتخابات کرائے جارہے ہیںاوراس طرح ایک بارپھر انتخابی ڈرامہ سٹیج کیاجارہاہے۔ جموں و کشمیر میں مسلمانوں اورہندوئوں دونوں کی سوچ میں بالکل اسی طرح کا فرق ہے کہ جس طرح تقسیم برصغیر اور قیام پاکستان کے وقت واضح فرق تھا ۔ایسے میں جموں و کشمیرمیں ہرپانچ سال بعد انتخابی ڈرامہ سٹیج کیا جاتا ہے اوراس ڈرامے کے نتیجے میں ایک مسلمان چہرہ وزیراعلیٰ نامزد کر دیا جاتا ہے۔ بھارت کی طرف سے رچائے جانے والے اس ڈرامے کی خاص منصوبہ بندی یہ ہوتی ہے کہ دنیا کو بتا دیا جائے کہ ساراکشمیراوراس کی عوام ہندواور مسلمان بھارت کے ساتھ خوش ہیں اسی لئے وہ اپنے وزیراعلیٰ کاانتخاب کرتے ہیں۔واضح رہے کہ جموںوکشمیرمیں نام نہاد انتخابات رائے شماری کا کوئی متبادل نہیں ہیں۔اس لئے جموںوکشمیرمیں نام نہاد انتخابات کی جو بھی تاویل کی جائے گی وہ صریحاً کذب بیانی اورسفید جھوٹ ہے۔ یہ انسانی تاریخ کاسیاہ باب ہے کہ جس لیڈرکی عقل اوندھی گئی ہووہ علویات اورارفع مقاصدکوچھوڑ کرسفلی خواہشات پر ڈھیر ہو جاتا ہے اور پھر اسے قوم کی کربناک ابتلائوں ،بے حدوحساب اوران گنت ہلاکتوں، اذیتوں کے خم خانوں، تکلیفوں کی دھوم، پریشانیوں کے ہجوم ،پلک جھپکتے ہی تہذیب وشرافت لہو لہو کفن دفن اور انسانیت کے دن دھاڑے قتل عام جاری رہنے پرکوئی تاسف نہیں ہوتانہ کوئی پرواہ۔ مقبوضہ جموں و کشمیر کو بالعموم ستر برسوں اور تین عشروں سے بالخصوص اسی اوندھی عقل پرایک بھاری قیمت چکا نی پڑ رہی ہے ۔بھارت نواز سیاست ِ کاروں کا مکر و فن جو قیامتوں سے آنکھیں چراتاہے دیکھ کر کشمیر کا مظلوم مسلمان تاسف و تحیر کے سوالوں میں غوطہ زن ہے ۔ ایسے میں کشمیریوں کی آنکھیں کس طرح ٹھنڈی ہوسکتی ہیںاوران کے قلوب کوکیسے سکون مل سکتاہے۔ اس پیش افتادزمین کا چپہ چپہ اس امرپرگواہ ہے کہ قوت فصاحت اور زور تقریر سے رنگ جمانے والے شیخ عبداللہ نے جب پلٹاکھایا ،اس کے قدم ڈگمگا گئے تو اس نے کشمیرکازاورملول وحزین کشمیریوںکی اس وقت کی تحریک رائے شماری کے تلاطم وتموج سے یکسر بے پروا ہوکرانتخابی سیاست میں اپنے آپ کوجھونک دیا اوربھارت کی چوکھٹ پرماتھاٹیکا،قوم سے کہاکہ اس انقیادوتسلیم کے سواکوئی چارہ کارنہیں،قوم چونکہ بالعموم ان پڑھ تھی جسے نفع ونقصان کاصحیح ادراک نہ تھااوروہ شیخ عبداللہ کی ملائم اندازگفتگوسے سحرزدہ تھی شیخ عبداللہ کی کایا پلٹ کوبھارت کے خلاف منصوبہ بندی سمجھ رہی تھی کہ شایدوہ الحاق پاکستان کی منزل تک پہنچنے کے لئے بھارت کودھوکہ دینے کے لئے اپنے آپ اورقوم کو مضبوط بنانے کے لئے حکمت سازی کررہے ہیں۔ مگر اس وقت کشمیرکے صاحبان فکرادراک جوتعدادمیں قلیل تھے نے شیخ عبداللہ سے ناطہ توڑا، ان کی کروٹ بدلنے کوسفیہانہ طرزعمل قراردیتے ہوئے ان کی فاسدانہ مکاریوں اورفریب کاریوںسے اپنے اورہم خیالوں کومتروک اورمہجورکرگئے۔ کشمیرکے اس وقت کے قد آو رلیڈر کا بھارتی آئین کے تحت انتخابی سیاست میں حصہ لینے کے بعدسے بھارت نے جموں کشمیر کوایسی تجربہ گاہ بنا دیا کہ اپنے جابرانہ قبضے کو برقراررکھنے کے لئے وہ اپنے مہرے بدلتارہا ہے۔ یہ صاف ،واضح ،معتدل اور بے غل وغش بات ہے بھارت نے جموں و کشمیر میں اسے دستیاب آنے والے ان مہروں کو اس نے کبھی بھی اپنے بھروسے کے قا بل ہی نہ سمجھا۔سچ یہ ہے کہ نئی دہلی کی تیکھی نظروں میں جو سیاسی مہرہ سر اٹھانے کی کوشش کرتا رہا تو اس مہرے کوبدل دیاگیا۔ شیخ عبداللہ کو بخشی کے ذریعے ہٹایا گیا اوپھر فاروق عبداللہ کے ساتھ یہی سلوک ہوا کہ اسے اپنے ہی بہنوئی گل شاہ کے ہاتھوں دھول چاٹنے پر مجبور کردیا گیا۔بھارت کا جب اپنے مفادکا کام پوراہواتویہ تاریخ ہے کہ مہرے بدلنے میں اندرا عبداللہ ایکارڈاور راجیوفاروق ایکارڈکسی کام نہ آسکانئی دہلی کو کشمیر میں اپنے مقاصد اور مفاد کے علاوہ کچھ اور قابل قبول نہیں ہوتا۔بھارت کوجب اپنے مفاد پر ضرب لگنا محسوس ہوئی تواندراعبداللہ اور راجیو،فاروق اکارڈ سے اسے کوئی لینادینانہ رہا۔ سوال یہ ہے کہ بھارت نے شیخ خاندان کے مہرے تبدیل کیوں کئے ؟ شیخ عبداللہ سے فاروق عبداللہ اور پھر عبداللہ نے نام نہاد’’ اٹونامی کا‘‘ راگ الاپنابندنہیں کیاتواس پر دہلی نا خوش ہوئی حالانکہ جس نام نہاد اٹامومی کی وہ راگ الاپتے ہیںوہ ذلت اوررسوائی کے سواکچھ بھی نہیں تھا کیونکہ وہ بھارتی فیڈریشن کاحصہ بنتے ہوئے کشمیریوں کوبس کشمیری سمجھنے کے سوااورکچھ بھی نہیں۔شیخ خاندان کی ایسی ’’اٹانومی ‘‘جوبھارتی مفادکاتحفظ کررہی تھی کو بھی بھارت قابل اعتبار نہیں سمجھتا اسے یہ ڈرلاحق ہے کہ آگے چل کر یہ لوگ اپنے آپ کوخاص الخاص سمجھتے ہوئے مسائل پیداکریں گے۔ دہلی کی جانب سے نام نہاد اٹانومی کے نعرے کو دفن کرنے کے لئے نیامہرہ تراشاگیااور مفتی سعید کو سری نگر کی کرسی پر براجماں کر لیاگیا۔لیکن مفتی سعید اور ان کی بیٹی محبوبہ مفتی نے بھی جب اپنا راگ نام نہاد ’’ سیلف رول ‘‘کے نام سے الاپا جس پردہلی کے تیور تیز ہو گئے اوراسے کانٹوں کی سیج سے اتاراگیا۔اب بھارت کئی نئے مہروں کوتراش کرسامنے لاناچاہتاہے کہ جوکوئی اٹانومی اورکوئی سیلف رول کی بات نہ کر سکے۔ واضح رہے یہ دونوں اموربھارت نوازوں کی اقتدار میں رہنے کے لئے لولی پاپ ہیں قربانیوں کا مجسمہ بنے ہوئے اسلامیان کشمیرکسی اٹانومی یاپھرکسی سیلف رول کومانتے ہیں اورنہ ہی اسکے لئے اپنی عظیم قربانیاں پیش کرتے ہیں ۔ملت اسلامیہ ان دونوں امورکوبھارتی غلامی کانیاٹائٹل سمجھتے ہیں۔