اردو ادب کی تاریخ وہ آئینہ ہے جس میں ہم زبان اور اس زبان کے بولنے اور لکھنے والوں کی اجتماعی وتہذیبی روح کا عکس دیکھ سکتے ہیں۔ادب میں سارے فکری ،تہذیبی ،سیاسی ،معاشرتی اور لسانی عوامل ایک دوسرے میں پیوست ہو کر ایک وحدت، ایک اکائی بناتے ہیں اور تاریخ ادب ان سارے اثرات ،روایات،اور محرکات اور خیالات و رحجانات کا آئینہ ہوتی ہے ۔ ادبی تاریخ لکھنے والوں پریہ ذمہ داری عائد ہے کہ وہ ادبی مظاہرکو سیاسی ،معاشی،سماجی ، اور فنی ماحول میں پیش کرنے کی کوشش کریں ۔جب ہم کسی خاص ادبی دور کا تجزیہ کریں گے تو یہ تجزیہ محض ادب کے شعبہ تک محدود نہیں رکھیں گے بلکہ ہم اس دور کے سماجی علوم،اقتصادیات،دیومالا ،سیاسی تاریخ ، تہذیبی و ثقافتی عوامل ،فلسفہ اور نفسیات وغیرہ کی روشنی میں اس دور کا تجزیہ مکمل کریں گے۔ اس مطالعہ میں بنیادی اہمیت تو ادب ہی کو حاصل رہے گی مگر ادب پر اثر انداز ہونے والے دیگر عوامل اور محرکات کا مطالعہ بھی ساتھ ساتھ کریں گے ۔اس طرح ہم ادبی تاریخ کو ایک وسیع تناظر میں دیکھ سکیں گے۔ کسی مخصوص علاقے کی ادبی تاریخ لکھنے کے لئے اور باتوں کے علاوہ اس علاقہ کے مختلف ادبی و ثقافتی اداروں اور سیاسی سرگرمیوں کے جائزے پر بھی اصرار کیا جاتا ہے ۔ مختلف سماجی اداروں، سیاسی تحریکوں اور ثقافتی تنظیموں اور بدلتی ہوئی جمالیاتی اور اور ادبی و علمی قدروں کا تفصیلی جائزہ لینے کی ضرورت ہے یہ بھی دکھاجائے کہ اردو ادب میں افراد نے ان تحریکوں کا اثر کیسے قبول کیا ۔کون لوگ روایت سے چمٹے رہے ،کن لوگوں نے ظالمانہ روایات کے خلاف بغاوت کی۔ سماج کے ساتھ افراد کی نجی زندگی کے اتار چڑھائو کا جائزہ بھی لینے کی ضرور ت ہے ۔ادبی تاریخ نگاری کے حوالے سے اردو کے اور بھی کئی دانشوروں نے اپنے اپنے تصورات پیش کئے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ادب کے اس تاریخی مطالعے کے لئے زبان کی خصوصیات کے علم کے علاوہ تاریخ اور تہذیب کا گہرا شعور اور سماج کے پیچ در پیچ رشتے کا علم اور جمالیات ،فلسفے اور معانی و بیان کے ساتھ ان زبانوں کے ادب کا علم بھی ضروری ہے جن سے یہ زبان خاص طور پر متاثر ہوئی ہے ۔ادبی تاریخ کو بیک وقت تہذیبی آدرش اور اہم خیالات کی تاریخ پیش کرنی ہوگی ۔پھر ان خیالات کی کیفیت اور ما ہیئت کی تلاش میں عمرانی اور تاریخی پس منظر واضح کرنا ہو گا ،اور ہمارے شعرا اور ادیبوں کی زندگیوں کے حالات اور ان کی شخصیت اور فن کا تجزیہ کرنا ہو گا جنہوں نے ہمارے ادب پر عہد آفریں اثرات چھوڑے ہیں ۔ مغربی ادبی مورخ کسی بھی فن کار کے بارے میں چاہے وہ اس کا ہم عصر ہی کیوں نہ ہو ایک رائے قائم کر لیتا ہے اور انتخاب اس کے صوابدید پر منحصر ہوتاہے لیکن اردو میں ایسے مظاہر سے بچنے کی کوششیںکی جاتی ہیں ۔میرے خیال میں اس رحجان کو بدلنا چاہئے مجھے دبستانوں سے چِڑ نہیں ہے لیکن کوئی ضروری نہیں کہ کسی فن کار کو کسی نہ کسی اسکول سے وابستہ کر کے ہی گفتگو کی جائے۔ ادبی تاریخ نگاری سے متعلق مندرجہ بالامختلف اور کسی حد تک متضاد خیالات کا تجزیہ کریں تو چند باتیں نمایاں طور پر سامنے آتی ہیں۔اردویاکسی بھی زبان کی ادبی تاریخ لکھتے ہوئے سب سے پہلے اس زبان کی ابتدا و ارتقا کا جائزہ ،سماجی، ثقافتی اور ثقافتی تناظرات کے ساتھ پیش کیا جاناچاہئے۔ اولاً۔ادبی تاریخ میں شاعروںاورنثر نگاروںکے سوانحی حالات شامل ہوں۔ ثانیا۔ادبی تاریخ میں تحقیقی اور تنقیدی عناصر کا ہونا بھی لازمی ہے ۔ثالثا ۔ ادبی تا ریخ میں ہر دور کے فنی، جمالیاتی اور لسانی تغیرات کی نشاندہی کی جانی چاہئے۔ رابعا۔ ادبی تاریخ میں شاعروں/ ادیبوں کے سماجی، ثقافتی، معاشی ،مذہبی اور سیاسی شعور پر بھی روشنی ڈالنا ضروری ہے ۔ جہاں تک مقبوضہ جموں و کشمیر ، کاتعلق ہے تو مقبوضہ علاقہ ہونے اور غلامی میں پڑے رہنے کے باعث اس میں اردو کے حوالے سے سے ابھی تک کوئی جامع ادبی تاریخ نہیں لکھی گئی ۔اگرچہ برسوں پہلے پروفیسر عبد القادر سروری نے کشمیر میں اردو کے نام سے اس ریاست کی ایک بسیط ادبی تاریخ لکھی تھی ۔ جسے جموں اینڈ کشمیر اکیڈمی آف آرٹ کلچر اینڈ لینگویجیز سرینگرنے ریاست کے مشہور مصنف اور نقاد محمد یوسف ٹینگ کی نظر ثانی اور نگرانی میں تین جلدوں میں بالترتیب ، ،میں شائع کیا تھا ۔حبیب کیفوی نے بھی کشمیر میں اردو کے نام سے ہی جموں و کشمیرکی ایک ادبی تاریخ لکھی تھی جسے مرکزی اردو بورڈ لاہور نے شائع کیا تھا ۔لیکن جہاں سروری کی تاریخ میں اور حبیب کیفوی کی تصنیف میں ادب اور ادیبوں کی ہی تاریخ کا احاطہ کیا گیا ۔اس طرح کم و بیش گزشتہ پچاس برسوں میں ریاست جموں و کشمیر کیسے کیسے سماجی و سیاسی ،ثقافتی و معاشی مد و جزر سے گذری ، اور ریاست کے اردو ادب اور ادیبوں نے، برِصغیر بلکہ عالمی سطح پر نمایاں ہونے والے ادبی رویوں، رحجانات،نظریات اور تحریکات کے اثرات کس حد تک قبول کئے ۔ادبی تاریخ لکھتے ہوئے ، سنی سنائی باتوں کے بجائے اصل ماخذات کی بنیاد پر ہی کوئی رائے قائم کی جانی چاہئے ۔ادبی تاریخ میں ان قدیم غیر مطبوعہ یا نایاب مسودات، دواوین،کلیات اور تصنیفات کی نشاندہی کی جانی چاہئے جن کی از سر نو تدوین و اشاعت ،اردو زبان و ادب کے طالب علموں ، ریسرچ اسکالرں اور قارئین کے لئے کار آمد ثابت ہو سکتی ہیں۔ادبی تاریخ میں شاعرانہ رنگین عبارت آرائی سے پرہیز کرتے ہوئے سادہ ،سلیس زبان اور عام فہم پر تاثیر اسلوب اختیار کرنا چاہئے تاکہ تاریخ ادب کے نکات کی ترسیل قارئین تک آسانی سے ہو جائے۔ تاریخ ادب کو پڑھ کر آنے والی نسلیں ،جن میں آج کی نسل بھی شامل ہے اپنے تخلیقی رویوں اپنی قدروں ،اپنے کلچر،اپنے جمالیاتی معیارات پرنظر ثانی کر کے ،تخلیقی روح کو تازہ دم کر سکتے ہیں اور انہیں ،تاریخی شعور کے ساتھ ،تبدیل کر سکتے ہیں ۔ادبی تا ریخ کا کام یہ نہیں کہ وہ ہمیں یہ بتائے کہ اس میں کیا نہیں ہے بلکہ یہ بتائے کہ فی الواقع اس میں کیا ہے۔ ہمیں اپنے شاعروں ،ادیبوں اور فکشن نگاروں کا اپنے ادب اور روایت کے حوالے ہی سے مطالعہ کرنا چاہئے ناکہ چوسر، شیکسپیئر، کالرج ا ور گوئٹے وغیرہ سے انہیں ملا کراپنی تہذیبی روح کو مسترد کرتے ہوئے کہا جائے کہ ا س میں تو وہ نہیں ہے جو شیکسپئیر اور گوئٹے کے ہا ں ملتا ہے ۔ہماری تہذیبی روح مغرب کی تہذیبی روح سے مختلف ہے اس لئے ایک کے معیار سے دوسرے کو جانچا نہیں جا سکتا۔