جس طرح ہرقوم میں غدارپائے جاتے ہیں توکشمیرمیں بھی غداروں کاایک ٹولہ موجودہے جواپنی گردن میں ہمیشہ کے لئے بھارت کاطوق غلامی رکھناچاہتا ہے۔انہی غداروں میں سے ایک غدارمحبوبہ مفتی ہے۔ اقتدارکے مزے چھن جانے کے رنج سے نڈھال مقبوضہ کشمیرکی سابق خاتون کٹھ پتلی وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی نے 7دسمبر سوموارکو اپنے والد کی تیسری برسی کے موقع پر بہانہ تراشتے ہوئے رو روکر ماتمی اجلاس بلایا، محفل جمائی، اپنے والدکا نوحہ پڑھا اور کشمیرکی صورتحال پرخوب ٹسوے بہائے، خوب سینہ سینہ کوبی کی، ماتھا پیٹا، اوروالدکی لوحِ مزار پکڑ کراپنے دل کے چھالے دکھائے۔ابھی یہ ڈرامہ جاری ہی تھا کہ کوئی دل جلا آیا ، چیخ کر بولاکہ میڈم فی الحال سیاسی اصطبل میں تمہاراکوئی نمبردکھائی دے رہاہے۔ مودی نے کشمیری نوجوانوں کے قتل عام کاجوکام تم سے لیناتھالے لیا‘بس یہی مطلوب ومقصودتھا۔اب سیاسی اصطبل میں مرحوم عبدالغنی لون کے بیٹے اورلبریشن فرنٹ کے بانی مرحوم امان اللہ خان کے داماد سجادلون کوباندھ رکھنے کافیصلہ ہوچکاہے۔چونکادینے والی یہ خبربرق کی مانند محبوبہ مفتی پرگرپڑی اوراس کے ہوش اڑ گئے ۔ لیکن کچھ دیر بعدجب وہ ہوش میں آئیں تو پینترا بدلا بولیں کہ ’’میں اپنے دور اقتدار میں کشمیری بچوں کے قتل عام پر شرمندہ ہوکراہل کشمیرسے ہاتھ جوڑے معافی مانگتی ہوں ۔ شکستہ دل ہوکربولی انقلاب زندہ باد۔ اس طرح اس نے 2016ء میں قابض بھارتی فوج کے ہاتھوں شہیدہوے والے کشمیری نوجوانوں کو شہید قرار دیا اور قریباً اڑھائی سال کے بعداس ہرزہ سرائی پر معافی مانگی ،جو اس نے بطور وزیر اعلیٰ2016ء میںبڑے پیمانے پر کشمیری نوجوانوںکی شہادتوںکے خلاف دیا تھا ۔ مقبوضہ کشمیرکی سابق کٹھ پتلی وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی نے اپنے دوراقتدارمیں بھارتی وزیر داخلہ راجناتھ سنگھ کی موجودگی میں سری نگرپریس کانفرنس کے دوران اس وقت ہونے والی سینکڑوںکشمیری نوجوانوں کی شہادتوں پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا تھاکہ یہ ’’بچے فورسز کیمپوں میں ٹافی(Toffee) یا دودھ لانے نہیں جاتے۔‘‘دراصل وہ کہناچاہتی تھی کہ جیسی کرنی ویسے بھرنی۔محبوبہ مفتی کی اس یاوہ گوئی پر مقبوضہ کشمیرکے طول وعرض میں اسکے پتلے نذر آتش کئے گئے تھے۔ اپنے معافی نامے میں مقبوضہ کشمیرکی سابق کٹھ پتلی وزیر اعلیٰ کاکہناتھاکہ اگر میرے 2016ء میں دیئے گئے بیان سے کشمیرکے عوام کے جذبات مجروح ہوئے ہیں تو میں اہل کشمیر سے معذرت چاہتی ہوں،اس سے بڑھ کر میں اور کیا کر سکتی ہوں؟ اس کا کہنا تھا کہ اپنے والد کی موت کے بعد بھارتیہ جنتا پارٹی’’ بی جے پی ‘‘کے ساتھ مجبوری کے تحت حکومت بنا نا پڑی حالانکہ بی جے پی کے ساتھ حکومت بنانے کے حق میں نہیں تھی لیکن اسے اپنی ہی پارٹی کے بعض لیڈروں نے ایسا کرنے پر مجبور کیا۔ محبوبہ مفتی نے کہا کہ بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے اسے مایوس کیا۔ نریندرمودی نے واجپا ئی کے اصول اپنائے اورنہ ہی پاکستان سے کشمیرپرکوئی بات کی جسکی وجہ سے کشمیر میں حالات اور زیادہ بگڑ گئے۔ ہند پاک تعلقات کے حوالے سے محبوبہ مفتی کاکہناتھاکہ جب تک پاکستان اور حریت کانفرنس کے ساتھ بات چیت نہیں ہوتی ،تب تک کشمیر میں بات چیت کا ماحول نہیں بننے گا اوریہ کہ پاکستان اور حریت کانفرنس سے مذاکرات یا مکالمہ لازمی ہے ،لہٰذا اس حوالے سے حکومت ہند کی جانب سے اقدام اٹھانے کی ضرورت ہے ۔مقبوضہ کشمیرکی سابق کٹھ پتلی وزیراعلیٰ محبوبہ مفتی نے کشمیری عوام سے معافی طلب کرتے ہوئے کہاکہ پلوامہ اور شوپیان اضلاع میں شہیدہوئے مجاہدین کے اہل خانہ کو تنگ نہیں کیا جانا چاہئے اور گورنرراج اوربی جے پی کی حکومت تک یہ پیغام پہنچاناچاہتی ہے کہ کشمیری مجاہدین کے ساتھ لڑائی کے دوران ہمیں ان کے گھروالوں کو ہراساں نہیں کرنا چاہئے۔ تاریخ کشمیرکایہ المناک باب ہے کہ غداران کشمیر کا جب اقتدارچھن جاتاہے تووہ فوراََسے پیشتر پینترا بدل لیتے ہیں۔یہ المناک باب اس وقت سے رقم ہوتا رہاہے کہ جب شیخ عبداللہ نے اپنی منافقت سے آتش ِچنارسلگائی، اقتدار بھی ہاتھ آیا تو ترنگے کے رنگ میں رنگے گئے ۔500قبرستان آباد کرنے ایک لاکھ سے زائدکشمیری مسلمانوں کوابدی نیندسلادینے، دس ہزار سے زائدکشمیری مسلمانوں کواپنے گھروں سے اٹھا کر لاپتہ اورغائب کر دینے ،ایک لاکھ سے زائد بچوں کویتیم بنانے، ہزاروں خواتین کوبیوہ اور نیم بیوہ بنانے، بستیوں کی بستیاں خاکستر کرنے تازہ جارحیت کے نتیجے میں پیلٹ اور گولیوں سے 15 ہزار کو زخمی کرنے اور 10ہزار سے زائد کی گرفتاری عمل میں میں لانے کے بعدبھارت نواز کشمیر کا اقتداری ٹولہ کا معافی مانگناکوئی معانی نہیں رکھتا‘چاہے وہ محبوبہ مفتی ہو،فاروق عبداللہ ہویااس کا بیٹا عمر عبداللہ۔ کشمیری عوام اس امرکوخوب سمجھتے ہیں کہ یہ سب محض فریب کاری، دھوکہ دہی اور اہل کشمیرکے جذبات کااستحصال کرنے کی فرسودہ چال ہے ۔ جھوٹی ہمدردی دکھانا،زخم دیکرمرہم لیکرسامنے آجانا،جھوٹے وعدے کرنا اور کشمیری عوام کو سبز باغ دکھانابھارت نوازٹولوںنیشنل کانفرنس اور پی ڈی پی کا شیوا رہا ہے۔ نوجوانان کشمیرپوری شرح وبسط کے ساتھ اس امر کو سمجھتے ہیں کہ بھارت نوازسیاسی سوداگروں کی سیاست خالصتا ایک خود غرض، مفاد پرست اور ناقابلِ اعتبار بے پیندے کے لوٹے کا نام ہے۔گفتار کے یہ غازی اور کردار کے نام نہاد قاضی اپنے بھاشن بدلنے میں لمحے بھر کی دیر نہیں کرتے۔ انہیں پل بھر کے لیے بھی یہ احساس نہیں ہوتا کہ ضمیرنام کی کوئی شے بھی ہوتی ہے،یاکوئی شرم بھی ہوتی ہے ۔ وہ لوگ جن کی کرسی بلکہ گدی چھن جائے تو کجامی شودراست بازی، حق گوئی اور اصول پسندی کے اعلی معیارات کے بہت بڑے داعی اور دعویدار ہوا کرتے ہیں،لیکن گدی ملنے کے معاًبعدوہ کس طرح اچانک منافقت، چرب زبانی، مطلب پرستی کے اسیر ہو کر رہ جاتے ہیں کہ انہیںاپنی دوغلے پن اورنوسربازہونے پر کوئی ندامت کا احساس نہیں ہوتا۔ اِسی لیے تاریخ کشمیرمیں اگر کوئی طبقہ سب سے زیادہ طوطا چشم ، بددیانت اور خود غرض لکھاجائے گا تو وہ یہی طبقہ ہے۔خود نمائی، شہرت طلبی اور ہوس اقتدار میں اِس قدر غرق ہو جاتے ہیں کہ پھرضمیرکی کوئی آواز،کوئی ضابطہ ،کوئی آدرش ،کوئی اصول اور کوئی نظریہ ،دین اسلام اورمسلمانیت سے وابستگی دین سے کوئی رشتہ ان کی نظر میں کوئی اہمیت نہیں رکھتا۔