10 فروری 1984ء کو کپل سبل نے چیف جسٹس ، جسٹس چندرا چوڑ کی عدالت میںخصوصی اور فوری سماعت کیلئے عرضی دائر کی۔ سبل نے زور دار بحث کرکے دلیل دی کہ ہائی کورٹ کی طرف سے سزا کی توثیق کئے بنا ، سزائے موت پر عملدرآمدنہیں ہوسکتا ہے۔ انہوں نے ہائی کورٹ کے رجسٹرار کی دستخط و مہر شدہ سند بھی پیش کی۔ اٹارنی جنرل کے پراساران نے دلائل کا جواب دیئے بغیر بس ایک سادہ ٹائپ شدہ کاغذ چیف جسٹس کے حوالے کیا ، جس پر کسی کے دستخط نہیں تھے، اور دعویٰ کیا کہ یہ جموں و کشمیر ہائی کورٹ کا توثیق نامہ ہے۔ چیف جسٹس نے سبل کی اپیل مسترد کی اور مداخلت کرنے سے انکار کیا۔ بس ایک مراعت کے نام پر مظفر بیگ، رمیش چندر پاٹھک اور راجہ محمد طفیل کو تہاڑ جیل میں آخری ملاقات کی اجازت دی۔ اس حکم نامہ کو لیکر تینوں افراد تہاڑ کی جیل نمبر تین کے گیٹ کے باہر پہنچے ، جہاں انکو گھنٹوں انتظار کروایا گیا۔ سورج غروب ہو رہا تھا ، کہ ایک جیل افسر نے باہر آکر کہا کہ بس رمیش چندر پاٹھک پانچ منٹ کیلئے قیدی سے اس کی سیل میں ملاقات کر سکتے ہیں۔ پاٹھک ہائی سکیورٹی وارڈ کی پیچ در پیچ برآمدوں کو پار کرتے ہوئے اس پورشن میں پہنچے، جہاں پھانسی پانے والے مجرموں کو آخری دس دن رکھا جاتا ہے۔ راقم بھی2002ء میں تہاڑ جیل کے اس سیل میں کئی روز قید رہا ہے، تاآنکہ رحم کھاکر جیل انتظامیہ نے بعد میں جنرل وارڈ میں منتقل کیا۔ پاٹھک نے پوری عدالتی کاروائی مقبول بٹ کے گوش گزار کی۔ انہوں نے پاٹھک کا شکریہ ادا کیا اور مظفر بیگ و راجہ محمد طفیل تک بھی شکریہ پہنچانے کیلئے کہا۔ پاٹھک کی غالباً1997ء میں موت ہوئی ۔ ان کی دختر وسندرا پاٹھک مسعودی بھی فی الوقت سپریم کورٹ کی نامور وکیل ہے۔ بقول پاٹھک، جن کے ساتھ دہلی میں انکے چیمبر اور انکے گھر پر اکثر ملاقاتیں ہوتی تھیں، مقبول بٹ کے آخری الفاظ تھے۔’’کل مجھے پھانسی پر چڑھایا جائیگا، مجھے کوئی افسوس نہیں ہے‘‘۔ ہمیں معلوم ہے کہ ہم ہیں چراغ آخری شب، ہمارے بعد اندھیرا نہیں اجالا ہے۔ نہ مسکرائو میری بے بسی پر اے تارو۔تم اپنی خیر منائو کہ رات جاتی ہے۔ اس کے بعد پاٹھک نے اپنی ڈائری میں انگریزی میں مقبول بٹ کا آخری جملہ درج کیا ہو ا تھا۔ "I am confident that tomarrow my chidren (peopel of Kashmir) will realise the truth and legitimacy of what I stood for all these years and for what I am today sacrifising my life." ’’مجھے یقین ہے کہ کل میرے بچوں(کشمیر عوام)کو میری جدوجہد کی سچائی کا ادراک ہوگا، جس کیلئے میں آج اپنی زندگی قربان کر رہا ہوںــ‘‘ اگلے روز 11فروری کی صبح مظفر بیگ بی بی سی کے نمائندے ستیش جیکب کے ہمراہ جیل کے گیٹ پر آپہنچے کہ جیل کے افسر نے باہر آکر اعلان کیا کہ صبح سویرے مقبول بٹ کو تختہ دار پر لٹکایا گیا ہے اور انکی نعش کو جیل کے احاطہ میں ہی دفن کر دیا گیاہے۔ بیگ نے وکالت نامہ دکھا کر ڈائری و قیدی کے زیر استعمال دیگر اشیاء حوالے کرنے کا مطالبہ کیا ۔ جیل افسران نے ایسی کسی بھی چیز کی موجودگی سے لاعلمی کا اظہار کیا۔ مقبول بٹ اور افضل گورو کا کیس بھارتی عدلیہ کے منہ پر ایک زور دار طمانچہ ہے۔ مجھے یاد ہے کہ قانون کے کئی طالب علموں نے حق اطلاعات قانون کا سہارا لیکر کئی بار سپریم کورٹ سے مقبول بٹ کے کورٹ پیپریز مطالعہ کرنے کی درخواست دائر کی تھی، جس کو متعدد بار مسترد کر دیا گیا۔ ان دونوں افراد کو تختہ دار تک پہنچانے میں کشمیر کی سب سے بڑی سیاسی جماعت نیشنل کانفرنس بھی کچھ کم ملوث نہیں ہے۔ اس پارٹی کے لیڈروں کے دامن پر یہ ایک بدنما داغ ہے، جو شاید ہی کبھی دھل سکے۔ اقتدار کی نیلم پری کے قرب نے اس پارٹی کو نہ صرف بزدل بنا کر چھوڑا ہے ، بلکہ اس کے لیڈروں کی خود اعتمادی بھی چھین لی ہے۔ مقبول بٹ کی پھانسی کے سلسلے میں جو رول 1984ء میں فاروق عبداللہ نے ادا کیا تھا، ان کے فرزند عمر عبداللہ نے فروری 2013ء میں اسی کا اعادہ کرکے ایک بار پھر ثابت کیا کہ وہ تاریخ سے کوئی سبق حاصل کرنے کے اہل نہیں ہیں۔8فروری 2013ء کی رات جب وہ دہلی کے ایک ریسٹورنٹ میں ڈنر کر رہے تھے ، تو وزیر داخلہ سشیل کمار شنڈے نے انکو فون کر کے بتایا کہ ’’جو بات اس دن ہوئی تھی ، وہ کل ہو رہی ہے، خیال رکھیئے گا۔‘‘ دس روز قبل 30جنوری کو عمر عبداللہ کی ملاقات شنڈے سے ان کے دفتر میں ہوئی تھی اور ان کو آگاہ کر دیا گیا تھا۔ بتایا جاتا ہے کہ ریاستی حکومت نے گران قدر یہ مشورہ دیا تھاکہ اگر پھانسی پر عملدرآمد کرنا ہے تو موسم سرما میں ہو کیونکہ دارالحکومت سرینگر شفٹ ہونے کے بعد سکیورٹی میں پیچیدگیاں پیدا ہو جائیں گی۔ وہ پنجاب کی اکالی دل حکومت یا تامل ناڈو میں تامل قوم پرستوں کی صوبائی حکومت کی پیروی کرسکتے تھے۔ آخرکیا وجہ ہے کہ وزیر اعظم مودی کی سخت گیر حکومت بھی بلونت سنگھ روجانہ اور دیوندر پال سنگھ بھلیر کی عدالت کی طرف سے دی گئی سزائے موت پر عملدرآمد نہیں کر پاتی ہے؟تامل ناڈو حکومت راجیو گاندھی کے قتل کی معاونت میں 27 سالوں سے جیل میں بندمجرموں کو آزاد کرنے پر بضد ہے۔ سابق وزرائے اعظم اندرا گاندھی،راجیوگاندھی کے قاتلوں ،جنوبی بھارت کے بدنام زمانہ ڈاکو ویراپن کے ساتھیوں ، حتیٰ کہ ممبئی بم دھماکوں میں ملوث یعقوب میمن کی رحم کی درخواستوں پر کئی دن سپریم کورٹ نے سماعتیں کیں ۔ ان کے نا منظور ہونے پر ان کے اہل خانہ کو مطلع کیا اور انہیں سپر یم کورٹ میں نظر ثانی کی درخواست کے لیے مہلت دی گئی لیکن مقبول بٹ اور محمد افضل گورو کے سلسلے میںدہرا معیاراپنایاگیا۔ آخر کیوں؟