ٹیکس جمع کرنے والے ادارہ ایف بی آر کے سابق سربراہ اور ٹیکس امور کے ماہر شبر زیدی کا کہنا ہے کہ پاکستان کے کاروباری حضرات کے ڈیڑھ سو ارب ڈالر بیرون ملک بینکوں میں جمع ہیں جن پر انہیں بہت کم منافع ملتا ہے۔ اگر وہ یہ رقم پاکستان لے آئیں تو انہیں زیادہ شرح سے منافع ملے گا اور ملکی معیشت کو بھی فائدہ ہوگا۔ حکومت کئی بار ترغیبات دے چکی ہے لیکن قابل ذکر رقم ملک میں واپس نہیں آتی۔ بیرون ملک سے ملکی دولت واپس لانا تو دُور کی بات ہے۔ ہماری ریاست اتنی کمزور ہے کہ اپنے ملک میں امیر اور اعلیٰ متوسط طبقہ کے لوگوں سے پُورا ٹیکس وصول نہیں کرسکتی۔بڑے بڑے زمینداروں‘ وڈیروں کی کروڑوں روپے سالانہ آمدن ہے لیکن آئین کے تحت وفاقی حکومت اُن سے انکم ٹیکس سمیت کوئی بھی ٹیکس لینے کا اختیار نہیں رکھتی۔اُلٹا وفاقی حکومت انہیں رعائتی نرخوں پر کھاد‘ بیج اور بجلی مہیا کرتی ہے جس پر ہر سال قومی خزانہ سے سینکڑوں ارب روپے کی سبسڈی دی جاتی ہے۔ زرعی بینک کے رعایتی قرضوں کا بیشتر حصہ یہ بڑے زمیندار ہڑپ کرجاتے ہیں۔ پارلیمان میںجاگیرداروں‘ بڑے زمینداروں کی اکثریت بیٹھی ہے۔ وہ وفاقی حکومت کوآئینی شق میں ترمیم کی اجازت نہیں دیتے۔صرف صوبے زرعی زمین پر ٹیکس لگا سکتے ہیں۔ صوبائی اسمبلیاں بھی ان وڈیروں کے قبضے میں ہیں۔ صوبائی حکومتیں زمینداروںسے جو ٹیکس وصول کرتی ہیں وہ نہ ہونے کے برابر ہے۔ اس سے پچاس گنا زیادہ ٹیکس تو کراچی کی کسی ایک مارکیٹ کے دکانداروں سے جمع ہوجاتاہے۔ دُکاندار بھی صرف کراچی ایسے بڑے شہر کے قابو آتے ہیں۔ باقی ملک میں چالیس‘ پچاس لاکھ سے زیادہ ایسے دکاندار‘ تاجر ہیں جو ٹیکس نہیں دیتے۔ وہ انکم ٹیکس ریٹرن بھی جمع نہیں کراتے۔ حکومت سختی کرے تو پورے ملک میں ہڑتالیںشروع ہوجاتی ہیں۔ حکومت بے بس ہوجاتی ہے۔کسی منتخب ‘سیاسی حکومت میں ملک بھر کے تاجروں‘ وکیلوں‘ڈاکٹروں سے ٹیکس وصول کرنے کی ہمت نہیں۔سیاسی تقاضوں اور معیشت میں تصادم ہے۔ ملکی معیشت کو پٹری پر لانے کے لیے سخت اور وقتی طور پر نامقبول فیصلے کرنے کی ضرورت ہے۔ سیاسی حکومتیں ایسے اقدامات کرنے سے ڈرتی ہیں کہ عوام میںحمایت کھو بیٹھیں گی۔ اسلیے ہر حکومت ڈنگ ٹپاؤ پالیسی پر عمل کرتی ہے۔ قرض لیتی ہے اور ایک نمائشی ‘ ناپائیدار معاشی ترقی کو جاری رکھتی ہے۔ اسوقت وفاقی اورصوبائی حکومتوں کے اخراجات انکی آمدن سے تقریباًدوگنا ہیں۔ جو فرق ہے وہ قرضوں سے پُورا کیا جاتا ہے۔ جب تک ٹیکس وصولی کے لیے ایف بی آر میں بڑے پیمانے پر اصلاحات نہ کی جائیں اوروصولی کے سخت قدامات نہ کیے جائیں پاکستان کا قرض بڑھتا رہے گا۔ جب قرض بڑھے گا تو مہنگائی بھی ہوگی۔ پاکستانی کرنسی بھی بتدریج اپنی قدر کھوتی جائے گی۔ وزیراعظم عمران خان نے صرف کرنسی کی مصنوعی قدر کو مارکیٹ کے مطابق کم کیا تو انکے خلاف زبردست ہنگامہ برپاہوگیا۔ پاکستانی ریاست کی عملداری کمزور ہے۔ جو فیصلے ملک و قوم کے مفاد میں کرنا ضروری ہیں حکومت انہیں ڈر ڈر کر جزوی طور پر کرتی ہے یا بالکل ہاتھ نہیں لگاتی۔ حکومت بجلی فراہم کرنے پر فی یونٹ تین روپے خسارہ برداشت کررہی ہے۔ نتیجہ ہے کہ بجلی کے شعبہ کا قرض دو ہزار ارب روپے سے زیادہ ہوچکا ہے۔ حکومت بجلی کے ریٹ اسکی لاگت کے مطابق بڑھانے سے خوفزدہ رہتی ہے کہ عوام ناراض ہوں گے۔درآمدی گیس مہنگی پڑ رہی ہے لیکن حکومت میں حوصلہ نہیں کہ اسکی پوری قیمت وصول کرسکے۔ سرکاری کاروباری اداروں کو ہر برس سینکڑوں ارب روپے کا نقصان ہوتا ہے۔ ان میں ضرورت سے زیادہ لوگ بھرتی کیے گئے ہیں اور بددیانتی عام ہے۔ حکومت ان اداروں کو بند نہیں کرتی کہ بے روزگار ملازمین کا احتجاج سیاسی مسئلہ بن جائے گا۔ تمام حکومتی ملازمین کی تعداد تیس لاکھ سے زیادہ ہے ۔ انکی تنخواہیں عوام کے ٹیکسوں سے ادا کی جاتی ہیں۔حکومت چلانے کو اتنے ملازمین کی ضرورت نہیں ہے۔ کم سے کم ایک تہائی ملازمین فالتو ہیں۔ لیکن حکومتیں اپنا سائز کم نہیں کرتیں کہ بیروزگار ہونے والے سڑکوں پر آجائیں گے۔ آپ جتنے مرضی ہسپتال بنالیں ان میں رش کم نہیں ہوگا۔ حکومت بہبود آبادی اور خاندانی منصوبہ بندی کے پروگرام چلانے سے گریزاں ہے کہ ملک کی قدامت پسند طبقے اسکے خلاف اُٹھ کھڑے ہوںگے۔ مزاحمت کے خوف سے بڑے لیکن اہم فیصلے نہ کرنے سے ملک کی جڑیں کھوکھلی ہورہی ہیں۔معاشی اور سماجی مسائل پیچیدہ ہوتے جارہے ہیں۔ جب تک ریاست چند بڑے مشکل فیصلے نہیں لے گی‘ ہماری معیشت اپنے پاؤں پر کھڑی نہیں ہوسکتی۔ ملک کی تقریباً ایک چوتھائی آبادی خوشحال ہے لیکن وہ ریاست کو پُورا ٹیکس نہیں دے رہی۔ جب تک وہ ریاست کو اسکا حق نہیں دے گی معاشی بحران جنم لیتے رہیں گے۔ ملک کو ایسی سیاسی قیادت کی ضرورت ہے جو وقتی طور پر نامقبول فیصلے کرنے سے نہ گھبرائے۔ ٹیکسوں کی وصولی کے لیے اصلاحات اور سخت اقدامات کرے۔خسارے میں چلنے والے حکومتی ادارے بند کرے۔بجلی اور گیس کی قیمتوں کو انکی لاگت کے برابر لائے۔ شمسی توانائی میں بھاری سرمایہ کاری کرے۔ تعلیم کے بجٹ کو دو گنا کرے۔ موٹرویز بنانے کی بجائے نجی شعبہ کے اشتراک سے صنعتی کارخانے لگا ئے تاکہ روزگار پیدا ہو‘ حکومتی آمدن میں اضافہ ہو۔خاندانی منصوبہ بندی کے پروگرام پر بڑے پیمانے پر عمل کروائے۔ ملک کو مضبوط و مستحکم بنانے کے لیے ایسی حکومت کی ضرورت ہے جو وقتی سیاسی مصلحتوں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے لازمی‘ دیرپا اقدامات کرے جنکے نتائج پانچ سے دس برسوں میں ظاہر ہوں گے۔ غریب تو کچلا ہوا ہے۔وہ تو اپنی بقا کی جنگ میںجُتا ہوا ہے۔ ذمہ داری متوسط طبقہ کی ہے کہ وہ حقائق کو سمجھے اور ذمہ داری کامظاہرہ کرے۔اگر ہم نے بحیثیتِ قوم آج مشکل فیصلے نہ کیے‘ کڑوے گھونٹ نہ پیے تو رفتہ رفتہ خدانخواستہ اپنی آزادی اور خود مختاری کھودیں گے۔