چین اور رُوس نے دنیا پر امریکہ کی آہنی گرفت کو ڈھیلا کرنے کے لیے ایک بڑا فیصلہ کیا ہے۔ دونوںممالک مل کر موجودہ عالمی بینکنگ نظام کا ایسا متبادل تیار کرنے جارہے ہیں جس پر امریکہ کی اجارہ داری نہیں ہوگی۔ چین کے صدر شی جن پنگ اور رُوسی صدر ولادی میر پیوٹن کی پندرہ دسمبر کو ویڈیو کانفرنس کے ذریعے سوا گھنٹے تک بات چیت ہوئی ،جس میںانہوں نے دونوں ملکوں کے درمیان تعاون بڑھانے کے لیے اہم اقدامات کرنے کا فیصلہ کیا۔ پیوٹن نے اس ملاقات کے بعد کہا کہ چین اور رُوس کے تعلقات اکیسویں صدی میں ریاستوں کے درمیان حقیقی تعاون کا نمونہ ہیں۔ ا س ملاقات میں دونوں صدور نے بین الاقوامی تجارت کے لیے امریکہ کے زیرانتظام کام کرنے والے عالمی فنانشل نظام سے آزاد مالی ڈھانچہ بنانے پر اتفاق کیا۔ روسی میڈیا کے مطابق اس کا باقاعدہ اعلان اگلے برس کے آخرتک کردیا جائے گا ۔ رُوس اور چین کے درمیان کئی شعبوں میں گہرا تعاو ن پہلے سے موجود ہے جن میں باہمی تجارت‘ دفاع‘ تیل اور گیس ‘مالیات (فنانس)‘ خلائی پروگرام اور کورونا وبا سے نپٹنے کے شعبے شامل ہیں ۔ چین زمینی راستے سے دنیا کے مختلف خطوں کو جوڑنے کے منصوبہ بیلٹ اینڈ روڈ پر تیزی سے کام کررہا ہے جبکہ روس نے یورپ اور ایشیا کے کئی ملکوں پر مشتمل بلاک یوریشیا اکنامک یونین (ای اے ای یو) تشکیل دی ہوئی ہے۔ دونوں ممالک ان منصوبوں کو آپس میں جوڑنے پر کام کررہے ہیں۔ بین الاقوامی سیاست میں عالمی تجارت کی کلیدی اہمیت ہے ۔اس تجارت کا بہت انحصار سمندری راستوں پر ہے ۔انکل سام کے دس بحری بیڑے سمندروں میں تیرتی ہوئی بڑی فوجی چھاؤنیاں ہیں جن پر فضائی اڈّے بھی بنے ہوئے ہیںاور جد ید ترین جنگی طیارے‘ میزائیل موجود رہتے ہیں ۔ یہ بیڑے نیلے پانیوں پر امریکہ کی چودھراہٹ قائم رکھتے ہیں۔ بیلٹ اینڈ روڈ اور یوریشیا اکنامک یونین کے ذریعے زمینی راستوں سے بین الاقوامی تجارت کو فروغ مل رہا ہے اور آنے والے برسوں میں مزید ملے گا۔ بحری راستوں کا متبادل وجود میں آرہا ہے۔ پاکستان میں سی پیک منصوبہ اسی بڑے تزوویراتی پروگرام کا ایک ٹُکڑاہے۔ امریکہ نے دنیا کو اپنا محکوم بنائے رکھنے کے لیے جو طریقے اختیار کیے ہوئے ہیں ان میں اسکی کرنسی ڈالر ہے جو دنیا میں سونے کی بجائے استعمال ہوتی ہے اوراسکے انتظام میںچلنے والا عالمی بینکنگ نظام ہے جو نیو یارک سے کنٹرول ہوتا ہے۔ گزشتہ برس دنیا بھر کے بینکوں کے پاس 6800 ارب امریکی ڈالر ریزرو کرنسی (زرمبادلہ کے ذخائر)کے طور پر جمع تھے جبکہ اسکے مقابلہ میں صرف 221 ارب ڈالروں کے برابر چینی کرنسی یوآن کے ذخائر تھے۔ ملکوں کے درمیان رقوم کی ترسیل اور کرنسی کا تبادلہ امریکہ کے قائم کیے ہوئے بینکنگ کے نظام اور سویفٹ سسٹم کے ذریعے ممکن ہے۔ دنیا کے دو سو سے زیادہ ملکوں میں گیارہ ہزار سے زیادہ بینک اور درجنوں مالی ادارے امریکہ کے سویفٹ نظام کے ذریعے رقوم منتقل کرتے ہیں۔ جس ملک کاناطقہ بند کرنا ہو امریکہ اس ملک پر معاشی پابندیاں عائد کردیتا ہے اور اسکی تجارت کو تقریبا ًتباہ کردیتا ہے۔ واشنگٹن یہ کام اقوام متحدہ سے بالا بالا انجام دے سکتا ہے۔ جیسے سال دو ہزار بارہ سے امریکہ نے ایران سے تجارت کرنے اور عالمی بینکنگ نظام استعمال کرنے پر پابندیاں عائد کی ہوئی ہیں۔ صدر اوبامہ کے دور میں یہ پابندیاں ڈھائی برس کیلیے ختم کی گئیں تھیں لیکن صدر ٹرمپ نے دوبارہ عائد کردیں۔ امریکہ ایران سے تجارت نہیں کرتا۔ اگر کوئی اور ملک ایران سے تجارت کرے تو اس پر بھی امریکی قانون کے تحت امریکی پابندیاں عائد ہوجاتی ہیں۔ اسی لیے بھارت نے ایران سے تیل خریدنا چھوڑ دیا۔ جب سے طالبان نے کابل کا کنٹرول سنبھالا ہے افغانستان پر بھی عالمی بینکنگ کے دروازے بند کردیے گئے ہیں۔ امریکہ کو کسی ملک کو تباہ و برباد کرنے کی غرض سے جنگ کرنے کی ضرورت نہیں ۔وہ معاشی ‘ بینکنگ اور کاروباری پابندیوں کے ذریعے کسی ملک کو بے پناہ نقصان پہنچا سکتا ہے۔ حالیہ برسوں میں امریکہ عالمی فنانشل نظام پر اپنی اُجارہ داری کا استعمال ہتھیار کے طور پربڑھاتا جارہا ہے۔ان دنوں یورپ اور امریکہ کی روس سے اسکے ہمسایہ ملک یوکرائن کے معاملہ پر چپقلش چل رہی ہے۔ یورپ اور امریکہ نے رُوس کو دھمکی دی ہے کہ اگر اس نے یوکرائن کے خلاف فوجی کارروائی کی تو اس پر سخت ترین معاشی پابندیاں لگائی جائیں گی۔ امریکی حکام نے کہا ہے کہ رُوس عالمی بینکنگ نظام اور سویفٹ سسٹم استعمال نہیں کرسکے گا۔ ان دھمکیوں کے فوراً بعد چین اور رُوس کے صدور نے ویڈیو لنک پر بات چیت کی اور نئے فنانشل نظام کو قائم کرنے پر اتفاق کیا تاکہ امریکہ کی روز روز کی بلیک میلنگ کا خاتمہ کیا جاسکے۔دونوں ممالک پہلے ہی خاصی باہمی تجارت امریکی ڈالر کی بجائے اپنی اپنی کرنسیوں یوآن اور رُوبل میں کرتے ہیں۔ چین اور ایران بھی اپنی اپنی کرنسیوں میں باہمی تجارت کرتے ہیں۔ چین نے رقوم منتقل کرنے کے لیے اپنا ایک نظام ’ایس پی ایف ایس ‘بنایا ہوا ہے۔لیکن چین کے بڑے بینک سویفٹ نظام سے بہت زیادہ جڑے ہوئے ہیں۔ اسی طرح رُوس نے رقوم منتقل کرنے کا ’سی آئی پی ایس‘ نامی ایک نظام بنایا ہوا ہے لیکن یہ چھوٹے پیمانے پر کام کرتا ہے۔ اگر دونوں ملک مل کرسویفٹ کی ٹکّرکا ایک بڑا فنانشل نظام بناتے ہیں تو اس سے ایشیا ‘ لاطینی امریکہ کے کچھ اہم ممالک اور افریقہ کے ممالک بھی منسلک ہو جائیں گے اور عالمی تجارت کرسکیں گے۔ اس نظام کو کئی علاقائی تعاون کی تنظیموں جیسے آسیان‘ برکس اور شنگھائی تعاون تنظیم ( ایس سی او)اور متبادل مالیاتی اداروں جیسے چین کی سربراہی میں قائم ایشیائی انفراسٹرکچر انویسٹمنٹ بینک وغیرہ کا تعاون حاصل ہوگا۔ نئے متبادل عالمی بینکنگ نظام کا قیام عالمی معیشت اور عالمی سیاست میں ایک اہم تبدیلی ہوگی۔ اس سے عالمی معاشی نظام پر امریکی گرفت مکمل ختم تو نہیں ہوگی لیکن کمزور ہوجائے گی۔