جدید دنیا کے معاشی نظام کی بنیاد انسانی لالچ اور حرص کو بڑھانے پر ہے۔اسکے نزدیک انسان محض ایک معاشی حیوان ہے۔ لوگ زیادہ سے زیادہ خرچ کریں۔ نت نئی چیزیںخریدتے رہیںاور کاروباری کمپنیاں‘ بینک ڈھیر سارا منافع بٹورتی رہیں۔ اسلیے ہر چیز کے نئے نئے ماڈل آتے رہتے ہیں۔ انکی تشہیر کی جاتی ہے تاکہ لوگوں کو پرانی چیز چھوڑکر نئے ماڈل کی وہی چیز خریدنے کی ترغیب ہو ۔ نیا موبائل فون، نئے ڈیزائن کا ٹیلی ویژن‘ نئے ماڈل کی کار۔ اس عمل میں دنیا ہر قسم کے کوڑے سے بھرتی جارہی ہے۔ زمین کا ماحول تباہ ہورہا ہے۔ فائدہ دنیا کے امیر اُٹھارہے ہیں۔ نقصان غریبوں کو بھگتنا پڑرہا ہے۔ماحولیاتی اسکالر ٹیلرڈ کی 2000 میں کی جانے والی تحقیق کے مطابق دنیا کی چھیاسی فیصداشیا اورخدمات سے بیس فیصدامیر ترین لوگوں نے استفادہ کیا جبکہ دنیا کے غریب ترین بیس فیصد لوگوں کے حصّہ میں صرف ایک فیصد اشیا اور خدمات آئیں۔ سرمایہ داری معاشی نظام کا وصف ہے کہ یہ پہلے خود ایک مسئلہ پیدا کرتا ہے ۔ جب مسئلہ سنگین ہوجاتا ہے تو اسے حل کرنے کے لیے لمبی چوڑی مہم شروع کردی جاتی ہے۔ایک صدی سے زیادہ سگریٹ نوشی کو فروغ دیا گیا ۔ اربوں ‘ کھربوں ڈالردنیا بھر میں سگریٹ نوشی کے اشتہاروں پر خرچ کیے گئے۔ سگریٹ نوشی سے کینسر‘ دل کے امراض بڑھ گئے تو سگریٹ نوشی کے خلاف عالمی مہم چلانا پڑی۔ بین الاقوامی معاہدے کیے گئے۔ ڈیڑھ پونے دو سو سال تک یورپ اور امریکہ نے کوئلہ جلا کرصنعتی ترقی کی۔ اسٹیم انجن بنائے۔ ریل گاڑیاں چلائیں۔ ایک سو سال پہلے پیٹرولیم دریافت کرلیا تو کوئلہ کے ساتھ ساتھ پیٹرول‘ ڈیزل پھونکنا شروع کردیا۔ پیٹرول سے چلنے والی موٹر گاڑیاں بنا لیں۔نجی کاروں کا رواج عام کیا گیا۔ بینکوں نے صارفین کو موٹر گاڑیاں خریدنے کیلیے آسان قرضے دیے۔ہزاروں سال میں زیرِ زمین بننے والا کوئلہ اور پیٹرولیم کا بیشتر ذخیرہ صنعتی عہد شروع ہونے کے بعد دو اڑھائی سو سال میںپھونک ڈالا تو احساس ہُوا کہ اس سے زمین کی فضا بہت آلودہ ہوگئی ہے۔ زمین کا درجۂ حرارت بڑھتا جارہا ہے۔ زمین پر زندگی کے وجود کو خطرہ لاحق ہے۔ اب فوسل ایندھن کا استعمال کم کرنے کی مہم چلائی جارہی ہے ۔اسکا استعمال کم کرنے کی خاطر عالمی معاہدے کیے گئے ہیں۔ پیٹرولیم ہی سے پلاسٹک تیار کیا جاتا ہے۔ ہر دوسری چیز پلاسٹک کی بنی ہوئی ہے۔ انیس سو پچاس میں دنیا نے تئیس لاکھ ٹن پلاسٹک سے استفادہ کیا۔ دو ہزار پندرہ میں پلاسٹک کا استعمال بڑھ کر پینتالیس کروڑ ٹن ہوچکا تھا۔ یہ وہ ایجاد ہے جو زمین کے ماحول کے لیے تباہ کُن ہے۔ اسکا وقتی فائدہ ہے۔ طویل مدت میںشدید نقصان۔ کپاس‘ لکڑی سے بنی اشیا وقت کے ساتھ گل سڑ کر زمین کا حصہ بن جاتی ہیں۔ پلاسٹک بہت طویل عرصہ تک تحلیل نہیں ہوتا۔ یہی حال شاپر بیگ کا ہے۔ دو ہزار پندرہ تک دنیا میں پلاسٹک کی بنی ہوئی بے کار‘ متروک اشیا کا سات ارب ٹن کوڑا جمع ہوچکا تھا۔ اسکا صرف نو فیصد حصّہ ایساتھا جسے ریسائکل کرکے نئی چیزیں بنالی گئیں۔ بارہ فیصد کو جلایا گیا جس سے فضا آلودہ ہوئی۔ باقی تقریبا اسّی فیصد بے کار پلاسٹک زمین پر بکھرا ہوا ہے۔اسی طرح دنیا بھر کے درخت کاٹ کاٹ کر کاغذ کی صنعت کو پروان چڑھایا گیا۔کمپنیوں نے کھربوں ڈالر کمائے ۔ جنگل صفا چٹ ہوگئے تو خیال آیا کہ یہ دنیا کے پھیپھڑے ہیں۔ زمین کو آکسیجن فراہم کرتے ہیں۔ درخت اگائے جائیں۔ جنگلات کو کاٹنے کا عمل روکا جائے۔ اب کھربوں ڈالر درخت اگانے پر صرف کیے جارہے ہیں۔ فائدہ کسی نے اٹھایا۔ نقصان کسی اور کا ہوا۔ تلافی کوئی اور کرے گا۔ یہ ایک شیطانی چکرّہے۔ نام نہاد ترقی یافتہ ملکوں میں اپنایا گیا بے تحاشا اشیا کے استعمال پر مبنی یہ طرزِ زندگی پائیدار نہیں۔تادیر قائم نہیں رہ سکتا۔ اس کا فطرت سے تصادم ہے۔ لیکن دنیا کے ترقی پذیر ملک بھی یہی ماڈل اختیار کرنا چاہتے ہیں۔ جدید تعلیم سے آراستہ لوگ وہی لائف اسٹائل نقل کرتے ہیں جس کا رواج امریکہ‘ یورپ میں ہے۔ماہرین کا تخمینہ ہے کہ گزشتہ نصف صدی میں انسانوں نے اتنی مقدار میں اشیا اورخدمات استعمال کیں جو اس سے قبل آنے والی تمام انسانی نسلوں نے مجموعی طور پرنہیں کی تھیں۔ اگر ساری دنیا کے لوگ مغربی یورپ کے اوسط آدمی کی طرح زندگی گزاریں تو اسکے لیے ہماری زمین کے وسائل ناکافی ہیں۔ان ضرورتوں کو پُورا کرنے کی خاطرزمین ایسے تین سیّاروں کی ضرورت ہوگی۔ ظاہر ہے یہ ناممکن بات ہے۔ ایک طرف امیر ممالک کے باشندوںاور ترقی پذیر ممالک کے دولتمند طبقات کی پُرتعیش زندگی ہے تو دوسری طرف دنیا کے ایک ارب انسان انتہائی غربت کا شکار ہیں۔ کسمپرسی کی زندگی گزار نے پر مجبور ہیں۔ بھوک اور بیماری سے نبرد آزما ہیں۔ یورپ میں ماحول دوست طرزِ زندگی اختیار کرنے اور صارف کلچر کی روک تھام کے لیے سرکاری اور غیر سرکاری سطح پر بڑی کوششیںکی جارہی ہیں۔پائیدار ترقی کی وکالت کرنے والی گرین سیاسی پارٹیاں عوام میں مقبو ل ہوچکی ہیں۔ جرمنی کے حالیہ عام انتخابات میں گرین پارٹی نے بڑی تعداد میں سیٹیںحاصل کی ہیں۔ امریکہ میں ایسا نہیںہے کیونکہ اسکا معاشی نظام زیادہ سے زیادہ اشیا صرف کرنے کی بنیاد پر قائم ہے۔ بدقسمتی ہے کہ اسلامی معاشرے بھی امریکہ اور یورپ کی تقلید میں معاشی ترقی کے اسی ماڈل کی پیروی کررہے ہیں جو زمین کے لیے تباہ کُن ثابت ہوچکا ہے۔ حالانکہ اسلام کی تعلیمات سادہ طرز زندگی کا درس دیتی ہیں۔سرمایہ دارانہ معاشی نظام کے برعکس گرین معیشت کا تصّور اسلام کے نظریات سے قریب ہے۔ پاکستان میں ماحول کی تباہی نے اپنا رنگ دکھانا شروع کردیا ہے۔ سموگ‘ بے وقت بارشیں‘ دریاوں کی آلودگی‘ گلیشئیرکا تیز پگھلاؤ ایسے مظاہر ہماری بقا کے لیے خطرہ بن گئے ہیں۔ ہمیں سرمایہ دارانہ معیشت کی تباہ کاریوں سے سبق سیکھنے کی ضرورت ہے۔اسلام نے فضول خرچی کرنے والوں کی مذمت کی ہے۔ انہیں شیطان کا بھائی قرار دیا گیا ہے۔ ہمیں اپنی معیشت کو سادگی‘ کفایت شعاری‘ مساوات کے زرّیںاسلامی اصولوں کے مطابق منظم کرنے پر غور کرنا چاہیے۔