بھارت کے جنوبی صوبہ تامل ناڈو کی صوبائی اسمبلی کیلئے انتخابی مہم کو دیکھ کر دنیا کا ہر ووٹر ایک سرد آہ بھر کر بس یہی شکوہ کریگا کہ کاش وہ بھی اس صوبہ میں پیدا ہوتا، وہاں کا ووٹر ہوتا ۔ اس وقت تامل ناڈو کے علاوہ کیرالا، مغربی بنگال ، آسام اور مرکزی انتظام والے علاقہ پنڈوچری میں بھی اسمبلی انتخابات ہو رہے ہیں، مگر جس طرح ووٹروں کو لبھانے کیلئے نوازشوں کی بارش تامل ناڈو میں ہو رہی ہیں، و ہ بے نظیر ہے۔ تامل ناڈو کی حکمران جماعت آل انڈیا انًا دراوڑ منترا کھزگم یعنی اے آئی اے ڈی ایم کے، جو مرکز میں بر سر اقتدار بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی اتحادی ہے ، پہلی بار انتخابات اپنے لیڈر اور کرشماتی شخصیت جے جیہ للتا کی غیر موجودگی میں لڑ رہی ہے۔ ان کا چار سال قبل انتقال ہوگیا تھا۔ اسی طرح ان کی حریف دراوڑ منترا کھزگم یعنی ڈی ایم کے، بھی اپنے لیڈر ایم کروناندھی کے بغیر میدان میں ہے ۔ وہ بھی 2018ء میں چل بسے۔ وزیر اعلیٰ کے پلانی سوامی کی قیادت میں حکمران اے آئی اے ڈی ایم کے، نے گھریلو خواتین کو مفت واشنگ مشین فراہم کرنے، کسانوں کے 120 بلین روپے کے قرضے اور تعلیمی قرضے معاف کرنے، رکشہ چلانے والوں کو گرین آٹو دینے کے وعدے کئے ہیں۔ اس سے قبل انہوں نے 2.7ملین طلبہ کو بغیر امتحان دئیے اگلے درجہ میں پرموٹ کرنے کا حکم جاری کردیا۔ اسی طرح طالب علموں کو لبھانے کیلئے 4Gکی رفتار سے دو جی بی انٹرنیٹ بھی مفت فراہم کروایا گیا ۔ غرض چینئی میں جاری کئے گئے اس منشور میں سوغاتیں ہی سوغاتیں ہیں۔ اس کے باوجود ابھی تک کے انتخابی جائزوں کے مطابق حکمران اتحاد بری طرح شکست سے دوچار ہو رہا ہے۔ اس صوبے کی سیاست کا سری لنکا کے تامل مسئلہ سے بھی براہ راست تعلق ہے۔ سری لنکا کی تامل اقلیت دراصل تامل ناڈو سے ہی ترک سکونت کرکے وہاں آباد ہوئی تھی۔چونکہ اس صوبہ میں مسلمانوں کی آبادی محض5.56فیصد ہے اور ہندووں میں بھی نچلی ذات کا تناسب زیادہ ہے، اس لئے یہ شاید واحد خطہ ہے، جہاں ہندو قوم پرستوں کو ووٹروں کو لام بند کرنے کیلئے مسلم مخالف یا پاکستان کارڈ کھیلنا نہیں پڑتا ۔ آزادی سے قبل اس خطہ میں ای وی راما سوامی پیریار نے اعلیٰ ذات ہندووں خصوصاً برہمنوں کے خلاف مہم چلا کر اس صوبہ کی دراوڑ آبادی کو یکجا کرکے خود مختاری کا مطالبہ کیا۔ دراوڑوں کا دعوی ٰ ہے کہ وہ ہندوستان کے اصل باشندے ہیں، جنہیں باہر سے آئے آریہ فرقہ نے ظلم و ستم اور جنگ و جدل کے ذریعے جنوب کی طرف دھکیلا۔ ان کی علالت کے بعد ان کے شاگرد سی نٹراجن اناً درائی نے دراوڑ تحریک کی کمان سنبھالی، جنہوں نے کشمیر کے شیخ عبداللہ کی طرز پر تامل خود مختاری کے مطالبہ سے دستبردار ہوکرحق خود اختیاری یعنی اٹانومی کا نعر ہ دیا ، 1967 ء میں پہلی بار انتخابات میں شرکت کرکے اپنی پارٹی دراوڈ کھزگم کو بھاری اکثریت دلاکر وزارت اعلیٰ کی کرسی سنبھالی۔ ان کی موت کے بعد دراوڑ کھزگم دو دھڑوں میں بٹ گئی ۔ ڈی ایم کے کی قیادت ایم کروناندھی نے سنبھالی اورانًا ڈی ایم کے کی کمان مشہور تامل فلم اسٹار ایم جی راماچندرن کے حصہ میں آئی۔ 1987ء میں رام چندرن یا ایم جی آر کی موت کے بعد فلمی دنیا میں ان کی ہم سفر اور محبوبہ جے جیہ للتا نے ان کی اہلیہ جانکی راماچندرن کو خاصی طویل اور پیچیدہ جد وجہد کے بعد شکست دیکران کی میراث پر قبضہ کرکے پارٹی پر کنٹرول حاصل کرلیا۔ 68 سالہ جیہ للتا دسمبر 2016میں انتقال کر گئی۔ وہ ایک پر اسرار شخصیت تھی۔ ان تک رسائی حاصل کرنا تقریباً ناممکن تھا۔ وہ اپنی پارٹی کے لیڈروں سے بھی ایک طرح کی دوری بنائے رکھتی تھی، مگر اپنی کارکردگی پر ہمیشہ ان کی نظریں رہتیں۔1967ء کے بعد سے یہ دو جماعتیں بار ی باری اقتدار کے مزے لوٹتی آئی ہیں۔ من موہن سنگھ کی سابق کانگریسی حکومت ڈی ایم کے، کی بیساکھیوں پر ٹکی تھی، اسی وجہ سے ان کو تامل پارٹیوں کے وزیروں کی بد عنوانیوں اور سکینڈلوںکو نظر انداز کرنا پڑا تھا۔ اسی طرح وزیر اعظم نریندر مودی بھی بھاری اکثریت ہونے کے باوجود انًا ڈی ایم کے کو خوش رکھنے کے جتن کرتے رہتے ہیں۔ اگرچہ جیہ للتا ایک دراوڑ یعنی برہمن مخالف پارٹی کی سربراہ تھی، مگر وہ خود برہمن تھی۔ ایک تھیوری یہ ہے کہ جب برہمن کسی تحریک کو دبا نہیں پاتا تو عمر بھر اس کی مخالفت کرنے کے بجائے اس کو اپناکر اندر سے کھوکھلا کردیتا ہے۔ اس تھیوری کے ماننے والے ان تامل پارٹیوں کے اندر کرپشن، اقربا پروری اور بے انتہا دولت کے حصول کی تگ و دو کو اسی حکمت عملی کا حصہ بتاتے ہیں۔ (جاری )