کیا عمران خان جنگ ہار چکے ہیں؟کیا عمران خان سے امیدیں وابستہ کرنے والی مڈل کلاس کی اداروں سے ناراضگی کے دن آن پہنچے ہیں؟ سپریم کورٹ کے ایک حالیہ فیصلے کہ جس کے بعدسپریم جوڈیشل کونسل جیسے اعلیٰ ترین آئینی ادارے کے بظاہر عضو معطل ہو جانے کے صحیح یا غلط تاثر نے جہاں ہماری معزز عدلیہ کی ساکھ کو شدید ضعف پہنچایا ہے، تو وہیں عین ممکن ہے کہ ایک خاص سیاسی خاندان کے مقدمات میں دی جانے والی غیر معمولی رعائیتوں نے بھی کچھ پرانے زخموں کو کھرچ کر تازہ کر دیا ہو ۔چنانچہ غالب امکان یہی ہے کہ حالیہ دنوں میں سوشل میڈیا پر اعلیٰ عدلیہ کے خلاف جو مہم دیکھی گئی ، اس کے پیچھے بنیادی محرک اُس رومان پرست پاکستانی مڈل کلاس کی فرسٹریشن ہی ہے کہ جو تبدیلی اور احتساب کے نعروں پر عمران خان کو اقتدار میں لانے کا ایک سبب بنی تھی۔ پاکستان کی ایلیٹ اپر (Upper) کلاس کرپشن کے مقدمات کے منطقی انجام تک پہنچنے میں سب سے بڑی رکارٹ ہے۔ یہ ایلیٹ کلاس دو بڑے حصوں پر مشتمل ہے۔ ایک گروہ بڑے کاروباری گروپوں کے مالکان پر مشتمل ہے، سیاست سے نہیںجن کی دلچسپی محض اپنے کاروبار تک محدود ہے۔ ایلیٹ طبقے کا دوسرا حصہ ان دولتمند سیاستدانوں پر مشتمل ہے جودولت کو اقتدار کے حصول اور اقتدار کو دولت میں اضافے کے لئے استعمال کرتا ہے۔ دولت مند طبقہ اپنی بقا نظام کی بقا میں دیکھتا ہے۔اقتدار میں آکر اسی نظام کے اندر کرپشن کا ایک منظم نظام قائم کرتا ہے۔ ایلیٹ اپرکلاس کا ایک اور نسبتاََ مختصر مگر انتہائی موثر حصہ’’انگلش سپیکنگ‘ یا کم ازکم ’مغرب زدہ‘ اشرافیہ پر مشتمل ہے۔یہ گروہ یوں تو مغرب کی نقالی کرتے ہوئے اعلیٰ انسانی اقدار کا پرچار آئے روز چوک چوراہوں میں کرتا رہتا ہے،تاہم کرپشن کے خلاف کبھی انہیں بھی کسی احتجاجی جلوس یا مارچ کا حصہ بنتے ہوئے نہیں دیکھا گیا۔یہ طبقہ قومی سلامتی کے اداروں کو حقارت کی نگاہ سے دیکھتاہے۔قومی اخلاص کی بنا پر نہیں ، مغرب کے ایما پر ریاستی امور میں سلامتی کے اداروں کی شراکت داری کو کمزور کرنا چاہتا ہے۔ چنانچہ یہ مختصر مگر طاقتور گروہ ، مڈل کلاس طبقے سے اٹھنے والے مغرب زدہ لبرلز ، الیکٹرانک میڈیا کی پیداوار’ نیم خواندہ‘ مزاحمتی صحافیوں اور بھارت نواز سیفما سمیت انڈین کرانیکلز مہروں کے ساتھ مربوط نظام میں منسلک رہتا ہے۔ اس نیٹ ورک کو مغربی دارالحکومتوں اور میڈیا میں بھی رسائی حاصل رہتی ہے۔ اس موثر نیٹ ورک کی تائید پی ٹی ایم، حالیہ پی ڈی ایم ، پی ڈی ایم میں شامل مولانا فضل الرحمٰن کے وردی پوش جتھوںاور کسی ڈیل کی تلاش میںزہر اگلتے باپ بیٹی سمیت کسی بھی ایسے فرد یا گروہ کو غیر مشروط طور پر دستیاب رہتی ہے جو سلامتی کے اداروں سے ٹکرانے کے لئے تیار ہو۔انصاف کے سیکٹر، علیحدگی پسند علاقائی تنظیموں اور میڈیا کے اندر مخصوص پہچان اور مفادات سے وابستگی رکھنے والے عناصر اور اس گروہ کے درمیان کامل یکسوئی پائی جاتی ہے۔ چنانچہ مالی کرپشن کے سنگین الزامات سے آلودہ افراد اگر ایک ’زبردست‘ خطاب یا پریس کانفرنس کر دیں تو زندگی کے ہر شعبے میں موجود اس گروہ کے سر گرم کارندے جھٹ سے ان کے ساتھ آ ن کھڑے ہو جاتے ہیں۔ پاکستان کے طاقتور ایلیٹ طبقے کے علاوہ ہمارے مڈل اور لوئر مڈل کلاس طبقے کے ایک بڑے حصے کو بھی عام تاثر کے بر عکس احتساب کے نعرے سے کوئی دلچسپی نہیں۔پنجاب کے شہری علاقوں میں آباد اس طبقے کا ایک بڑا حصہ آج بھی شریف خاندان کاووٹر ہے ۔ زیادہ تر چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروبار سے منسلک اس ٹریڈر طبقے کی نفسیا ت کو سمجھنے کے لئے ایک ڈاکٹر یاسمین راشد کی مثال کافی ہے۔ کینسر کے مرض میں مبتلا بہادر خاتون کمال بے لوثی سے اپنے فرائض سرانجام د یتے ہوئے بھلے جس قدر بھی نیک نامی کما لیں ، عام انتخابات میں وہ کسی بھی امیدوارسے شکست کھا جاتی ہیں جو اس حکمران طبقے کی نمائندگی کرتا ہو جو ، ’ کھاتا ہے تو کیا ہوا، لگاتا بھی تو ہے‘۔ عدالتوں میں پیشیوں کے مواقع پر بلٹ پروف گاڑیوں کے ساتھ پا پیادہ بھاگنے اوران پر پھول پتیاں برسانے والوں کو اس سے کوئی غرض نہیں ہوتی کہ ان کے رہنمائوں کے خلاف الزامات کی نوعیت کیا ہے۔ دوسری طرف مڈل کلاس کا ہی ایک بڑا اور موثر حصہ عمران خان کو نجات دہندہ سمجھتا ہے۔ اس رومان پرست گروہ میں ڈیفنس اور دیگر نسبتاََ آسودہ حال شہری علاقوں میں بسنے والے خاندان، روائتی سیاستدانوں کے سحر سے آزاد یونیورسٹیوں میں پڑھنے والے شہری نوجوان اور جدید معاشروں سے آگاہی رکھنے والے تارکینِ وطن شامل ہیں۔ اس مڈل کلاس طبقے میںعسکری اداروں کے نوجوان اور مڈل رینکنگ افسروں کی بھاری تعداد کے علاوہ لاکھوں ریٹائرڈ افسران اور ان کے خاندان بھی شامل ہیں ۔تاہم یہ بھی ایک زمینی حقیقت ہے کہ کل ملا کر پاکستانی مڈل کلاس کا یہ حصہ اپنے حجم میں اس قدربڑا نہیں کہ تنہا انتخابات کے نتائج پر فیصلہ کن طور پر اثر انداز ہو سکے۔چنانچہ جہاں اندرونی طور پر اٹھنے والے دبائو کے نتیجے میںعسکری قیادت کے پاس تو عمران خان کے ساتھ کھڑا ہونے کے سوا کوئی چارا نہ تھا، وہیں پنجاب کے شہری علاقوں میں پی ٹی آئی کی بہت بڑی حمایت کے باوجود ن لیگ کا ووٹ بینک آج بھی برقرار ہے۔ اس ’ووٹ بینک‘ کو اس امر سے کوئی غرض نہیں کہ سابق حکمران خاندان اپنی آ مدن سے زیا دہ دولت کا آج تک جواز پیش نہیں کر سکا۔ یہ کہا جا سکتا ہے کہ وزیراعظم روزِ اول کی طرح آج بھی پنجاب کی ’گڈ گورننس‘ کے پیچھے عزمِ مصمم کے ساتھ کھڑے ہیں اورکثیر تعداد میں ہم جیسے رومان پرست مڈل کلاس پاکستانی ٹی وی سکرینوں کے سامنے تلملائے بیٹھے اب بھی کسی معجزے کے منتظر ہیں۔ جہانگیر ترین گروپ کی بغاوت ہو ، شریف شریف سے معاملات ہوں یا رنگ روڈ جیسے نت نئے سکینڈلز ہوں، اندازہ یہی ہے کہ بالآخر رومان پرست غصہ اداروں پر نکالیں گے۔ کہا جا سکتا ہے کہ آنے والے دن کسی اور کے لئے ہوں نا ہوں، سلامتی کے اداروں کے لئے آسان نہیں ہوں گے۔