25مئی ملا ئیشیا میں جبکہ25جون ترکی میں انتخابات ہوئے جن میںبالترتیب مہاتیر محمد اور رجب طیب اردوان فتحیاب ہوئے۔ملائیشیا کے انتخابات کی اہم بات سابق وزیراعظم مہاتیر محمد کی انتخابی سیاست میں واپسی ہے۔ بانوے سالہ ڈاکٹر مہاتیر محمد ملائیشیا کی ترقی کے معمار مانے جاتے ہیں۔ ملائیشیاکے حالیہ انتخابات میں اصل مقابلہ وزیراعظم نجیب رزاق کے نیشنل فرنٹ اور سابق وزیراعظم مہاتیر کے اتحاد بریے امید یا PHکے درمیان تھا۔ ڈاکٹر مہاتیر محمد 2003ء میں انتخابی سیاست سے سبکدوش ہو گئے تھے۔ گویا ریٹائرمنٹ کے بعد گوشہ نشینی میں چلے گئے تا ہم سیاست میں واپس انتہائی اہم امر ہے۔ چار جماعتوں پہ مشتمل متحدہ اپوزیشن کے امیدوار کے طور پر سامنے آئے اور ملایئشیا کے نجیب رزاق کے خلاف الیکشن میں حصہ لیا جو وزیراعظم تھے اور میدان مارلیا۔ ملائیشیامیں انتخابات منعقدہونے کے ایک ماہ بعد ترکی میں صدارتی انتخابات ہوئے اصل مقابلہ اپوزیشن لیڈر محرم ان سے اوراردوان کے مابین تھا جن میںرجب طیب اردوان نے میدان مار لیا حالانکہ مغربی میڈیانے ان انتخابات کے دوران ایسا پروپیگنڈاکیاکہ جسے لگ رہاتھاکہ اس باراردوان ہرگز نہیں جیت سکیں گے ۔لیکن الیکشن کے نتائج سامنے آنے پرثابت ہوگیاکہ ترکی کے صدارتی انتخاب کے بارے میں بھی عالمی میڈیا اور مبصرین متعلقہ ووٹروں کے جذبات کا صحیح اندازہ لگانے میں ناکام رہے۔ ترکی پر کئی برسوں سے نگاہ رکھنے والے کئی مبصرین کا اصرار تھا کہ اردوان کے لئے اس انتخاب کے پہلے مرحلے میں اپنے لئے 50فی صد رائے دہندگان کی حمایت حاصل کرنا تقریبا ناممکن ہے۔مگراردوان نے واضح اکثریت حاصل کرکے مغربی میڈیاکے تمام تبصروں اورتجزیوں کوتلپٹ کرکے رکھ دیا۔ بلاشبہ ملائیشیامیں مہاتیر محمداورترکی میںطیب اردوان کی کامیابی سے دنیا حیران ہے لیکن ان دونوں لیڈروںکی کامیابی کے پیچھے کون سے عوامل کارفرماتھے وہ پاکستان کے عوام کے لئے سبق اموز پیغام ہے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ ملائیشیااورترکی کے عوام نے اپنے،اپنے ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن کرنے والے لیڈروںکو منتخب کیا۔ ایسے لیڈروں پر بھروسہ کیا جو حقیقی معنوں میں اپنے اپنے ملک کے عوامی امنگوں کے ترجمان ہیں اور جن کی قائدانہ صلاحیتوں نے ملا ئیشیااورترکی کو اقتصادی ترقی کی راہ پرڈالنے میں اہم کردار ادا کیا۔مہاتیر محمد اوررجب طیب اردوان بلا شبہ موجودہ ترقی یافتہ دور اور جدیدٹیکنالوجی کی دنیامیں ملائیشیا اورترکی ،کی اقتصادی ترکی کے معمار ہیں۔ ملائیشیامیں مہاتیر محمد کا سیاست میں واپسی کا جائز ہ لیا جائے تو مہاتیر محمد کی کامیابی سیاست میں دوبارہ فعال ہونا خطے بالخصوص امریکاا اور ایشین ممالک کے لیے غیر معمولی اہمیت کا حامل ہے۔ مہاتیرمحمد 1981ء سے 2003ء تک ملائیشیا کے وزیراعظم رہے۔ اس طرح انہوں نے سب سے طویل عرصے تک ایک منتخب وزیراعظم کے بطور اپنی خدمات سر انجام دیں اور طویل عرصے تک حکمران رہنے کا ریکارڈ قائم کیا۔ اس ضمن میں مہاتیر محمد ہی کی بدولت ملائیشیا میں اقتصادی ترقی کی بنیاد رکھی گئی ۔ ڈاکٹر مہاتیر محمد نے ہی ملائیشیا کی موجودہ سمت کا تعین کیا۔ ان کے دور اندیش فیصلوں کی بدولت پوری دنیا میں ملائیشیا ایک باوقار ملک کے طور پر پہچانا جاتا ہے۔دوسری طرف مہاتیر محمد کی کامیابی اس امر کی صداقت ہے کہ عوام کا ان کو منتخب کرنے کا فیصلہ انتہائی اہم فیصلہ تھا۔ملائیشیاکے عوام کی بہتری کے لئے ڈاکٹر مہاتیرمحمد نے دلیرانہ و مدبرانہ فیصلے کیے۔ان کے ساتھ عوامی محبت کاحال یہ ہے کہ15برس سیاست سے ازخود دور رہنے کے باوجود جب انہوں نے سیاست میں واپسی کی راہ لی توعوام نے انہیں شاندار کامیابی سے نوازا ،اگرچہ مہاتیر محمد دنیا کے معمر ترین منتخب وزیراعظم ہیں لیکن لیڈر، لیڈر ہوتا ہے چاہے صدسالہ بزرگ ہی کیوں نہ ہو۔ انکے بے باک اور شفاف کرداروعمل کے باعث عوام ان سے پیار کرتے ہیں،انہیں چاہتے ہیں اوران پر نثار ہو جاتے ہیں۔ لیڈرکاذاتی کردار بڑا اہم رول ادا کرتا ہے۔ پاکستان میں لیڈرکے ذاتی کردارپربولناایساہی جرم قرارپاتاہے جیسے مغرب میںیہودیوں کے نام نہاد ’’ہولوکاسٹ‘‘پر ۔لیڈرکی ذاتی زندگی کی بات کریں تو ڈاکٹر مہاتیر محمد کی ذاتی زندگی قابل تقلیدہے۔ وہ بچپن ہی سے سخت محنت کے عادی تھے اور اپنے اخراجات پورے کرنے کے لیے انہوں نے کیلے تک فروخت کیے۔ ابتدائی برسوں میں زندگی کے، ملائیشیا برطانیہ کی کالونی تھی اور تب چینی اور ہندوستانی باشندوں کا اس کی معیشت پر کنٹرول تھا۔لیکن اپنی ذاتی زندگی کو مثالی بناتے ہوئے ڈاکٹر مہاتیرمحمد اپنی محنت کی بدولت ملائیشیا کی پس ماندگی دور کرنے پر خاطر خواہ توجہ دی، ایک جارحانہ اقتصادی پالیسی کے داعی بن کر سامنے آئے اور ملائیشیا کو ترقی کے راستے پر گامزن کیا۔ ڈاکٹر مہاتیر محمدکے کرداروعمل سے ملائیشیا کے عوام اس امر سے بخوبی واقف تھے۔ کہ ملک و قوم کے لیے بہترین راہنما کون ہو سکتا ہے۔ اس ضمن میں دعوے یا وعدے نہیں کردار دیکھا گیا۔عملی اقدامات کی بنیاد پر ڈاکٹر مہاتیر محمد نے دوبارہ کامیابی حاصل کی۔ اسی طرح نوے کی دہائی میں ترکی کی سیاسی افق پرجب طیب اردوان نمودارہوئے تو انکی جماعت کے دو مقبول عنوان تھے، مضبوط معیشت اور جمہوریت۔ اپنے پیشرو لیڈروں کمال درویش اور بلند ایجوت کی بحالی معیشت کی پالیسیوں کو آگے بڑھاتے ہوئے رجب طیب اردوان نے بحیثیت میئر استنبول اور رفاہ پارٹی کے پلیٹ فارم سے شہرت حاصل کرلی، انہوں نے رفاہ پارٹی کے دیگر ساتھیوں کے ساتھ مل کر ایک نئی پارٹی جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی AKPکی بنیاد رکھی۔ اس طرح رجب طیب اردوان ایک نئے مقبول لیڈر کے طور پر ابھر کر سامنے آئے۔ اردوان ایک مقبول لیڈر کے طور پر 2002ء سے ترکی میں ہونے والے انتخابات میں کامیاب ہوتے چلے آرہے ہیں۔ ان کے مقابل کوئی کرشمہ ساز اور دبنگ لیڈر ان سالوں میں ابھر کرسامنے نہیں آسکا۔ ترکی میں کوئی لیڈریااپوزیشن کے لیڈر سیاست دان کسی دن اور کسی مقام پر بھی طیب اردوان کی کرشماتی قیادت کے لیے چیلنج نہیں بن سکی۔ اگرچہ حالیہ برسوں میں اپوزیشن پارٹی ’’ریپبلکن پیپلزپارٹی ‘‘کے ووٹوں میں اضافہ ضرور کیا ہے البتہ وہ کبھی بھی طیب اردوان کے سامنے سیاسی قیادت کے طور پر نہیں ابھرسکے۔ 2014 میں جب طیب اردوان وزارتِ عظمی کی تمام مدتیں پوری کر چکے تو انہوں نے ترکی میں دھیرے دھیرے نئے طرزِحکمرانی کا ڈھانچا استوار کرنا شروع کردیا۔ ایک پارلیمانی نظام کی طرح یہاں صدر کا عہدہ ایک آئینی اعزاز کے علاوہ کچھ نہیں تھا اور اس کا انتخاب بھی پارلیمنٹ کرتی تھی۔ انہوں نے اس کو براہِ راست صدارتی انتخاب کے عمل سے متعارف کروایا۔ اور یوں 2014ء میں وہ براہِ راست ووٹوں سے صدر کے لیے کھڑے ہوگئے۔ اپوزیشن جماعتوں نے ایک سابق سفارت کار اور دائیں بازو کی شخصیت احسان اولو جو او آئی سی کے سیکرٹری جنرل بھی رہ چکے تھے، کو ان کے مقابل کھڑا کیا۔ مگر طیب اردوان کی کرشمہ ساز قیادت کے سامنے ان کی ایک نہ چلی اور وہ الیکشن ہار گئے۔ 2014ء سے اختیارات کا عملی مرکز وزارتِ عظمی سے صدر کے پاس چلا گیا۔ گو ملک میں آئین کے تحت اختیارات کا مرکز پارلیمنٹ، کابینہ اور وزیراعظم ہی تھا۔ 2016ء کی ناکام فوجی بغاوت کے بعد صدر طیب اردوان نے کہا، فوجی بغاوت خدا کا دیا ہوا ایک تحفہ ثابت ہوئی ہے اور یوں اس روز سے آج تک ترکی میں اپنی تاریخ کی سخت ترین ایمر جنسی لاگو ہے جس کے تحت اختیارات کا کل مالک صدر ہے۔2017ء اپریل میں ایمرجنسی کے تحت صدر طیب اردوان نے آئینی اصلاحات کے لیے ریفرنڈم منعقد کیا جس کے تحت اٹھارہ نئے نکات آئین میں شامل کرکے صدر کو اختیارات کا مرکز بنا دینا شامل تھا۔ ججوں کی نامزدگی، فوج اور پولیس میں نامزدگیاں، پارلیمنٹ کو توڑنے کا اختیار اور کابینہ کو نامزد کرنے کے اختیارات کے ساتھ لامحدود اختیارات۔ اس ریفرنڈم میں جناب طیب اردوان کو کامیابی ہوئی، کامیابی کے بعد ترکی میں پارلیمانی طرزِحکومت تمام ہوئی۔ اب جبکہ 25جون کے الیکشن میں وہ کامیاب ہوئے تواب چندیوم بعد ترکی میں نیاقانون نافذ ہوگاجسکے تحت ترکی کے قضاوقدرکے کلی مجاز صدر مملکت طیب اردوان ہونگے۔ صدر طیب اردون، ترکی کے تاحال سب سے مقبول رہبر ہیں۔ اگرچہ مہاتیرمحمداورطیب اردوان کے پائے کے لیڈروں کی پاکستان میں قحط الرجال پایا جاتاہے اوران دونوں لیڈروں کے مقابلے میں پاکستان کے موجودہ لاٹ کے کسی بھی سیاستدان میں کوئی ایسالیڈرہے کہ جس پرقوم کوفخرحاصل ہوگا تاہم عالمی حالات اور پاکستان کی سیاسی کشمکش میںممکن ہے کہ شایدیہاں کوئی ایسا لیڈر ابھر کر سامنے آسکتاہے کہ جس کی یہ مجبوری بنے گی کہ وہ پاکستان کی گرتی ہوئی معیشت کی بحالی کے لئے اپنے شب وروزایک کرے گا۔یہ پاکستان کے عوام اوریہاں کے کروڑوں ووٹروں پر منحصرہے کہ اگلے مہینے ہونے والے الیکشن میں پہلے ہی کی طرح وہ پرانی بوتلوں میں نئی شراب بھریں گے یانئی زندگی جینے کے لئے حیات بخش آب تلاش کرکے آب حیات پی لیں گے ۔