اک دل بنا رہاہوں میں دل کے مکین میں مشکل سے بات بنتی ہے مشکل زمین میں فرصت ہمیں ملی تو کبھی لیں گے سر سے کام اک در بنانا چاہیے دیوار چین میں آپ ان اشعار کو بے محل نہ جانیے کہ ہم یہ اشعار عمران خان اور عثمان بزدار کی ایک تصویر کو دیکھ کر لکھ رہے ہیں جس میں وہ ون ٹو ون ملاقات کر رہے ہیں اور اس نہایت قیمتی اور ہائی پروفائل میٹنگ میں خان صاحب اپنے وسیم اکرم پلس کو پنجاب کی گورننس بہتر بنانے کی تلقین کر رہے ہیں۔ یقین مانیے کہ یہ میری کم فہمی یا غفلت تھی کہ میں عثمان بزدار کو اس اہمیت کا نہیں سمجھتا تھا کہ خان صاحب اس سے ملاقات کریں اور اخبار کے اولین صفحہ پر اس کے مندرجات فلیش کئے جائیں۔ اس میں کئی اہم اعلانات بھی کئے گئے ہیں۔ اب میں یہ تو نہیں لکھوں گا کہ اب کے بھی پچھلی حکومتوں کی طرح گا،گے اور گی کا راگ ہی الاپا جا رہا ہے۔ مزے کی بات یہ کہ عثمان بزدار نے پارٹی رہنمائوں کی مداخلت کا شکوہ کیا۔ کہیے کہ کیا آپ کو وزیر اعلیٰ کی اس بات پر پیار نہیں آتا۔ کس قدر معصوم ہیں بزدار صاحب جہاں تک مداخلت کا تعلق ہے ایک پرویزالٰہی ہی مان نہیں جو برا کام بھی ہو وہ پرویزالٰہی پر ڈال دیا جاتا ہے کہ ان کی خواہش پر ہوا۔ بزدار صاحب نے اچھے بچوں بلکہ بی بے بچوں کی طرح اپنی مراعات میں اضافہ واپس کر دیا کہاں غالب یاد آیا: تیری وفا سے کیا ہو تلافی کے دہر میں تیرے سوا بھی ہم پہ بہت سے ستم ہوئے کون کہتا ہے کہ کچھ نہیں ہو رہا۔ وزیراعظم کی صدارت میں ہونے والے اجلاس میں کراچی میں ترقیاتی منصوبوں کی پیش رفت کا جائزہ لیا گیا۔ ورلڈ بینک وفد کی ملاقات اور 50لاکھ گھروں کی تعمیر میں دلچسپی ۔ عوام نے تو خان صاحب کی طرف دیکھنا ہی چھوڑ دیا ہے کہ وہ اس وقت بہت ہی مصروف ہیں۔ بزدار صاحب سے ملاقات بھی اسی مصروفیت میں شامل ہے۔ دوسرا وہ ہر جگہ سے قرض اکٹھا کر رہے ہیں عوام کی جیبوں سے تو بلوں کی مد میں وہ کچھ نکل چکا ہے کہ وہ بلبلا رہے ہیں مگر انہیں کسی ریلیف کی توقع نہیں۔ گیس بلوں کی اضافی رقم جو واپس ہو رہی ہے اس پر لوگ شادیانے بجا رہے ہیں کہ جیب سے گئی رقم واپس کم ہی آتی ہے لیکن زیادہ خوش نہ ہوں کہ وہ رقم ابھی واپس آئی نہیں۔ خان صاحب بھی کیا کریں کہ آئی ایم ایف کی کچھ شرائط بھی تو ہیں ان کو قسط کہاں سے دینی ہے۔ ان کی بات پر یقین کرنے میں کیا حرج ہے کہ ’’عوام بے مثال ترقی دیکھیں گے‘‘ اگر آپ اس پر نہیں بھی یقین کرتے تو آپ کیا کر لیں گے۔ ورلڈ بنک کی ہدایات بھی تو جلی حروف میں چھپی ہیں کہ پاکستان میں مقامی حکومتوں کا نظام مضبوط اور خود مختار بنایا جائے۔ معیشت کی بہتری اور سرمایہ کاری ایک طرف ماحولیاتی تحفظ سے بھی آگے آبادی میں اضافے کی شرح کو بھی کنٹرول کرنے کا کہا گیا ہے۔ آخری بات انہیں زیادہ پریشان کرتی ہے۔ لیکن یہ بندش کسی کے بس کی بات نہیں۔ غذائی قلت کی بات ہو رہی ہے کبھی کبھی میں سوچتا ہوں کہ جب سے دنیا بنی ہے شاید یہ رونا دھونا جاری ہے۔ مجھے یاد ہے کہ میں نے برٹ اینڈرسل کا ایک مضمون انگریزی لٹریچر میں پڑھاتا تھا جس میں برٹ اینڈرسل نے انگریزوں کو انتباہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ ذرا خیال کریں۔ سورسز ختم ہو رہے ہیں کوئلہ ختم ہو رہا ہے اور اس کے علاوہ نہ جانے کیا کچھ۔ یہ دو تین صدیوں پرانی بات ہے۔ قدرت کے کاموں میں زیادہ غور نہیں کرنا چاہیے بلکہ قدرت کے بارے میں غور کرنا چاہیے: کوئی ہوتا ہے کہیں کام بنانے والا اک بگڑتا ہے تو سو کام سنور جاتے ہیں جو بھی ہے ورلڈ بنک جیسے ادارے اپنے مطالبات رکھتے رہیں گے اور ہم اپنا کام کرتے رہیں گے۔ مگر اشیاء کی قیمتیں بڑھانا بہرحال حکومت کی مجبوری ہے کہ پیسہ آئے گا تو انہیں واپس کیا جائے گا۔ پھر وہی بات کہ خان صاحب کا پلس پوائنٹ یہ ہے کہ وہ خود نہیں کھائیں گے۔ ویسے بھی ان کی عادت تعیش پسندی کی نہیں۔ لوگ پوسٹیں لگاتے ہیں کہ بتائیں تحریک انصاف نے آپ کے علاقے میں کوئی کام کیا؟ حیرت ہے کہ وہ اخبار بھی نہیں پڑھتے۔ شیخ رشید ہی کو لے لیںروز نئی ٹرین چلانے کا اعلان کرتے ہیں۔ وہ اکیلے ہی بلاول اور زرداری کے ساتھ چومکھی لڑائی بھی لڑ رہے ہیں۔ اسد عمر کو دیکھیں کہ نت نیا منصوبہ متعارف کرواتے ہیں۔ سب کچھ ہو رہا ہے مگر کام نظر نہیں آتا۔ میں تو روزانہ اورنج ٹرین کو اداس دیکھتا ہوں۔ ساری خاک ہمارے حصے میں آئی: منیر اس ملک پر آسیب کا سایہ ہے یا کیا ہے کہ حرکت تیز تر ہے اور سفر آہستہ آہستہ مگر اس کا مطب یہ نہیں کہ کہیں بھی کچھ نہیں ہو رہا۔ ابھی پی ایس ایل تو ساری دنیا نے دیکھی کہ ہم کرکٹ کو یہاں بحال کرنے میں کامیاب نہیں بھی ہوئے تو تمہید ضرور رکھ دی ہے اچھے موسم آنے والے ہیں۔ ہم بھی کرکٹ کے شیدائی ہیں اور کراچی میں ہونے والے اس ٹورنامنٹ کے مکمل حق میں ہیں مگر ’’مقطع میں آپڑی ہے سخت گسترانہ بات‘‘ کرکٹ کے فائنل میں ہمیں بتا گیا کہ ہماری ترجیحات اور رویے مضحکہ خیز ہی نہیں ظالمانہ بھی ہیں۔ درست کہ نیوزی لینڈ میں ہونے والی قیامت خیز دہشت گردی کے باعث کہ جس میں 50مسلمان بھون دیے گئے پی ایس ایل کا فائنل اس لئے نہیں روکا جا سکتا تھا کہ دنیا بھر سے کھلاڑی آئے ہوئے تھے اور ہمیں سارا شیڈول تبدیل کرنا پڑتا۔ چلیے ہم میں اتنا تدبر نہ سہی مگر اس موقع پر بھنگڑے اور رقص نے تو ہماری سوچ اور فکر کا جنازہ نکال دیا۔خیر نیوزی لینڈ والے معاملے میں آپ خود نیوزی لینڈ کی وزیر اعظم کا رویہ دیکھیں اور اپنا ’’بے حسی وہ ہے کہ ہم رحم کے قابل بھی نہیں‘‘ اردوان نے باقاعدہ نماز جنازہ پڑھائی۔ لیڈر اپنے رویوں سے پہچانے جاتے ہیں: یہ جمال کیا یہ جلال کیا یہ عروج کیا یہ زوال کیا وہ جو پیڑ جڑ سے اکھڑ گیا اسے موسموں کا ملال کیا