حیرت پر تو مہتاب سے باہر نکلا آنکھ کھلتے ہی میں اس خواب سے باہر نکلا خاک برباد ہوئی ہے تو اڑی پھرتی ہے کب کوئی عالم اسباب سے باہر نکلا معزز قارئین! اس سے پہلے کہ ہم ملتان میں ہونے والے پی ڈی ایم کے جلسے میں چلیں۔ ایک نکتہ جو بالا شعرثانی میں ہے آپ کے گوش گزار کردوں کہ ’’بر‘‘ کے معنی اوپر اور باد کے ’’ہوا‘‘ ہوتے ہیں۔ جو چیز ہوا کے سپرد ہو جائے تو پھر ہوا کی مرضی ہے اسے جہاں چاہے لیے پھرے۔ یہ لفظ برباد انہی دو لفظوں سے مل کر بنا ہے۔ آپ خزاں کے موسم میں سوکھے پتے بھی تو ہوائوں میں اڑاتے ہوئے دیکھے ہوں گے۔ یہی حال ان لوگوں کا ہوتا ہے جو ہلکے ہوتے ہیں اور ہوائیں انہیں ان کی اوقات سے یاد دلا دیتی ہیں۔ ویسے تو یہ ہوا اندر بھر جائے تو پھر بھی خوفناک ہے اور باہر نہ نکلے تو تب بھی۔ ہوا کے دوش پہ رکھے ہوئے چراغ ہیں ہم۔ جو بجھ گئے تو ہوا سے شکایتیں کیسی۔ ایک اور شعر یاد آیا: کبھی اس نے مجھ کو جلا دیا کبھی اس نے مجھ کو بجھا دیا میں چراغ تھا تو ہوا نے بھی مجھے اک تماشہ بنا دیا ملتان میں ہونے والے جلسے کا کیا تذکرہ کریں کہ اس گرم شہر میں سردیوں میں بھی اس جلسے نے ماحول کو گرم کردیا اور بلاشرکت غیرے اکیلی حکومت ہی اس جلسے کو کامیاب بنانے کے لیے کافی ثابت ہوئی۔ سید ارشاد احمد عارف نے بالکل درست نشاندہی کی کہ ایک دن کی بجائے حکومت نے چار دن میلہ لگائے رکھا۔ اس حوالے سے مولانا فضل الرحمن‘ مریم نواز اور آصفہ کو حکومت کا تہہ دل سے شکر گزار ہونا چاہیے۔ حکومت کی بے تدبیری کمال کی ہے۔ پہلی مرتبہ مجھے سو جوتے اور سو پیاز والا قول بامعنی نظر آیا۔ ویسے حکومت ہمیشہ اچھا کام بھی برے طریقے سے کرتی ہے۔ اصل میں ان کے ہاں اعتماد نہیں اور بے دلی نظر آتی ہے۔ انہیں اپنی بات پر خود بھی یقین نہیں تھا۔ اتنا کچھ کرنے کے بعد آخری دن جلسے کی اجازت دینا بے بسی کے سوا کچھ نہیں اور اپنی کمزوری کا اعلان ہے۔ آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے۔ ابھی تو لاہور کا جلسہ آ رہا ہے۔ یعنی ابھی عشق کے امتحاں اور بھی ہیں۔ اس پر عبیر ابو ذری نے عجیب گرہ لگائی تھی۔ میرے سے پرے سے پراں اور بھی ہیں۔ اب ہوائیں ہی کریں گی روشنی کا فیصلہ جس دیے میں جان ہو گی وہ دیا رہ جائے گا ابھی علی الصبح سیر کے دوران ہمارے خانزادہ صاحب بہت غصے کے عالم میں فرما رہے تھے کہ یہ ہجوم جسے جم غفیر کہا جارہا تھا ایک مرتبہ پھر ڈاکوئوں اور چوروں کو لانا چاہتا ہے۔ ہم نے بڑے ادب سے عرض کیا کہ ہم تو آپ کے عمران خان کو لے کر آئے تھے۔ ملک کی قسمت بدل جائے اور عوام سکھ کا سانس لے۔ اب آپ ہی بتائیے۔ وہی جو ٹرکوں پر ایوب خان کے بارے میں لکھا ہوتا تھا تری یاد آئی ترے جانے کے بعد۔ چلیے ہم مان لیتے ہیں کہ یہ سارے چور اور ڈاکو اکٹھے ہو گئے ہیں کہ جو باری باری اس قوم کی گردن پر سوار رہے مگر یہ تو سوچنے کی بات ہے کہ ان کے جلسوں میں جو ہزاروں کی تعداد میں لوگ آ رہے کہ جو کورونا کی پروا بھی نہیں کررہے اور گرفتاریوں سے بھی نہیں ڈر رہے تو یہ کون ہیں؟ یہ لوگ خان صاحب کے ساتھ کیوں نہیں ہیں۔۔ بھوک‘ ننگ اور بیماری سے اکتائے ہوئے لوگ کہتے ہیں کہ ان کی طرف سے کوئی کالا چور آ جائے‘ کم از کم ان کو جینے تو دے۔ بیروزگار خالی پیٹ کے ساتھ ذہن کا استعمال کیسے کرے گا۔ ایسی بھوک میں تو حرام بھی حلال ہو جاتا ہے۔ پھر لوگ کیا کریں۔ یہی کہیں گے کہ لوٹ پیچھے کی طرف اے گردش ایام تو۔ شیخ رشید بار بار ڈراتے ہیں کہ کوئی حادثہ نہ ہو جائے۔۔ بھائی جان حادثے تو یہ قوم دیکھ چکی۔ ریلوے کے حادثے بھی جس میں آپ سرفہرست ہیں۔ جن حادثوں کا آپ ڈراوا دیتے ہیں وہ شاید اب ممکن نہ رہیں۔۔ خالد احمد یاد آئے: پائوں میں بیڑیاں نہیں خالد حلقۂ اختیار سا کچھ ہے ایک بہت ہی اہم بات یہ کہ حکومت کے قول و فعل میں کچھ زیادہ ہی تضاد ہے اور یہی بات لوگوں کو چبھ رہی ہے۔ دور نہ جائیں ابھی جو کورونا تھریٹ کا معاملہ ہے اس میں خود حکومت نے جلسے کئے‘ انتخاب کے بعد پابندی۔ اس کے بعد اسد عمر کی میٹنگز اور جماعت اسلامی کا بونیر میں ہونے والا جلسہ سوالیہ نشان تھا۔ اس پر شبلی فراز فرماتے ہیں کہ جماعت اسلامی کا جلسہ تو چھوٹا سا ہوتا ہے۔ اس میں اتنے کم لوگ ہوتے ہیں کہ ترس کھا کر ہمیں کچھ لوگ بھیجنا پڑتے ہیں۔ قبلہ یہاں مذاق سے بات نہیں چلے گی۔ آپ ڈرتے ہیں کہ جماعت اسلامی کا ردعمل زیادہ سخت ہوتا ہے کہ ان کے کارکن اور ارکان تو مار بھی کھا لیتے ہیں۔ ویسے بھی آپ خوش ہیں کہ جماعت پی ڈی ایم سے باہر ہے۔ حکومت کو بچانے کے لیے آپ ق لیگ کے پائوں بھی پڑ گئے اور ایم کیو ایم سے بھی وعدے دہرائے: جانا پڑ ا رقیب کے در پر ہزار بار اے کاش جانتا نہ تری رہگزر کو میں مذکورہ جلسہ پر حکومتی بیانات کھسیانی بلی کھمبا نوچے کے مترادف ہیں۔ یہ کہنا اتحاد غیر فطری ہے اور مولانا کی سیاست ختم ہو چکی۔ مزید یہ کہ جیالی قیادت نے وفاقی پارٹی کو علاقائی پارٹی بنا دیا۔ یہ کہنا کہ یہ بچہ پارٹی ابو بچائو مہم پر ہیں کوئی اہمیت نہیں رکھتا۔ ان کے مقابلے میں آپ کوئی عملی کارکردگی سامنے لائیں۔ چلیے ایک رومانٹک شعر ہی اس حوالے میں لکھ دیتے ہیں: اس کو خوشبو کی طرح ساتھ بھی رکھوں اپنے اور پھر اس کو زمانے سے چھپانا چاہوں نہیں جناب ایسے نہیں ہوگا۔ حساب آپ کو بھی دینا ہوگا۔ اصل میں موجودہ سیاست نے سب حجاب اٹھا دیئے ہیں۔ اب کچھ بھی پردے کے پیچھے نہیں رہا۔ بات تو سچ ہے مگر بات ہے رسوائی کی۔ ملتان میں تو علیحدہ صوبے والی بات بھی بہت موقع محل کے مطابق تھی کہ جنوبی پنجاب والے تو پہلے ہی تپے ہوئے ہیں۔ انہیں ہمیشہ وعدہ فردا پر ٹالا جاتا ہے۔ اب تو پکا وعدہ تھا جو کچھ زیادہ ہی پک گیا۔ چلیے ایک بات تو نئی ہوئی کہ آصفہ زرداری بھٹو یا بھٹو زرداری کچھ بھی کہہ لیں سیاست میں ڈیبیو لینے میں کامیاب ہوئی۔ مریم جب خود کو ساتھ ملا کر قوم کی بیٹیاں کہہ رہی تھی تو جالب یاد آئے۔ پائوں ننگے ہیں بے نظیروں کے۔ آخری بات بھی کہ لوگ تبدیلی دیکھ چکے‘ آگے کا سفر کرنے سے پہلے وہ پھر واپس اصلی حالت میں جانا چاہتے ہیں: مجھ کو اچھی نہیں لگتیں یہ شعوری باتیں ہائے بچپن کا زمانہ وہ ادھوری باتیں