’’ملفوظات عمرانی‘‘ کی ایک سنہری تعلیم یوں ہے کہ انہیں ایسا پھینٹا لگائو کہ عمر بھر یاد رکھیں ’’انہیں‘‘ سے مراد مخالفین ہیں۔ مریدین گاہے بہ گاہے اس سنہری تعلیم پر عمل کرتے رہتے ہیں لیکن گزشتہ روز کراچی میں ایک گدھا بھی اس عملدرآمد کی لپیٹ میں آ گیا۔ مریدین نے اس گدھے کو پکڑ کر اس پر نواز شریف کا نام لکھا اور پھر پھینٹا لگانا شروع کر دیا۔ ڈنڈوں سے اتنا مارا کہ اس کا خون بہہ نکلا۔ آنکھ زخمی ہو گئی مریدین نے اس بے زبان کی دونوں ٹانگیں توڑ دیں۔ قریب تھا کہ وہ ملک عدم پہنچ جاتا کہ عبداللہ محمود نام کا ایک شہری ادھر آ نکلا۔ اس نے گدھے کو بچایا اسے پانی پلایا اور ہسپتال پہنچایا اب وہ حقوق حیوانی کی ایک تنظیم کے پاس ہے۔ ممکن ہے مریدین عمرانی اپنے اس عمل کو عین انصاف سمجھتے ہوں لیکن دنیا والے اسے ظلم سمجھتے ہیں اور دنیا کے کسی بھی مذہب یا قانون میں اس کا جواز موجود نہیں ہے۔ البتہ تشدد کرنے والوں کی بات اور ہے۔ ان کا اپنا ضابطہ اخلاق ہے‘ وہ اسی پر عمل کرتے یں مریدین اپنا غصہ کسی پتلے پر نکال سکتے تھے یعنی کسی گدھے یا کسی اور جانور کا پتلا بناتے اس پر کوئی بھی نام لکھتے اور پھر مار مار کر اس کا بھرکس نکال دیتے لیکن شاید اس طرح حکم کے اس حصے کی تعمیل نہ ہو سکتی جس میں عمر بھر یاد رکھنے والی تاکید کی گئی ہے۔ پتلے کی یادداشت نہیں ہوتی وہ یاد نہیں رکھ سکتا۔ گدھے کی ہوتی ہے وہ خود پر ظلم کرنے والے کو بھی یاد رکھتا ہے اور مہربانی سے پیش آنے والے کو بھی۔ ٭٭٭٭٭ ویسے گدھے یا کتے کو مشق ستم بنانے کی رسم نئی نہیں ہے۔ نئی بات اسے سچ مچ مارنے کی ہے۔ ماضی میں بھی حکومت مخالف جلوس نکلتے تھے تو کئی بار لوگ کسی گدھے یا کتے کو پکڑ کر نیم پلیٹ اس کی گردن میں آویزاں کرتے اور ڈنڈے اس کے آس پاس سڑک پر مارتے یعنی اسے علامتی پھینٹا لگاتے۔ جانور کو چوٹ تو نہیں لگتی تھی لیکن وہ بری طرح سہما ہوتا اور فریادی آوازیں نکالتا۔ گویا تھا یہ بھی ظلم‘ اگرچہ نامکمل قسم کا۔ مریدین عمرانی نے اس کی تکمیل کر دی۔ ایسے مظاہرے ایوب خان ‘ بھٹو‘ضیاء الحق اور مشرف کے دنوںمیں اکثر دیکھے جاتے جن کا ’’مہمان خصوصی‘‘کوئی گدھا ہوتا یا کتا۔ ٭٭٭٭٭ ملفوظات عمرانی کی ایک اور سنہری تعلیم مخالفوں کے خلاف ماورائے تہذیب گفتگو ہے۔ کہتے ہیں کہ اس کے اصل بانی بھٹو مرحوم تھے۔ انہوں نے مخالفوں کو آلو سموسے جیسے خطابات دیے لیکن تشبیہات حیوانی سے بہرحال گریز ہی کیا۔ یہ خدمت تاریخ نے خان صاحب سے لینی تھی۔ انہوں نے تو اس روایت کو ارتقاء کے نقطہ عروج تک پہنچا دیا ۔ایسی ایسی باتیں ارشاد فرمائیں کہ لوگوں کو لائیو نشر کرنے والے ٹی وی بند کرنا پڑ گئے۔ گرو تو گرو چیلا ان سے بھی بازی لے گیا دو روز پہلے خلیفہ خاص پرویز خٹک نے مخالفوں کو ایسی عورتوں کی اولاد قرار دے دیا جن کے لیے لغت میں خاص الفاظ ہیں۔ یہ خاص الفاظ عام گفتگو میں اگرچہ بے محابا استعمال کیے جاتے ہیں لیکن تقریر و تحریر میں ان سے لازمی گریز ہی کیا جاتا ہے۔ پرویز خٹک نے البتہ اس روایت کی نفی کی اور ملفوظات کا ایک نیا باب رقم کر دیا۔ ٭٭٭٭٭ گزشتہ صدی کے شروع میں ایک اور عظیم آدمی بھی تھے‘ جنہوں نے نبوت کا دعویٰ بھی کیا تھا۔ انہوں نے خود پر ایمان نہ لانے والوں کو ’’اولاد بغایا‘‘ قرار دیا۔ بغایا کے معنی وہی ہیں جو اس لفظ کے ہیں جو دوسرے عظیم آدمی پرویز خٹک نے جلسہ عام میں استعمال کیے۔ جب 1975ء میں موصوف اول کے پیروکاروں کو غیر مسلم قرار دینے کی تحریک چل رہی تھی تو پارلیمنٹ میں بحث کے دوران یہ’’ بغایا‘‘ والا فقرہ بھی حوالے کے ساتھ بیان کیا گیا اس پر وہ حضرات بھی قرار داد کے حامی ہو گئے جو اب تک متامل تھے۔ ہفتہ بھر پہلے کی بات ہے ایک ٹی وی چینل پر بیٹھے عمرانی تجزیہ نگار جو اپنی گلفشانیٔ گفتار کے لیے مشہور ہیں‘ اپنے مخالفین کو ’’رنڈی رونا‘‘ کا طعنہ دیتے ہوئے پائے گئے یہ صاحب اس سے کہیں بڑھ کر تہذیبی ارشادات ارشاد فرمانے کے ماہر ہیں لیکن رنڈی رونا والا طعنہ خٹک صاحب کی تقریر کے حوالے سے خصوصی طور پر یاد آ گیا ۔اور ہاں‘ یہ لفظ ایک اور عمرانی دانشور نے بھی مہینہ بھر پہلے استعمال کیا۔ یہ کسی زمانے میں مشرف کے عقیدت مند ہوا کرتے تھے ان دنوں سلسلہ عمرانی سے بیعت ہو گئے ہیں۔ تذکرہ ریحام خان کا ہورہا تھا اور یہ صاحب موصوفہ کے لیے وہی لفظ بار بار دھرا رہے تھے عربی میں جس کا متبادل ’’بغایا‘‘ہے ۔دو تین برس پہلے جب مرشد کی شادی ریحام خان سے ہوئی تھی تو انہی صاحب کا فرمانا تھا کہ ریحام خان مادر ملت کی طرح ہیں۔ ان کے یہ دونوں ملفوظات یوٹیوب پر موجود ہیں۔ ٭٭٭٭٭ ان دنوں خان صاحب پر بھی اس کیفیت کا غلبہ ہے اور مزید یہ کہ حالیہ دنوں میں یہ غلبہ شدید تر ہو گیا ہے۔شاید یہ ان جلسوں کا اثر ہے جو آپ نے پچھلے چند دنوں میں پنجاب کے کئی شہروں میں کئے۔ کبھی خان صاحب کے جلسے سونامی کا منظر پیش کیا کرتے تھے آج کل خصوصاً پنجاب میں بس ساحل پر پڑی رہ جانے والی سمندر جھاگ کی تصویر بنے رہ گئے ہیں۔ جلسے کیا‘ جلسوں کے خلاصے کہیے۔ مایوس ہونے کی خان صاحب کو بالکل ضرورت نہیں ہے۔ ان کی کامیابی کا ذمہ اوپر والوں نے لے لیا ہے وہ جانیں ان کی ذمہ داری جانے۔ خان صاحب بے فکر ہو کر اپنے وزیر اعظم بننے کا انتظار کریں۔ ٭٭٭٭٭ لکھنے والوں کے نوشتوں کو مگر مسلم لیگ اہمیت نہیں دے رہی‘ اس کے رہنما بدستور اپنی کامیابی کے دعوے کر رہے ہیں۔ شاید انہوں نے یہ خبر بھی نہیں پڑھی جس میں بتایا گیا ہے کہ پولنگ ڈے پر انٹرنیٹ اور موبائل فون بند رہیں گے اور شام کو پولنگ مکمل ہو جانے کے بعد تمام نتائج اکٹھے کر کے ایک ہی جگہ بھیجے جائیں گے۔ اور مختصر ترین عمل کی خبر اگر ٹھیک ہے تو مسلم لیگ والے باقی ماندہ دنوں کی انتخابی مہم چلانے کی مشقت سے ہاتھ اٹھا ہی لیں۔ بے کار پسینہ بہانے کے بجائے پنکھوں اور درختوں کی چھائوں میں بیٹھ کر دن گزاریں۔ ٭٭٭٭٭ پنجاب کے نگران وزیر اعلیٰ نے سپیکر قومی اسمبلی اور سابق وزیر اعلیٰ سمیت بے شمار مسلم لیگیوں کے خلاف دہشت گردی کے مقدمات بنا دیے ہیں۔ اس انقلابی قدم سے یقین ہے کہ دہشت گردی کی کمر ٹوٹ جائے گی(اس بار ایک بار پھر) ۔شفاف اور غیر جانبدار نگران حکومت نے البتہ ایک کمی چھوڑ دی۔ کیا ہی اچھا ہوتا جو وہ دہشت گردی کے ان مقدمات میں سانحہ مستونگ اورسانحات پشاور کی فرد جرم بھی ڈال دیتے۔ خیر اب بھی دیر نہیں ہوئی۔ ضمنی ریفرنس کی طرح ضمنی مقدمات بھی تو درج کئے جا سکتے ہیں۔