سقراط کو افلا طون سے بہتر کوئی شاگرد نصیب ہوانہ ہی افلاطون کو سقراط سے بہتر کوئی استاد ملا، سقراط کے حسین افکار کو، افلاطون نے جس خوبصورتی سے قلمبند کیا، اس پر دنیا کا فکر و فلسفہ ہمیشہ فخر کرتا رہے گا، تقریباً ایسی ہی صورتحال سلطان المشائخ حضرت خواجہ نظام الدین اولیاؒء اور ان کے معروف و معتبر عقیدت مند امیر حسن علاء سجزی المعر وف خواجہ حسن دھلوی کی ہے، جنہوں نے اپنے شیخ کے افکار ، احوال اور ملفو ظات کو جس حُسن و خوبی کے ساتھ جمع کیا وہ متصوفانہ ادب کا گنج گراں مایہ ہے۔ امیر حسن کا مرتب کردہ یہ مجموعہ’’فوائد الفواد‘‘ کے نام سے معروف ہوا، جس کے بارے میں حضرت خواجہ نظام ؒ ہی کے ایک اور مرید و معتقد اور دنیائے شعرو ادب کی ممتاز شخصیت حضرت امیر خسرو نے کہا تھا ـ:’’اے کاش میری ساری کتابیں حسن سجزی لے لیتے، لیکن یہ ’’فوائد الفواد‘‘ میرے قلم سے ہوتی‘‘۔جس طرح کشف المجوب کے بارے میں پروفیسر نکلسن نے لکھا کہ اس کتاب میں حضرت داتا گنج بخشؒ نے اپنی ہم عصر صوفی شخصیات کے فکر و فن پر جس طرح بات کی ہے ، اس سے یوں لگتا ہے ، جیسے ہم ان ہستیوں کے نُور پَرور وجود کے سامنے صف بَستہ، ان سے براہ راست اکتساب فیض کر رہے ہیں، گویا حضرت داتا صاحبؒ کے اس علمی شہکار کے آئینہ میں ہم بالخصوص گیارھویں صدی عیسوی کے دین و فقر اور تصوّف کا علمی اور عملی سطح پر جائزہ لے سکتے ہیں، اسی طرح حضرت سلطان المشائخ کی پاکیزہ شخصیت کے جِلو میں، چودھویں صدی عیسو ی کے ہندوستان کی اجتماعی زندگی اور بالخصوص دینی اور سماجی روّیوں کا عکس، آپؒ کے اِن ملفوظات کے تناظر میں دیکھا جاسکتا ہے۔ اسی’’فوائد الفواد‘‘ کی نویں مجلس میں حضرت سلطان ا لمشائخ خواجہ نظام الدین اولیا ’’دُعا اور قضا‘‘ کے فلسفے پر گفتگو کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ مصیبت کے نازل ہونے سے قبل دعا کرنی چاہیے، مصیبت جب اوپر سے نازل ہوتی ہے اور دعا نیچے سے اوپر کو جاتی ہے ، تو ہر دو کا فضا میں آمنا سامنا ہوتا ہے ، اگر دُعا میں قوّت ہو، تو وہ مصیبت کو واپس لوٹا دیتی ہے ، اور اگر قوت نہ ہو تو مصیبت نیچے اتر آتی ہے ، اس مناسبت سے حضرت سلطان المشائخ نے ایک حکایت بیان فرمائی کہ جب تاتاری کفارنے یلغار کی ، اور یہ افتاد اور مصیبت نیشا پور کے قریب پہنچی،جس کے نتیجہ میں نیشا پور مکمل طور پر تباہ، لاکھوں جانیں ضائع اور پورے شہر کی سطح کوبرابر کرکے وہاں فصل بودی گئی ، تو وہاں کے بادشاہ نے ، اپنا ایلچی حضرت شیخ فر ید الدین عطارؒ کی خدمت میں بھیجا، اور دُعا کی درخواست کی، آپ نے جواب دیا " دعا کا وقت تو گزرگیا ، اب رضا کا وقت ہے" یعنی خدا کیطرف سے مصیبت نازل ہوچکی ، اب، اپنے آپ کو رضائے الٰہی کے سپرد کردیں، آپ نے مزید فرمایا کہ نزول مصیبت کے بعد بھی دعاکرتے رہنا چاہیے ۔ اس سے خواہ مصیبت دور نہ بھی ہو ، اسکی شدت ضرور کم ہوجاتی ہے ۔ آپ کے ’’ملفوظ نگار‘‘ امیر حسن علاء سجزی مزید لکھتے ہیں کہ حضرت سلطان المشائخ نے اس مجلس میں ’’ صبرو رضا‘‘ پر گفتگو کرتے ہوئے مزید فرمایا کہ صبریہ ہے کہ جب بندہ کسی ناگوار صورتحال سے دوچار ہو،تو صبر کرے اور شکایت نہ کرے ،اور’’ رضا ‘‘ یہ ہے کہ جب بندہ کسی ناگوار صورتحال سے دوچار ہو،تو اُسے ناگوار ی کا بالکل احساس ہی نہ ہو ، گویا وہ بَلا اس تک پہنچی ہی نہیں۔آپ ؒ مزید ارشاد فرماتے ہیں کہ متکلمین ان معنی و مطالب کا انکار کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ یہ ہر گز تصور میں نہیں آسکتا کہ کوئی کسی ناگوار صورتحال سے دوچار بھی ہوا اور پھر اسے ناگواری کا احساس نہ ہو ۔ آپؒ نے فرمایا ان کے اس اعتراض کے کئی جواب ہوسکتے ہیں۔ ایک یہ کہ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ کوئی شخص کسی راستے پر جارہا ہے اور اس کے پائوں میں کانٹا چبھ جاتا ہے ۔ خون بہنے لگتا ہے مگر وہ اسی جلدی میں چلا جاتا ہے ۔ اس کا دل کسی ایسی چیز میں مشغول ہوتا ہے (کہ اسے اپنے پائوں میں کانٹا چبھنے کی) خبر تک نہیں ہوتی۔کچھ وقت گزرنے کے بعد ہی کہیں اسے اس کا علم ہوتا ہے۔ بار ہا ایسا ہوا ہے کہ کوئی شخص لڑائی میں مصروف ہے اسے زخم لگا مگر وہ لڑنے میں اس درجہ مستغرق ہے کہ وہ اس زخم سے آگاہ ہی نہیں ہوتا۔ بعد ازاں جب وہ اپنی جگہ پر واپس آتا ہے تو اسے اس زخم کا علم ہوتا ہے ۔ پھر جب کسی چیز میں مشغولیت اور استغراق، جس کا اوپر ذکر ہوا۔ کسی شخص کو زخم اور چوٹ سے بے خبر کردیتا ہے تو وہ شخص جو مشغولِ حق اور یاد الہٰی میں مستغرق ہو ، اس کے لیے ایسا ہونا تو اور بھی زیادہ صحیح ہے ۔ ’’ ملفوظاتی ادب‘‘ میں ’’ فوائد الفواد‘‘ کو وہی محبوبیت اور مقبولیت میسر ہے ، جو حضرت سلطان المشائخ خواجہ نظام الدین اولیاء کو مشائخِ تصوف میں ۔’’ ملفوظات‘‘ درا صل جو اخلاق عالیہ اور ارشادات ِ عظمیٰ ہیں جو صاحبِ مسند ارشاد ۔۔۔ اپنے عقیدتمندوں، ارادت کیشوں اور متعلقین و متوسلین کیساتھ معمول کی مجلس اور نشست میں ایسی گفتگو فرماتے اور عمل کرتے، جس سے مریدین اورسالکین کیلئے اعمال صالحہ کی ترغیب و تحریص اور تربیت کا اہتمام ہوتا ہو۔ بر صغیر کیـ ’’ ملفوظاتی ادب‘‘ میں دُرنظامی،سرور الصدور، خیر المجالس، جامع الکلم، لطائف اشرفی، احسن الاقوال، نفائس الانفاس، خوانِ پُر نعمت، معدن المعانی، الدّر المنظوم اور خزانہ جواہر جلا لیہ سمیت دیگر کئی معروف کتب ،اکابر صوفیا کے ملفوظات کے حوالے سے معروف ہیں، جن کو برصغیر کے علمی ذخیرہ میں بھی معتبر مقام میسر ہے ، جو کہ اشارات و ارشادات اور اقوال و فوائد کے نام سے بھی معروف اور کتب اہل تصوف و اہل سلوک اور’’ کتب مشائخ‘‘ کے حوالے سے بھی معروف ہیں۔ ’’ فوائد الفواد‘‘ کے مولف امیر حسن علا َ سجزی3 شعبان 707ھ/28 جنوری1308 کو حضرت سلطان المشائخ خواجہ نظام الدین اولیاء کی خدمت میں حاضر ہوئے ، آپؒ کی مجلس آراستہ تھی ، اور آپ حاضرین سے محوِ گفتگو تھے ، یہ وہ عہد تھا، جب خانقاہ اور با لخصوص’’نظامی خانقاہ‘‘ کی سطوت و عظمت ایک مربوط اور مستحکم نظام کے ذریعے پورے خطے میں انوار و تجلیات کو فراواںکیے ہوئے تھی، عقیدتمندوں کا ہمہ وقت ہجوم ، اور فیض کے چشمے رواں رہتے ،بطور حضرت اقبالؒ! فرشتے پڑھتے ہیں جسکو وہ نام ہے تیرا بڑی جناب تیری فیض عام ہے تیرا ستارے عشق کے تیری کشش سے ہیں قائم نظامِ مہر کی صورت نظام ہے تیرا تیری لحد کی زیارت ہے زندگی دل کی مسیح و خضر سے اونچا مقام ہے تیرا امیر حسن کہتے ہیں کہ حضرت خواجہ نظام کی علم پرور اور نور آفریں گفتگو اہل محفل کے قلب و روح کو سیراب کررہی تھی ، وہ کہتے ہیں کہ معاً میرے دل میں خیال آیا کہ کیوں نہ ان لمحوں کو مقید او ر الفاظ و خیالات ِ گُہر بار کو محفوظ کر کے آئندہ نسلوں کیلئے رشدو ہدایت کو اہتمام کر لوں ، تاکہ صدیوں بعد، جب عامتہُ الناس میں اس عہد زریں کودیکھنے کی طلب اورتڑپ ہو، تو احوال وافکار کا یہ گراں قدر علمی اور روحانی سرمایہ، انکے قلب و روح کی آبیاری کرنے کیلئے موجود و محفوظ ہو ۔ بعض لمحے بڑے فیصلہ کن ہوتے ہیں، امیر حسن کی یہ بات تاریخ کی پیشانی پہ ثبت ہوگی اور یوں لیٹریچر اور بالخصوص صوفیانہ ادب میں ایک نئی روایت کا آغاز’’ ملفوظ نویسی‘‘ کے عنوان سے ہوا، جو تصوف اور دین وفقر کی ترویج و تبلیغ کا ایک مئوثر اور معتبر ذریعہ بنا ۔