مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوج کے محاصرے اور جبر کے شکار کشمیریوں سے اظہار یکجہتی کے لئے پورا پاکستان جمعہ کے دن دوپہر بارہ سے ساڑھے بارہ بجے تک سڑکوں پر آ گیا۔ آل پارٹیز حریت کانفرنس کے بزرگ چیئرمین جناب سید علی گیلانی نے دو ہفتے قبل پاکستان سے مدد کی اپیل کی تھی۔ اس اپیل کے جواب میں وزیر اعظم نے قوم سے خطاب کرتے ہوئے کشمیر آور کا اعلان کیا اور ساتھ ہی دنیا پر واضح کیا کہ کوئی کشمیریوں کا ساتھ دے نہ دے پاکستانی قوم آخری حد تک اہل کشمیر کے ساتھ کھڑی رہے گی۔ جمعہ کے روز کشمیر آور تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم عمران خان نے اس عزم کو دہرایا۔ وزیر اعظم نے کہا کہ آج سارا پاکستان کشمیریوں کے ساتھ کھڑا ہے۔ کشمیر کی آزادی تک کشمیریوں کے ساتھ کھڑے رہیں گے۔80لاکھ کشمیری چار ہفتے سے جن مشکلات کا شکار ہیں وزیر اعظم عمران خان نے ان کا ذکر کرتے ہوئے بھارتی حکومت اور آر ایس ایس کو جرمن نازی پارٹی کی نظریاتی باقیات قرار دیا۔ انہوں نے عالمی اداروں کی مسلمانوں پر روا مظالم و بربریت کے متعلق خاموشی کو بے حسی قرار دیا۔ وزیر اعظم عمران خان کے خطاب میں سب سے نمایاں وہ جملے ہیں جن میں انہوں نے بھارتی حکومت کو اینٹ کا جواب پتھر سے دینے اور پاکستانی فوج کے تیار ہونے کا کہا۔ کچھ قابل فہم اور بعض ناقابل فہم وجوہات کی بنا پر موجودہ عالمی نظام پسماندہ اقوام اور مسلم ممالک کے مسائل کو حل کرنے میں ناکام ثابت ہوا ہے۔ دنیا میں سیاسی‘ سفارتی اور معاشی و تکنیکی امور پر جتنی تنظیمیں ہیں لگ بھگ سب کی پالیسی چھ سات ممالک بناتے ہیں۔ ان طاقتور ممالک کی حکومتیں اس وقت تک کوئی حکمت عملی کارگر نہیں بنا سکتیں جب تک ان کی نجی دفاعی صنعت اور مالیاتی ماہرین اس کو قبول نہ کریں۔ یوں عالمی قوتوں کی دلچسپی چند کاروباری اداروں کے مفادات تک محدود رہ جاتی ہے۔ اقوام متحدہ اور بے شمار تنظیمیں انسانی حقوق کے تحفظ، انسانی بھائی چارے اور محروم معاشروں کی ترقی کے لئے کام کر رہی ہیں۔ ان تنظیموں اور اداروں کو کام کرنے کے لئے فنڈز یہی طاقتور کاروباری گروپ فراہم کرتے ہیں۔ اپنی ساکھ بچانے کے لئے یہ ادارے اگرچہ دنیا میں جس جگہ انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہو بلا امتیاز آواز بلند کرتے ہیں مگر ان کی تشویش پر کارروائی بہرحال جن قوتوں کو کرنا ہے وہ گونگی بہری بن جاتی ہیں۔ اس کا ثبوت اقوام متحدہ کی گزشتہ ایک سال میں جاری کی گئی دو رپورٹس ہیں جن میں بھارتی فوج کو مقبوضہ کشمیر میں ظلم کرنے اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی مرتکب قرار دیا گیا۔ ایسی ہی ایک رپورٹ امریکہ نے جاری کی اور بھارت کو مذہبی امتیاز اور مذہبی بنیاد پر عدم برداشت والے ملکوں میں سرفہرست قرار دیا۔ چند ہفتے قبل جینو سائیڈ واچ نے رپورٹ میں بتایا کہ بھارت مقبوضہ کشمیر میں کشمیریوں کی نسل کشی کر رہاہے۔ اس کے بعد ہیومن رائٹس واچ نے مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوج کی کارروائیوں اور کشمیریوں کی حالت زار بیان کی۔ ان بین الاقوامی رپورٹس کے بعد سلامتی کونسل کے مستقل اراکین کو بھارت کے اقدامات کا نوٹس لیتے ہوئے تنازع کشمیر پر کھلی بحث کرانا چاہیے تھی مگر مساوی اور منصفانہ عالمی نظام کی محافظ ہونے کی دعویدار یہ قوتیں چار ہفتوں سے کرفیو میں سانس لیتے کشمیریوں کو اپنے مفادات میں تول رہی ہیں۔ پاکستان اوراہل کشمیر کا جینا مرنا ایک ہے۔ کشمیر پاکستان کی شہ رگ ہے۔ جبکہ پاکستان کشمیریوں کا وکیل ہے۔ صدیوں سے جغرافیائی ‘ معاشی اورمذہبی رشتوں نے پاکستان کے لوگوں کو کشمیر سے جوڑ رکھا ہے۔ پاکستان نے ہمیشہ تنازع کشمیر کو پرامن طریقے سے طے کرنے کی بات کی۔ تاریخی طور پر کشمیر کا تنازع انگریز راج کی بدانتظامی یا ہندو نواز پالیسی کے طفیل پیدا ہوا۔ جمہوریت کا مطلب اکثریت کے فیصلے کا احترام ہوتا ہے۔ ساری دنیا جمہوریت اورجمہوری اصولوں کا راگ الاپتی ہے مگر فلسطین کی طرح اہل کشمیر کی اس رائے کو نظر انداز کیا جا رہا ہے کہ وہ آزادی چاہتے ہیں۔ پاکستان اور بھارت کشمیر کی وجہ سے چار جنگیں لڑ چکے ہیں۔ آئے روز لائن آف کنٹرول پر دونوں طرف جانی نقصان ہو رہا ہے۔ پاکستان نے عالمی برادری، بھارت کے دوست ممالک اور بین الاقوامی اداروں سے مداخلت کی اپیل کی تاکہ چار ہفتوں سے بنیادی ضروریات سے محروم کشمیریوں کی مدد کی جا سکے۔ اب تک عالمی ضمیر اس سلسلے میں سویا دکھائی دیتا ہے۔ پاکستانی قوم نے کشمیریوں سے اظہار یکجہتی کے لئے امن کا راستہ اختیار کیا۔ پاکستان سمجھتا ہے کہ تنازعات کا حل ہمیشہ مذاکرات اور بات چیت سے نکلتا ہے۔ جنگیں تنازعات کو طے کرنے کی بجائے سنگین بنانے کا کام کرتی ہیں‘ اہل کشمیر اپنا حال فلسطین کے مظلوم عوام جیسا ہوتا نہیں دیکھنا چاہتے نہ ہی پاکستان کبھی انہیں تنہا اور لاوارث چھوڑے گا۔ پاکستان ایک ایک کر کے ہر دروازہ کھٹکھٹا رہا ہے، ہر اس پلیٹ فارم سے رجوع کر رہا ہے جو اہل کشمیر کو مدد فراہم کر سکے لیکن معاملات متواتر سنگین ہوتے جا رہے ہیں۔ عالمی برادری کا ضمیر بیدار نہ ہوا اور پاکستان کی جانب سے معاملے کو مذاکرات سے طے کرنے کا جو راستہ تجویز کیا گیا اسے نہ اختیار کیا گیا تو آخری انتخاب جنگ ہو سکتا ہے۔ وزیر اعظم جب پاک فوج کے تیار ہونے کی بات کرتے ہیں تواس کا مطلب یہی ہے کہ پاکستانی قوم اور فوج کشمیریوں کی مدد کے لئے ہر صورت حال کے لئے تیار ہیں۔