ملک بھر میں غیر اعلانیہ لوڈشیڈنگ کے باعث شہریوں کو شدید مشکلات کا سامنا ہے۔ شہری علاقوں میں 8سے 10گھنٹے اور دیہی علاقوں میں 18گھنٹے بجلی غائب رہنے کی وجہ سے شہری احتجاج کرنے پر مجبور ہیں۔حکومتی اعداد و شمار کے مطابق ملک میں موسم گرما میں طلب 25ہزار میگاواٹ جبکہ پیداوار 19ہزار میگاواٹ ہے ۔ پاکستان اکنامک سروے کے مطابق سال 2020 تک پاکستان کی کْل انسٹالڈ کپیسٹی 35,972 میگاواٹ ہے۔ ماہرین کے مطابق پاکستان میں بجلی پیدا کرنے کا مسئلہ نہیں بلکہ صارفین تک پہنچاناہے۔ تحریک انصاف کے اپنے وزیر مشیر یہ دعویٰ کرتے رہے ہیں کہ ماضی کی حکومتوں نے نہ صرف ضرورت سے زیادہ اور مہنگے بجلی گھر لگائے بلکہ نجی بجلی گھروں سے انسٹالڈ کپیسٹی کے مطابق بجلی خریدنے کے معاہدے بھی کئے جس سے حکومت کو بجلی استعمال کیے بغیر اربوں روپے سالانہ قومی خزانے سے ادا کرنے پڑتے ہیں ۔اس تناظر میں دیکھا جائے تو حکومت کا شارٹ فال کا دعویٰ ناقابل فہم ہے البتہ یہ درست ہے کہ حکومت کے پاس بجلی کی ترسیل کا نظام فرسودہ ہے اور موجودہ ٹرانسمیشن لائنیں 24ہزار میگاواٹ بجلی کی ترسیل کی صلاحیت رکھتی ہیں مگرپھر بھی شارٹ فال ہزار میگاواٹ بنتا ہے، بہتر ہو گا حکومت لوڈشیڈنگ سے نجات کیلئے نجی بجلی گھروں کی بجلی کو استعمال میں لانے کے ساتھ ٹرانسمیشن کی کپیسٹی بڑھانے کے لئے نئی لائنیں بھی بچھائے تاکہ عوام کو جان لیوا لوڈشیڈنگ سے نجات مل سکے۔