اسلام آباد(خبر نگار)عدالت عظمیٰ نے دھوکہ دہی کے ایک مقدمے کی سماعت کرتے ہوئے ملزم کی درخواست قبل ازضمانت گرفتاری مسترد کردی اور آبزرویشن دی ہے کہ اس طرح کے مقدمات میں ملزمان گرفتار نہ ہو تو نظام عدل ختم ہوجائے گا جو پہلے ہی اس ملک میں تقریباً ختم ہوچکا ہے ۔جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں دو رکنی بنچ نے چیک ڈس آنر کیس میں ملزم ملزم ذوالفقار احمد کی ضمانت قبل از گرفتاری کی درخواست پر سماعت کی تو درخواست گزار کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ ان کے موئکل پر دو کروڑ روپیہ سے زائد رقم کے بوگس چیک دینے کا الزام ہے ۔ موئکل نے چیک جاری ہی نہیں کیا بلکہ مدعی نے چیک چوری کرکے جعلی چیک دینے کا جھوٹا مقدمہ دائر کیا ۔ مدعی درخواست گزار کا کاروباری شراکت دار تھا اور لین دین میں تنازعے پر ان کے موئکل کو جھوٹے مقدمے میں پھنسا دیا ۔جسٹس قاضی محمد امین احمد نے سوال اٹھایا کہ کیا چیک بھی چوری ہو سکتا ہے ؟، یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ ملزم نے چیک پر دستخط کر کے تاریخ بھی لکھ رکھی تھی، بعض چیزیں چوری نہیں ہو سکتیں، جیسے کسی کا ایمان چوری نہیں ہو سکتا،بعض چیزوں کو چرانے پر پرچہ نہیں ہوتا، جیسے دل چرانے پر مقدمہ نہیں بنتا لیکن فوجداری مقدمات میں ملزم گرفتار نہ ہو تو پورا نظام عدل ختم ہوجائے گا۔ضمانت قبل از گرفتاری کا قانون بہت واضح ہے ، اس مقدمے میں3سال قید کی سزا ہوسکتی، فوجداری مقدمات میں ملزمان کی گرفتاری لازمی ہے ۔ سپریم کورٹ نے چیک ڈس آنر کیس میں ملزم کی ضمانت قبل ازگرفتاری کی درخواست مسترد کردی۔دریں اثناء عدالت عظمیٰ نے کرپشن میں ملوث پاکستان پوسٹ کے ملازم عمران شاہد کی بحالی کا فیصلہ کالعدم کرکے آبزرویشن دی ہے کہ جب کرپشن ثابت ہے تو پھر بحالی کس قانون کے تحت ہوسکتی ہے ۔چیف جسٹس نے کہا انکوائری الزامات درست ثابت ہونے پر ٹریبونل کس قانون کے تحت برطرفی کے فیصلے کو غلط قرار دے رہا ہے ؟، سرکاری فنڈ میں خورد برد کرنے والے کو کیسے سروس ٹریبونل بحال کر سکتا ہے ۔ عدالت نے حکومتی درخواست منظور کرتے ہوئے ٹربیونل کا فیصلہ کالعدم قرار دے دیا۔عدالت عظمیٰ نے تربت بلوچستان میں گندم کے گودام میں بے قاعدگیوں کے الزام میں برطرف ڈپٹی فوڈ کنٹرولر جابر علی کی بحالی کے خلاف صوبائی حکومت کی اپیل خارج کردی ۔