ملک میں آٹے کا بحران پیدا ہو چکا ہے ، حکومت کی طرف سے فلور ملوں کو گندم کا کوٹہ بڑھانے کے باوجود آٹے کی کمی پر قابو نہیں پایا جا سکا ۔ پنجاب میں حکومت نے تمام ڈویژن اور تمام اضلاع میں 5 بوری فی باڈی اضافہ کیا ہے ، اس کے باوجود دوکانوں پر آٹا دستیاب نہیں ۔ حکومت نے یوٹیلیٹی سٹورز کو بھی سات ارب روپے کا پیکج دیا ہے اور 20 کلو تھیلے کی قیمت 800 روپے مقرر کی ہے مگر سوال یہ ہے کہ یوٹیلیٹی سٹورز کا دائرہ کتنا وسیع ہے ؟ یوٹیلیٹی سٹورز سے تو مجموعی آبادی کا ایک فیصد اشیائے ضرورت خرید نہیں کرتا تو ان حالات میں کس طرح ممکن ہے کہ عام آدمی کو ریلیف مل سکے ؟ آٹے کا بحران کیا ہے ، اس کی وجوہات کیا ہیں؟ ان عوامل پر غور کرنے کی ضرورت ہے ۔ورنہ جتنے بھی ریلیف دیئے جا رہے ہیں وہ سب غریب عوام کے خون پسینے کی کمائی ہیں جو کہ بالواسطہ طاقتور بیورو کریسی اور ارب پتی صنعت کاروں و سرمایہ داروں کے پاس چلے جاتے ہیں ۔ آٹے کا بحران ان سرمایہ دار مل مالکان کا پیدا کردہ ہے جن کو غریب عوام کا ’’ خون چوسنے کے صلے ‘‘ میں حکومت کی طرف سے سبسڈی اور ریلیف پیکجز دیئے جاتے ہیں۔ بحران کی اصل وجہ دولت کی ہوس اور زیادہ سے زیادہ منافع کا لالچ ہے ۔ فلور مل مالکان کو حکومت 1300 روپے من گندم فراہم کر رہی ہے ڈیڑھ یا دو سو روپے من پسائی کے اخراجات شامل کر کے ایک سو روپیہ من فلور مل مالکان کے لئے معقول منافع ہے ۔ مگر مسئلہ یہ ہے کہ فلور مل مالکان ایک تہائی سے زائد منافع کے چکر میں عام آدمی کا کچومر نکال رہے ہیں ۔ اصولی طور پر ہونا تو یہ چاہئے کہ فلور مل مالکان جو گندم ملے اس تمام کا ایک ہی طرح کا آٹا بنائیں مگر فلور مل مالکان اسی گندم سے میدہ اور سوجی بھی نکالتے ہیں اور سفید آٹا بھی بناتے ہیں ۔ باقی پیچھے جو کچھ بچتا ہے وہ 20 کلو کا تھیلا 800 روپے سے زائد فروخت کرتے ہیں مگر ستم یہ کہ آٹے کے تمام خواص نکالنے کے باوجود جو ’’ پھوگ‘‘ باقی بچ جاتا ہے ‘ وہ بھی غریبوں کو نہیں مل رہا ۔ آج کے اخبارات میں پاکستان فلور ملز ایسوسی ایشن کے مرکزی چیئرمین عاصم رضا احمد اور پنجاب کے چیئرمین عبدالرؤف مختیار کی طرف سے ایک بڑا رنگیں اشتہار شائع ہوا ہے جس میں وزیراعظم عمران خان ، وزیراعلیٰ عثمان بزدار ، جہانگیر ترین ، چیف سیکرٹری پنجاب میجر (ر) اعظم سلیمان کی تصاویر شائع کی گئی ہیں۔ ظاہر ہے ان تصاویر کا اشتہار سے کوئی تعلق نہیں ، یہ فلور مل مالکان کی طرف سے محض حکومت کی خوشنودی حاصل کرنے کا حربہ ہے ۔ اشتہار کا متن یہ ہے ’’ خوشخبری ، آٹے کی قیمت میں کمی ، جناب وزیراعظم عمران خان اور جناب وزیراعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار کی جانب سے عوام کو سستے داموں اشیاء خوردنوش کی فراہمی کو یقنی بنانے کے اقدامات قابل ستائش ہیں ، پنجاب فلور ملز ایسوسی ایشن نے حکومت کے عوامی ریلیف مشن میں شریک ہوتے ہوئے عوامی مفاد میں جذبہ خیر سگالی کے تحت آٹے کی قیمت میں 3 روپے فی تھیلا کمی کر دی ہے ۔ آج سے پنجاب میں 20 کلو آٹا تھیلا کی پرچون قیمت 805 روپے ہے۔ کوئی دوکاندار اس سے زائد قیمت طلب کرے تو فلور ملز ایسوسی ایشن کو مطلع کیا جائے ۔ ‘‘ فلور ملز ایسوسی ایشن کی اس پیشکش پر کہ ’’ کوئی دوکاندار زائد قیمت وصول کرے تو اطلاع دی جائے ‘‘ کے سلسلے میں گزارش یہ ہے کہ زائد قیمت تو اپنی جگہ رہی ،بھاری قیمت پر بھی مضر صحت آٹا دستیاب نہیں ۔دوسرا یہ کہ جو تین روپے کا ریلیف دیا گیا ہے اور وزیراعظم اور وزیراعلیٰ کے ویژن کی تکمیل کیلئے تین روپے کی جو ’’ سخاوت ‘‘ کی گئی ہے اس سے تو حاتم طائی کی روح بھی تڑپ اُٹھی ہو گی اور وہ اپنی قبر سے کہہ اُٹھے ہوں گے کہ میں غریبوں کے لئے جو کچھ نہ کر سکا البتہ پاکستان فلور ملز ایسوسی ایشن ’’ بازی لے گئی‘‘ ۔ حکومت کے ساتھ ساتھ فلور ملز ایسوسی ایشن کو بھی یہ بات سمجھنی چاہئے کہ پاکستان کے غریب لوگ ستائے ہوئے ضرور ہیں مگر بیوقوف نہیں ۔ فلور ملز ایسوسی ایشن سے سوال ہے کہ جس سفید آٹے کو ’’ فائن آٹا‘‘ کا نام دے کر 2ہزار سے 2200 روپے تک فروخت کیا جا رہا ہے ، کیا یہ اسی گندم کا نہیں جو آپ 1300روپے فی من کے حساب سے لے رہے ہیں ؟ اور بچ جانے والے روٹی کے ٹکڑے اور خراب گندم تک شامل کر دی جاتی ہے ۔ آج گھر اجڑ رہے ہیں اور ہسپتال آباد ہو رہے ہیں ، کیا کبھی حکومت اور فلور ملز ایسوسی ایشن نے اس کی وجوہات پر غور کیا ؟ فلور ملز ایسوسی ایشن والے یا دوسرے سماج دشمن عناصر جو کچھ کر رہے ہیں ، اس میں محکمہ خوراک کے افسران پوری طرح ملوث ہیں ۔ انسپکٹر فوڈ سے لیکر ڈی جی فوڈ تک سب فلور مل مالکان سے ملے ہوئے ہوتے ہیں اور ان کی ملی بھگت اور چشم پوشی سے ہی غریبوں کو دونوں ہاتھوں سے لوٹا جا رہا ہے ۔ ایسے ہی موقع پر ایک سرائیکی کہاوت وجود میں آئی کہ ’’ اندھا راجہ بے داد نگری ، اٹا مہانگا تے عزت سستی ‘‘ ۔ کسی بھی زبان کی کہاوت صدیوں کی لوک دانش کا نچوڑ کہلاتی ہے ۔ مگر ’’ برگر نسل ‘‘ کے حکمرانوں کو اس بات کا کیا علم کہ لوک دانش کیا ہوتی ہے ؟ یہ بھی عرض کروں کہ لوک دانش زمین سے پھوٹتی ہے اور زمین زادوں کی زبان میں ہی اظہار کا وسیلہ بنتی ہے ۔ ہمارے ہاں لوک دانش اس وجہ سے بھی عام نہ ہو سکی کہ پاکستانی زبانوں کو ایک طرف کر کے دشمن ملک انڈیا میں مصنوعی طور پر بننے والی ایک ایسی زبان کو سب کچھ بنا دیا گیا جو کہ بذاتِ خود دوسری زبانوں کے الفاظ کا مجموعہ ہے ، پاکستان کی تہذیب، ثقافت اور لوک دانش صرف پاکستانی زبانوں سے ہی آگے بڑھ سکتی ہے ۔ ہم بات کر رہے تھے آٹے کے بحران کی،اگر دیانت داری سے دیکھا جائے تو پاکستان میں خوراک کی کوئی کمی نہیں، مجھے یاد ہے کہ 2010ء میں سیلاب آیا ، وسیب کے 10 اضلاع متاثر ہوئے ، اس سیلاب میں سرکاری گوداموں میں پڑی لاکھوں ٹن گندم ضائع ہوئی اور جب سیلاب کا پانی خشک ہوا تو اس کے تعفن سے بیماریاں پھیلیں اور حکومت نے کروڑوں روپیہ خرچ کر کے خراب ہونے والی گندم کے گودام صاف کرائے ۔ ظلم یہ ہے کہ حکومت نے گندم ضائع کر دی غریبوں کو نہ دی۔ اس جرم کا کون حساب دیگا؟ آج کا سوال یہ ہے کہ وسیب میں گندم کے گودام بھرے ہوئے ہیں مگر غریبوں کے پیٹ خالی ہیں ؟ ریاست مدینہ میں امیر المومنین نے کہا تھا کہ دریائے فرات پر کتا بھوکا مر جائے تو اس کا ذمہ دار ہوں ، آج کی ریاست مدینہ کے دعوے داروں کو آنکھ کھولنی چاہئے کہ جانور تو کیا انسان بھوک سے مر رہے ہیں ۔