وزیر اعظم عمران خان کی زیر صدارت نیشنل انٹیلی جنس کوآرڈی نیشن کمیٹی کا اہم اجلاس انٹر سروسز انٹیلی جنس کے ہیڈ کوارٹرز میں ہوا،جس میں اہم قومی اور داخلی سلامتی سے متعلق امور کا تفصیلی جائزہ لیا گیا۔ افغانستان کی موجودہ صورتحال پر تبادلہ خیال ہوا اور پاکستان میں امن و امان اور سکیورٹی کو یقینی بنانے کے لئے اہم فیصلوں کی منظوری دی گئی ہے۔ افغانستان میں تیزی کے ساتھ حالات تبدیل ہو رہے ہیں۔ سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے افغان طالبان کے ساتھ دوحہ قطر میں امن مذاکرات کر کے افغانستان سے پرامن انخلا کا معاہدہ کیا تھا کیونکہ بیس سالہ جنگ میں اربوں ڈالر جھونکنے کے باوجود امریکہ مطلوبہ نتائج حاصل نہ کر سکا۔جس بنا پر سابق امریکی صدر نے انخلا میں ہی عافیت سمجھی۔ ڈونلڈ ٹرمپ کے الیکشن ہارنے کے بعد نومنتخب امریکی صدر جوبائیڈن نے پہلے تو معاہدے پر نظرثانی کرتے ہوئے انخلا نہ کرنے کا اعلان کیا لیکن افغان طالبان کی جانب سے جب سخت پیغام ملا تو جوبائیڈن نے11 ستمبر 2021ء تک مکمل انخلا کرنے کا اعلان کر دیا۔اس وقت امریکہ کے تقریباً 80فیصد فوجی وہاں سے جا چکے ہیں جبکہ افغان طالبان پے درپے فتوحات کے پرچم لہراتے شہروں پر شہرفتح کر رہے ہیں۔ افغان طالبان کی کامیابیاں پر انکے مخالفین واویلا کر رہے ہیں کہ اگر طالبان نے کابل پر قبضہ کر لیا تو افغانستان میں خانہ جنگی شروع ہو جائے گی۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا اس وقت افغانستان میں امن و سکون ہے۔ کابل حکومت کی رٹ کس کس شہر تک قائم ہے ،اگر نیٹو افواج آج ہی کابل کی سکیورٹی افغان فورس کے سپرد کر دیتی ہے تو وہ کتنی دیر طالبان کے سامنے مزاحمت کر پائے گی۔ افغان قوم اس وقت خانہ جنگی سے تنگ آ چکی ہے۔ اس کی کئی نسلیں جنگوں میں پیدا ہوئیں اور جنگوں میں جوان ہو کر خاک کی چادر اوڑھ کر سو گئی ہیں لیکن آج تک کسی نے ان مائوں سے نہیں پوچھا جن کے لخت جگر اس پرائی جنگ کا لقمہ بن گئے۔ اس لئے اس پروپیگنڈہ میں کوئی صداقت نظر نہیں آتی۔ اگر خانہ جنگی شروع ہونا ہوتی تو امریکہ اور نیٹو افواج کی موجودگی میںمزاحمت نظر آتی حالانکہ نیٹو افواج کا اسلحہ بھی ابھی وہاں پر موجود ہے جبکہ مزاحمت کی صورت میں مخالفین کی نہ صرف حوصلہ افزائی کریں گے بلکہ عسکری مدد بھی کی جائے گی۔ اس کے باوجود اگر انٹیلی جنس رپورٹیں خانہ جنگی کی نشاندہی کرتی ہیں تو پھر پاکستان کو اس بار اپنی سرحدوں کی سکیورٹی سخت کرنی چاہیے ۔ وزیر داخلہ شیخ رشید نے 19جون کو قومی اسمبلی کے فلور پر کہا تھا کہ پاک افغان سرحد پر باڑ کا کام 80فیصد مکمل ہو چکا ہے جبکہ باقی کا کام اگلے دس دنوں میں مکمل ہو گا۔ اگر ہم افغان بارڈر پر مکمل باڑ لگا دیتے ہیں، تو ماضی کی طرح بغیر ویزے کے جتھوں کی شکل میں افغانوں‘ عسکریت پسندوں اور دہشت گردوں کا آنا مشکل ہو جائے گا۔ اس بار ہمارے قبائلی علاقہ جات دہشت گردوں کے لئے محفوظ پناہ گاہیں نہیں بنیں گ۔ لیکن اس کے لئے ضروری ہے کہ انٹیلی جنس اداروں کو متحرک رکھا جائے۔مرکزی اور صوبائی اداروں کی آپس میں کوآرڈی نیشن ہو تاکہ کسی بھی ہنگامی صورتحال میں برق رفتاری سے اہداف تک پہنچا جا سکے۔ لاہور میں ہونے والا بم دھماکہ بھی امن دشمنوں کی سازش ہے جو وطن عزیز کو مسائل میں گھرا دیکھنا چاہتے ہیں۔ قانون نافذ کرنے والے اداروں نے ایئر پورٹ سے گاڑی کے مالک غیر ملکی شخص کو حراست میں لے لیا ہے۔ جس سے تفتیش کے بعد مزید چیزیں سامنے آئیں گی لیکن اس دھماکے کے بعد ہماری سکیورٹی فورسز کو دشمن کے عزائم ناکام بنانے کے لئے ہر وقت چوکس رہنا ہو گا۔ ہمارے انٹیلی جنس اداروں کی آپس میں کوآرڈی نیشن مثالی ہونی چاہیے تاکہ ہم مستقبل کے خطرات سے نمٹ سکیں۔ اس وقت ہمیں ڈیورنڈ لائن کے ساتھ ساتھ لائن آف کنٹرول اور بلوچستان کی افغانستان کے ساتھ ملنے والی سرحد پر بھی چوکس رہنا ہو گا کیونکہ ماضی میں دشمن ان جگہوں سے اپنی مذموم کارروائیاں کرچکا ہے،اگر ہم بہتر کوآرڈی نیشن قائم کرنے میں کامیاب ہو گئے تو دشمن کے ناپاک منصوبوں کو ناکام بنانے میں بھی کامیاب ہو سکیں گے۔ کشمیر کا مسئلہ بھی اس وقت عالمی برادری کی توجہ کا خصوصی مرکز بنا ہا ہے۔ وزیر اعظم عمران خان نے کشمیریوں سے وعدہ کیا تھا کہ وہ کشمیر کے سفیر بنیں گے۔ لہٰذا اب انہیں افغانستان کی صورتحال میں الجھ کر کشمیر کے مسئلہ کو پس پشت نہیں ڈالنا چاہیے بلکہ کشمیریوں کے لئے دل و جان سے کام کرنا چاہیے۔ عالمی برادری کے ضمیر کو مزید جھنجھوڑ کر اسے کشمیر سے کرفیو کے خاتمے پر زور دینا چاہیے۔ دو برس سے کشمیری عوام اپنے گھروں میں محصور ہیں،کورونا وبا میں انہیںآکسیجن ملی نہ ہی ویکسین کا عمل شروع ہوا ہے ۔اس لئے عالمی برادری پر زور دیا جائے کہ وہ کشمیریوں کو ویکسین مہیا کرنے کے لئے مودی سرکار پر دبائو ڈالے۔ ملکی دفاع کے لئے ہمیں تمام تر صلاحیتوں کو بروئے کار لا کر کام کرنا ہو گا۔ ہمارے دشمن کی کوشش ہو گی کہ وہ ان حالات سے فائدہ اٹھا کر ہمارے اندرونی حالات میں مداخلت کرے۔ پاکستان نے بھرپور کوشش کر کے مذہبی انتہا پسندی پر قابو پایا ہے۔ لیکن ہمارا دشمن دوبارہ سے اس کوشش میں ہے کہ وہ مذہبی تفرقہ بازی کو ہوا دے کر پاکستان کو غیر مستحکم کرے۔اس لئے دشمن کی ہر چال ناکام بنانے کے لئے کمر بستہ ہونا ہو گا۔