بڑے بڑے دعوئوں اور وعدوں کے خواب دکھا کر پی ٹی آئی کی حکومت وجود میں آئی اور اب حال یہ ہے کہ کارکردگی کے حقائق تو بڑے تلخ ہیں لیکن بڑے بڑے اعلانات اور دعوے اسی طرح جاری و ساری ہیں جیسے حکومت میں آنے سے پہلے تحریک انصاف کا وتیرہ تھا۔ مگر اب حالات بدل چکے ہیں آپ اپوزیشن میں ہوں تو تقریروں اور بیانات سے کام چلا سکتے۔ لیکن اگر آپ حکمران ہوں۔ ملک کی انتظامی مشینری آپ کے اختیار میں ہو تو پھر عوام آپ سے کارکردگی کے ثبوت مانگتے ہیں۔ خالی خولی دعوئوں سے کام نہیں چلایا جا سکتا۔ گزشتہ روزکا اخبار دیکھ لیں۔ ایک طرف بیانات اور دعوے ہیں اور دوسری طرف حالات کی اصل تصویر ہے۔ ہمارے وزیر اعلیٰ پنجاب جناب عثمان بزدار صاحب فرماتے ہیں کہ ’’عام آدمی کے معیاری علاج کے لئے ہر قدم اٹھائیں گے‘ صحت کے شعبہ کو بہتر بنانے کے لئے وسائل میں کمی نہیں آنے دیں گے۔ صحت کی سہولتوں کو عام آدمی کے لئے خوب سے خوب تر بنا رہے ہیں‘‘اور ان دعوئوں کے ساتھ ہی اصل صورت حالات کی تصویر بھی خبروں کی صورت میں موجود ہے۔ ملک بھر میں ڈینگی کے اس وقت کل 20ہزارمریض ہیں۔ سب سے زیادہ تعداد راولپنڈی ‘اسلام آباد اور لاہور اور اس کے نواحی علاقوں‘ پنجاب کے کئی دیگر اضلاع میں پھیل چکا ہے۔ مرض قابل علاج ہے مگر اس قدر جان لیوا ہے کہ پورے ملک میں مختصر سے عرصہ میں درجنوںجانیں اس وبا کی نذر ہو چکی ہیں۔ پنجاب حکومت کے محکمہ صحت ‘ وزیر صحت اور دیگر منتظمین نے انتہائی غفلت کا مظاہرہ کیا ہے جس وقت اس وبا کو کنٹرول کرنے کا وقت تھا انہوںنے وقت ضائع کیا۔ حالانکہ ستمبر میں ڈینگی پوری شدت کے ساتھ راولپنڈی‘ اسلام آبادمیں اور نواحی علاقوں میں پھیل چکا تھا۔ ستمبر میں پمز ہسپتال جانے کا اتفاق ہوا تو وہاں ایمرجنسی ڈیکلیر تھی۔ وارڈوں سے لے کر برآمدوں تک ڈینگی کے مریض موجود تھے لیکن یہاں لاہور میں راوی سب چین ہی چین لکھ رہا تھا۔ ڈینگی نے پوری طرح اپنے قدم جما لئے تو پنجاب حکومت کو یہاں ایمرجنسی نافذ کرنے اسپرے کرنے کا خیال آیا اور یہ ایسا ہی قدم تھا جس کے بارے میں کہاوت مشہور ہے کہ جو مکا جنگ کے بعد یاد آئے اسے اپنے سر پر دے مارو۔ ڈینگی پھیلنے کے جس مرحلے میں اسپرے کیا جاتا ہے اس میں لاروا کو تلف کرنا مقصود ہوتا ہے تاکہ وہ نمو پا کر پورا ڈینگی مچھر نہ بن سکے۔یہ اسپرے جولائی ‘ اگست کے مہینوں میں کروانا چاہئے تھا لیکن اس وقت تک یہاں گھروں‘ دفتروں ‘عمارتوں میں اسپرے کا اہتمام نہیں کیا گیا اورجن کی ذمہ داری تھی کہ اس وبا کو پھیلنے سے روکنے کے بروقت اقدامات کرتے وہ غفلت میں پڑے بس تبدیلی اور وژن کا کا راگ الاپ رہے تھے۔حد یہ ہے کہ پاکستان میں اس جان لیوا مگر قابل علاج وبا کے پھیلنے اور موثر اقدامات نہ کرنے کی خبریں عالمی میڈیا کے اخباروں میں چھپ رہی تھیں۔ 24ستمبر 2019ء کو گلف نیوز کی خبر ہے کہ پاکستان میں ڈینگی کی وبا شدت پکڑ گئی ۔ ٹیلی گراف ‘ واشنگٹن پوسٹ نے بھی پاکستان میں ڈینگی کے حوالے سے خصوصی رپورٹس شائع کیں لیکن یہاں وطن عزیز میں اس شدت اور ہنگامی بنیادوں پر اس وبا کے خلاف اقدامات نہیں کئے گئے۔ فلپائن اور بنگلہ دیش کے ممالک بھی اس وبا کی زد میں ہیں لیکن وہاں اس پر آغاز ہی میں قابو پالیا گیا۔ سرکاری ہسپتالوں کا تو یہ حال ہے کہ ڈینگی کا مریض باپ وارڈ میں پڑا ہے اور اس کا تیمار دار کمسن 13سالہ لڑکا ہسپتال کی خراب لفٹ میں پھنس کر جاں بحق ہو گیا۔یہ دلخراش سانحہ پنجاب کے سب سے بڑے سرکاری میو ہسپتال میں پیش آیا۔ ذرا تصور کریں اس بیمار باپ کے دل پر کیا قیامت گزری ہو گی۔ لفٹ خراب تھی آپریٹر موجود نہیں تھا اور بچہ اس لفٹ میں پھنس گیا۔ آوازیں دیتا رہا لیکن کسی نے اس کی آواز نہ سنی تھی۔ بالآخر دم گھٹ کر مر گیا۔ پنجاب کے سرکاری کیا پرائیویٹ ہسپتالوں کا بھی کوئی حال نہیں ہے خرابی ظاہر ہے اس حکومت کی پیدا کردہ نہیں برسوں سے صحت کا شعبہ نظر انداز ہوا ہے۔ طبقہ اشرافیہ و حکمرانیہ و اقتداریہ‘ کے نزدیک چونکہ عوام الناس کی جان قیمتی نہیں ہے اس لئے اس کو بچانے کے لئے اسلامی جمہوریہ پاکستان کے خزانے سے رقم خرچ کرنا ہسپتالوں کی بگڑی ہوئی صورت کو بہتر بنانا چنداں ضروری نہیں بلکہ الٹا یہ ’’اسراف‘‘ کے زمرے میں آتا ہے اور اسی سوچ کے پیروکار بدقسمتی سے ہمارے حکمران رہے ہیں سو اب صورت حال یہ ہے کہ ڈینگی پورے پاکستان میں پھیلا ہوا ہے۔ لیکن سندھ میں ایڈز کی وبا نے بھی تباہی مچا رکھی ہے اور ایڈز کا سب سے بڑا مرکز لاڑکانہ ہے لاڑکانہ شہر اور اس کے نواحی قصباتی شہروں میںایک طرف جہالت اور زندگی بنیادی ضروری سہولتوں سے محرومی کے دکھ میں تو دوسری طرف گھر گھر ایڈز کے مرض نے تباہی پھیلا رکھی ہے ۔ 20نومبر کو جب دنیا میں بچوں کا عالمی دن منایا جا رہا ہو گا تو ہم دنیا کو بتائیں گے کہ ہمارے پاس ایڈز کے ریکارڈ تعداد میں مریض بچے موجود ہیں اب ہم کیا کریں کہ ہم اپنے حکمرانوں کے طفیل دنیا کے سامنے اسی قسم کے ریکارڈز میں امتیاز حاصل کرسکتے ہیں اور یہ بھی کہ سندھ کے مرتے ہوئے بچوں کے درمیان بھٹو ابھی زندہ ہے اور تب تک زندہ رہے گا جب تک جہالت اور شخصیت پرستی کا ایڈز یہاں سے ختم نہیں ہو جاتا۔ یہ دو چار برس کی بات نہیں ہے۔ ستر سال کا المیہ ہے۔ غریب شہر کم وسائل بدترین ناانصافی‘ اور بے حس حکمرانوں کے طفیل زندگی بھر خوار ہوتا ہے اور طبقہ اشرافیہ و حکمرانیہ و اقتداریہ‘ ایک طفیلئے کی طرح وسائل پر قابض رہا ہے۔ شوگر‘ بلڈ پریشر اور معدے کی بیماریوں کی ادویات مہنگی ہونے پر کہرام غریب کے گھر میں مچتا ‘ اہل ثروت کا کیا ہے وہ تو شاید اس ملک سے علاج کروانا بھی گوارا نہیں کرتے۔ مختصر یہ کہ ڈینگی‘ایڈز اور ادویات کی قیمتیں کنٹرول سے باہر ہیں۔ شکنجے میں صرف عوام ہیں۔ منیر نیازی سالوں پہلے کہہ گیا ہے ؎ منیر اس ملک پر آسیب کا سایہ ہے یا کیا ہے کہ حرکت تیز تر ہے اور سفر آہستہ آہستہ!