بعض اوقات لگتا ہے کہ ہم لوگ بنی اسرائیل کی طرح ہیں جو اللہ تعالی کی دی ہوئی کسی نعمت سے خوش اور مطمئن نہیں ہوتے تھے۔ ہر وقت اپنے ملک کے منفی پہلوؤں کا ذکر کرتے رہتے ہیں۔ سخت ناشکری ہوگی اگر ہم اپنے وطن کی اچھی باتوں کا تذکرہ نہ کریں اور ہر وقت ریاست کی مذمت کرتے رہیں۔اس بات سے قطع ِنظرکہ کس پارٹی کی حکومت ہے ‘ریاستی ڈھانچہ کا کورونا وبا سے نپٹنا ہمارے ملک کا ایک روشن پہلو ہے۔ حکومت پوری آبادی کو مفت کورونا وبا سے بچاؤ کی ویکسین لگا رہی ہے۔ تقریباً سوا کروڑ افراد کو ویکسین لگائی جا چکی ہے۔ اسوقت ہر روز ساڑھے تین لاکھ سے چار لاکھ افراد کووبا کے خلاف مدافعت کے حفاظتی ٹیکے لگائے جارہے ہیں۔ان مراکز پر بہت عمدہ انتظامات ہیں۔ حکومت نے اس کام پر سینکڑوں ارب روپے خرچ کیے ہیں۔ اسی کا نتیجہ ہے کہ وبا کا زور روز بروز کم ہورہا ہے۔ وبا شروع ہوئے تقریباً ڈیڑھ سال گزر گیا لیکن ہمارے ملک میں اسکے باعث اتنا جانی اور معاشی نقصان نہیں ہوا جتنا خطّہ کے دیگر ممالک میں نظر آتا ہے۔ ایران کی آبادی ہمارے ملک کی نسبت ایک تہائی ہے لیکن وہاں کورونا سے مرنے والوں کی تعداد اسّی ہزار سے زیادہ ہوچکی ہے۔ ہمارے ملک میں میں یہ تعدادلگ بھگ اکیس ہزارہے۔ انڈیا میں کورونا وبا نے تباہی مچائی ہوئی ہے۔ اسکی آبادی ہم سے ساڑھے چھ گنا زیادہ ہے لیکن وہاںکورونا کا شکار ہوکر ہلاک ہونے والوں کی تعدادہمارے ملک سے بیس گنا زیادہ یعنی چار لاکھ سے بڑھ چکی ہے۔یہ قدرت کی مہربانی بھی ہے لیکن ہماری حکومت نے وبا سے نپٹنے کے لیے ایسی حکمتِ عملی اختیار کی کہ اس آفت سے بہت کم نقصان ہوا۔ پاکستان میںنہ انڈیا کی طرح دواؤں کی قلت ہوئی نہ آکسیجن اور وینٹی لیٹرز کی۔ حالانکہ پاکستان کے مالی وسائل بھارتی حکومت کے مقابلہ میں خاصے کم ہیں۔گزشتہ مالی برس عالمی ادارے پیشین گوئی کررہے تھے کہ پاکستان کی معیشت چھ سات فیصد گھٹ جائے گی لیکن ایسا نہیں ہوا۔ معیشت صرف نصف فیصد نیچے گئی۔ رواں مالی سال میں بین الاقوامی ادارے کہہ رہے تھے کہ ترقی کی شرح ڈیڑھ فیصد رہے گی لیکن ہماری معیشت کی نموچا ر فیصد ہوئی۔ وبا کے دوران میں حکومت نے ڈیڑھ کروڑ خاندانوں کو بارہ ہزار روپے امداد بھی دی۔ چھوٹے کاروبار والوں کو کم شرح سود پرقرض دیا اور عوام الناس کو کئی رعائیتیں دی گئیں‘خاص طور سے بجلی اور گیس کے بلوں کی ادائیگی میں۔ مملکتِ پاکستان اپنے محدود وسائل کے باوجود عوام کے ایک بڑے طبقہ کی کفالت کرتی آرہی ہے۔ ایک تو پاکستانی ریاست تیس لاکھ سرکاری ملازموں اور پچیس لاکھ پنشنروں کو ہر ماہ باقاعدگی سے تنخواہ دیتی ہے۔یعنی ملک کے سوا تین کروڑ خاندانوں میں سے پچپن لاکھ گھرانے ایسے ہیںجنہیںحکومت ہر ماہ کیش منتقل کرتی ہے۔ کئی ماہرین معیشت کہتے ہیں کہ سرکار نے ضرورت سے زیادہ افراد کو ملازمت دی ہوئی ہے جو قومی خزانہ پر بوجھ ہے لیکن کوئی حکومت بڑے پیمانے پر چھانٹی نہیں کرتی تاکہ یہ لوگ بے روزگار نہ ہوں۔ سات لاکھ سے زیادہ افراد ایسے ہیں جو ماضی میں نجی اداروں کے ملازم تھے اور اب حکومت انہیں ایمپلائیز اولڈ ایج بینیفٹ اسکیم سے ماہانہ پنشن دیتی ہے۔ اس فنڈ میں نجی ادارے اور فائدہ اٹھانے والے ملازمین کی دی ہوئی رقم جمع ہے جسکی دیکھ بھال کا انتظام حکومت کے سپرد ہے۔ دنیا میں چھوٹی سی معیشت کے حامل کم ہی ایسے ممالک ہونگے جہاں رہاست نے عوام کی بہبود کے اتنے پروگرام شروع کیے ہوں جتنے ہمارے ملک میں ہیں۔ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام اور احساس پروگرام کے تحت اسیّ لاکھ گھرانوں کو سہ ماہی وظیفہ دیا جاتا ہے جسکی رقم ہر برس کچھ نہ کچھ بڑھا دی جاتی ہے۔اگلے مالی سال کے بجٹ میں حکومت نے اعلان کیا ہے کہ مستحق خاندانوں کی تعداد میں چالیس لاکھ کا اضافہ کردیا جائے گا یعنی ایک کروڑبیس لاکھ گھرانے یہ امدادوصول کریں گے۔کئی شہرں میں مستحقین کیلیے سرکاری لنگر خانے اور مسافرخانے بھی کام کررہے ہیں۔ خیبر پختونخواہ میں ہر خاندان کو صحت انشورنس حاصل ہے۔ یعنی اگر کسی خاندان میں کوئی شخص سنگین بیمار ہوتا ہے یا اسکی سرجری کروانے کی نوبت آتی ہے تو اسکا خرچ انشورنش کمپنی ادا کرتی ہے۔ انشورنش کا پریمیم بھی حکومت ادا کرتی ہے۔ جولائی سے شروع ہونے والے مالی سال میں یہ صحت انشورنس پنجاب میں ہر خاندان کو دستیاب ہوگی۔دنیا کے کئی امیر ملکوں میں بھی شہریوں کو سرکار کی جانب سے یہ سہولت حاصل نہیں۔ ہمارے ہاں بیت المال اور زکوٰۃ کے سرکاری اداروں سے بھی ہر سال لاکھوںمستحق لوگوں کی امداد کی جاتی ہے۔ ملک میں غربت ہے لیکن سرکاری سطح پر اسکا مداوا کرنے کی کوششیں بھی کی جاتی ہیں۔ جو لوگ یہ شکوہ کرتے ہیں کہ حکومت ہمارے لیے کچھ نہیںکرتی تویہ غلط بات کرتے ہیں۔ پاکستانی سرکارجیسی بھی ہے اس نے قومی تعمیر اور بہبود کے متعدد امور سنبھالے ہوئے ہیں۔ ملک میںموٹرویز کی صورت میں بہترین سڑکوں کا جال بچھایا ہے۔ ایسی سڑکیں جنوبی ایشیا کے کسی اور ملک میں نہیں ہیں۔پاکستان ریلوے کا نظام ہر روز ایک لاکھ سے ڈیڑھ لاکھ لوگوں کو سفر کی سہولت مہیا کرتا ہے۔ ٹھیک ہے کہ یہ نظام بوسیدہ ہوچکا ہے۔ اس ضمن میں حکومتوں کی کوتاہی افسوسناک ہے لیکن اب اسکی اصلاح کیلیے اقدامات کیے جارہے ہیں۔یہ ریاست دنیا کا سب سے بڑا نہری نظام چلاتی ہے۔ اسکی دیکھ بھال کرتی ہے۔ ڈیم اور بیراج بنائے گئے ہیں اورمزید بنائے جارہے ہیں۔ ہمارے کاشتکار نہری پانی کے استعمال کے عوض اتنا آبیانہ بھی نہیں دیتے کہ نہری نظام کی دیکھ بھال کے عملہ کی تنخواہیں پوری ہوسکیں۔ پھر بھی حکومت اِدھر اُدھر سے ٹیکس لیکر اس کمی کو پورا کرتی ہے۔ حکومت نے ملک کے کونے کونے میں بجلی پہنچائی ہے۔کئی جگہوں پر لوگ تیس سے چالیس فیصد بجلی چوری کرتے ہیں لیکن ریاست تمام مشکلات کے باوجود بجلی کا نظام چلا رہی ہے۔ ملک کے بیشتر چھوٹے بڑے شہروںمیںحکومت نے پائپ لائن سے سستی گیس پہنچائی ہے جو ایک بڑی سہولت ہے۔ ہمارا ملک دنیا کی چھٹی بڑی فوج رکھتا ہے جو بائیس کروڑ لوگوں کو انڈیا ایسے کئی گنا بڑے دشمن سے تحفظ مہیا کرتی ہے۔ ملک میںداخلی سلامتی کے لیے پولیس‘ رینجرز اورپیرا ملٹری فورسز کے ادارے ہیں ۔ لوگوں کے جھگڑے نپٹانے کو عدالتیں ہیں۔ سرکار کے زیرانتظام لاکھوں اسکول‘ ہزاروں کالج اور درجنوں جامعات کام کررہی ہیں۔ عوام کو سرکاری اداروں سے شکایات ہیں اور بجا ہیں۔ ان اداروں میں بددیانتی اور کرپشن کا دور دورہ ہے۔کام چوری بھی ہے۔ پولیس‘ عدلیہ کے نظام میں اصلاحات اور تعلیم اور صحت بشمول پبلک ہیلتھ کی سہولتوں میں بہتری لانے کی ضرروت ہے۔تاہم بہت سی خرابیوں کی جڑ ہمارا معاشرتی ڈھانچہ اور کلچر ہے۔اگر لوگوں میں خدمت کا جذبہ ہو اور بددیانتی کا کلچر عام نہ ہو توسرکاری وسائل سے اور زیادہ لوگوں کو فائدہ ہوسکتا ہے۔ لیکن اب بھی اپنے محدود وسائل اور تمام تر مشکلات کے باوجود پاکستان خاصی حد تک ایک فلاحی ریاست ہے ۔مملکتِ پاکستان کے مثبت پہلو کم نہیں۔