محرم الحرام ۱۴۴۲ھ کی آمد آمد ہے،صوبے میں بین المسالک ہم آہنگی اورامن وامان کی صورتحال کو مزید موثر اورمستحکم رکھنے کے لیے ایوانِ اوقاف ،لاہور سے صوبہ بھرکے لیے تمام مسالک کے علماء اورمذہبی شخصیات پر مشتمل ’’امن وفد‘‘ آج روانہ ہورہے ہیں،جس میں مفتی محمدرمضان سیالوی کی سربراہی میں گوجرانولہ،راولپنڈی۔مولانا سیّد عبدالخبیر آزاد کی سرکردگی میں ساہیوال،ملتان ، بہاولپور اور ڈی جی خاں جبکہ مفتی محمداسحاق ساقی الازہری فیصل آباد اور سرگودھا کے وفود کی قیادت کریں گے۔ایک طرف انتظامی سطح پر پنجاب کے وزیرقانون راجہ بشارت کی سربراہی میں کیبنٹ کمیٹی لا اینڈ آرڈر سرگرمِ عمل ہے۔ دوسری طرف وزیر اوقاف سید سعید الحسن شاہ ،اتحاد بین المسلمین کمیٹی پنجاب کو متحرک کیے ہوئے ہیں۔صوبے کے صدر مقام سے ان وفود کی روانگی ہر اعتبار سے امن، محبت اور خیرکی امین اورپیغامبر ہے۔ان وفود کے دورہ جات کی تکمیل پر لاہور میں ایک مرکزی اجلاس متوقع ہے،جو صوبے کے تمام اضلاع کی نمائندگی سے آراستہ ہوگا، یوں یہ بابرکت سلسلہ خواہ وفود کی لاہور سے روانگی کا ہو یا دوسرے اضلاع سے لاہور رابطے کا ،موثر اورمثبت نتائج کی نوید لیے ہوئے ہو گا۔ہماری جدید ایڈمنسٹریشن اورنفسیاتی ماہرین ان رابطوں کی تائید اوراُسوۂ رسول ﷺ اور سیرتِ طیبہﷺ کے زریں اوراق ہمیں روشنی عطاکرتے ہیں۔ہجرت کے ساتویں سال محرم الحرام کے ایام ہی میں شاہانِ عالم کو گرامی نامے ارسال کرتے ہوئے ،ایسے صحابہؓ پر مشتمل وفود مدینہ منورہ سے روانہ ہوئے ،جو قیصرِ روم سے لے کر کِسریٰ ایران تک اُس ملک کے زبان وبیان کے ماہرتھے۔سیرتِ طیبہﷺ میںہجرت کے نویں سال کو’’عام الوفود‘‘ یعنی وفود کا سال کہاجاتا ہے۔فتح مکہ نے اسلام کو ایک ناقابلِ تسخیر قوت کے طورپر دنیا کے سامنے پیش کردیا،جو قبائل اسلام کی بقا اوراس کی کامیابی کے بارے میں متردّد تھے،اُس کا ازالہ ہوگیا،لوگ گروہ در گروہ اور قبائل جوق در جوق اسلام قبول کرنے لگے ۔اس سلسلے میں مدینہ المنورہ میں آنے والے وفود جن کی کم از کم تعداد 15اور زیادہ سے زیادہ 104تحریرہوئی ہے ،کی آمدورفت کے لیے خصوصی ’’پروٹوکول‘‘ کا اہتمام ہوا۔جب رسول اللہ ﷺ کو وفد کی آمد کی اطلاع ملتی توآپﷺ عمدہ لباس زیب تن فرماتے اورصحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین کو بھی اس کا حکم دیتے،بعض اوقات وفود کے استقبال کے لیے اپنے کاشانۂ اقدس سے باہر تشریف لاتے اورکبھی کبھی قبیلے کے سردار اور قائد کے لیے اپنی محبتوں اور رحمتوں کا سائبان تان دیتے اوراپنی ردائے مبارک بھی بچھا دیتے۔جیسے وائل بن حجر کی آمد پر ہوا، جو حضرِموت کا سردارتھا،حضورﷺ کی بعثت کا علم ہوا تووہ اپنا ملک اور اپنے شاندار محلات چھوڑ کر حضورﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا ۔ان وفود کی رہائش کا اہتمام ایک صحابیہ املہ بنت الحارثؓ کے گھر کیا جاتا،کبھی کبھار حضرت مغیرہ بن شعبہؓ اوربعض اوقات یہ اہتمام مسجد نبوی میں بھی ہوتا ۔حضرت بلالؓ اور حضرت خالد بن سعید بن العاصؓ اس حوالے سے ’’افسر مہمانداری‘‘ جبکہ بعض اوقات ان وفود کی خاطر مدارت کے لیے آپ ﷺاپنا سایۂ کرم بھی وَا فرمادیتے، وفد کے ہر ممبر کو پوری عزت وتکریم کا احساس دلواتے اور ان کے لیے ایسی رواداری کا مظاہرہ ہوتا کہ بعض اوقات اُن کی ناقابلِ برداشت حرکتوں کو بھی صبروتحمل سے برداشت کیاجاتا۔آپﷺ آنے والے قبیلے سے ان کا نام پوچھتے، بعض اوقات اُن کے سربراہ اور بعض اوقات دیگر ممبران کے نام لے کر ان کو مخاطب فرماتے ،بعض اوقات شریعت کے مزاج کے منافی نام پر اسے تبدیل فرما کر عمدہ نام تجویزکر دیتے ،جس سے اپنائیت اورمحبت کے جذبے فراواں ہوتے،ان قبائل کو واپسی پر عمدہ تحائف اوربڑے اہتمام سے رخصت کیا جاتا ۔قبیلہ کے قائد اورسربراہ کو زیادہ اعزازات عطاہوتے،بلکہ نبی اکرم ﷺنے دنیا سے تشریف لے جاتے ہوئے جو آخری وصیت فرمائی ،ان میں ایک یہ بھی تھی ’’جس طرح میں وفود کو تحائف اور عطیات دیا کرتا ہوں،تم بھی اسی طرح دیا کرو۔‘‘ آنے والے وفود،مختلف قبائل اور خطوں سے تعلق کے سبب مختلف محاسن ومصائب کے حامل تھے۔بعض کی وجہ شہرت اُن کی بہادری تھی اور بعض سخاوت ومہمانداری میں معروف تھے،بعض اپنے دیگر اوصاف کے سبب نمایاں اوربعض ترش روئی اور مزاج کی سختی کے حوالے سے مشہور تھے۔رسول اللہﷺ ان کو دعوتِ دین دیتے ہوئے ان کی انفرادی اور اجتماعی خوبیوں کے ساتھ ،ان کی قبائلی اورعلاقائی نفسیات کا بھی لحاظ فرماتے۔بعض وفود جو محض علاقائی امن کے قیام کی خاطر حاضرہوتے تھے،آپ ﷺکے حُسنِ اخلاق،حُسنِ معاملہ اور دعوت وتبلیغ کے اُسلوب سے متاثر ہوکر مشرف بہ اسلام ہوجاتے۔وفد کی آمد کے فوراً بعد ،اُن پر دعوت پیش نہ کرتے،بلکہ اُس کے لیے ماحول پیدا فرماتے ،آپ ﷺسمجھتے تھے کہ محض دعوتِ دین اس وقت تک موثر نہیں ہوگی ،جب تک ان میں اس کو قبول کرنے کا داعیہ پیدا نہ ہو،آپﷺ اس سلسلے میں ذہن سازی ، مہمانداری اور تکریم وتحریم کے اہتمامات کو یقینی بناتے۔ قبیلہ اِزد کی وضع قطع اورحُسنِ کلام کو آپ ﷺنے بہت پسند فرمایا،آپ ﷺنے دعوت پیش کرنے سے پہلے اُن سے پوچھا کہ تم کون لوگ ہو؟انہوں نے عرض کیا ہم مومن ہیں،آپ مسکرائے ،آپ ﷺ نے فرمایا:ہربات کی ایک حقیقت ہوتی ہے،بتائو تمہارے قول اور ایمان کی کیا حقیقت ہے، انہوںنے کہا ہم میں پندرہ خصلتیں ہیں،ان میں پانچ تو ایسی ہیں ،جن کی آپؐ کے قاصد اورمبلغین نے ہمیں دعوت دی، جیسے اللہ تعالیٰ پر ،اس کے فرشتوں ،کتابوں ،رسولوں اورمرنے کے بعد دوبارہ جی اُٹھنے پر ایمان اور پانچ کے متعلق انہوں نے ہدایت کی یعنی اللہ کی وحدانیت ، نماز،روزہ ،زکوٰۃ اور استطاعت ہوتو اللہ کے گھر کا حج اورپانچ ایسی ہیں ،جن کے زمانہ جاہلیت سے ہم پابند ہیں اور اب تک ان پر قائم ہیں،آپ ؐ نے فرمایا:وہ پانچ کون سی باتیں ہیں؟ انہوں نے عرض کیا:(i)خوشحالی کے وقت شکرکرنا(ii)مصیبت پر صبر کرنا (iii)اللہ کے ہر فیصلے پر راضی رہنا(iv)دشمن سے مقابلے پر ثابت قدم رہنا(v)اوردشمنوںکی مصیبت پر ان کے استہزاء اور مذاق سے پرہیز ۔حضور ﷺ نے ان کی ،اس حکمت ودانائی پر تعریف فرماتے ہوئے کہاـ:’’حُکَمَائُ عُلَمَائ‘‘یعنی آپ توبڑے دانشور عالم ہو۔آپ ﷺ نے فرمایا،میں ان میں پانچ کا مزید اضافہ کرتاہوں،تاکہ ان خصائل کی تعداد بیس ہوجائے۔ i۔ان اشیاء خوردونوش کے ڈھیر نہ لگائو،جنہیں تم کھانہ سکو۔ ii۔ایسے مکانات نہ بنائو،جن کی تمہیں ضرورت نہ ہو، اور تم سکونت اختیار نہ کرسکو۔ iii۔ایسی چیز کے حصول کی تمنا نہ کرو،جس سے کل کو دستبردار ہونا پڑے۔ iv۔اس اللہ سے ڈرو ،جس کی طرف بالآخر لوٹنا اوراس کے حضور جوابدہ ہونا ہے۔ v۔ان چیزوں کی طرف رغبت رکھو ، جوآخرت میں تمہارے لیے توشہ اور زادِ راہ بنیں،جہاں تمہیں ہمیشہ رہنا ہے۔ اہل وفدنے رسول اللہ ﷺ کے ان ارشادات کوقبول کیا،اورہمیشہ ان اُصولوں پر کاربندرہے۔دعوت وتبلیغ کے منطقی اور تدریجی اُسلوب اختیار کرتے ہوئے ،پہلے آپﷺ نے ان کے افکار وخیالات کو جانا،ان کی عمدہ باتوں کی تعریف اورتوثیق فرمائی اور اس تسلسل کو برقرار رکھتے ہوئے پانچ مزید خصائل کے اضافے کی تلقین فرمائی۔ اسی طرح قبیلہ بنی حارث بن کعب،جو کہ سارے عرب میں شجاعت وبہادری کے حوالے سے مشہور تھا، دس ہجری میں اُس کا وفد نبی پاک ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا، آپ ﷺ نے ان سے پوچھا :’’ زمانہ جاہلیت میں جوبھی تم سے لڑا،وہ ہمیشہ مغلوب رہا ،اس کا کیا سبب ہے۔؟‘‘ انہوں نے عرض کی یارسول اللہﷺ اس کی تین وجوہات ہیں:(i)ہم اپنی طرف سے کسی پر ظلم یا زیادتی نہیں کرتے(ii)ہم لڑائی میں پہل نہیں کرتے نہ کسی پر چڑھائی کرتے ہیں (iii)جب ہم پر لڑائی مسلط کردی جائے تومیدانِ جنگ میں سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن جاتے ہیں اور منتشر نہیں ہوتے۔رسول اللہﷺ نے فرمایا:تم نے سچ کہا، جو فوج یا جماعت ان اُصولوں پر کاربند رہے گی ہمیشہ سرخرو ہوگی۔ انسانی نفسیات ہے کہ جب آپ کسی گروہ کی ایسی خوبی اوروصف جس میں وہ ملکیتِ تام رکھتا ہو، کا ذکر کریں، تو یہ بات اس کو دنیا و مافیہا سے بہتر محسوس ہوتی ہے۔نبی اکرم ﷺنے ان کی اس خوبی کا تذکرہ کرکے، انہیں اپنائیت اور عزت کے احساس سے بہرہ مند فرمایا۔