اسلام آباد(نامہ نگار،مانیٹرنگ ڈیسک)انسداد دہشتگردی عدالت نے وزیر اعظم عمران خان کو پارلیمنٹ حملہ کیس میں6 سال بعد بری کردیا جبکہ کیس کے دیگر ملزمان پر 12 نومبر کو فرد جرم عائد کی جائے گی۔عدالتی فیصلے کے مطابق صدر مملکت عارف علوی کو صدارتی استثنیٰ کے باعث ان کی حد تک کیس داخل دفتر رہے گا۔ عدالت نے وفاقی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی، وزیر دفاع پرویز خٹک، شفقت محمود اور اسد عمر،صوبائی وزیر علیم خان، شوکت یوسفزئی، جہانگیر خان ترین اور پی ٹی آئی کے 55 کارکنوں کو فرد جرم عائد کرنے کیلئے 12نومبر کو آئندہ سماعت پر طلب کر لیا۔عدالت نے پاکستان عوامی تحریک کے رکن مبشر علی کو بھی مقدمہ سے بری کر دیاجبکہ طاہر القادری کو بدستور اشتہاری قرار دیا گیا ہے ۔ کیس میں ڈاکٹر عارف علوی کو صدارتی استثنیٰ حاصل ہے ، ایک شریک ملزم ڈاکٹر محمد یعقوب وفات پاچکے ہیں اور عدالتی طلبی کے باوجود مسلسل غیر حاضری پر محمد عمر ریاض عباسی، محمد فاروق بٹ، محمد طالب اورفرخ واجد کو اشتہاری قرار دیا جا چکا ہے اور ان کے دائمی وارنٹ گرفتاری جاری کئے جاچکے ہیں ان چاروں کی گرفتاری کے بعد ان کیخلاف الگ سے کیس چلایاجا ئیگا۔ اسدعمر، شاہ محمود قریشی، راجہ خرم نواز سمیت7 افراد نے اپنی بریت کی درخواستیں واپس لے لی تھیں۔وزیراعظم عمران خان کے وکیل نے بریت کی درخواست پر تحریری دلائل جمع کراتے ہوئے موقف اختیار کیا تھا کہ وزیر اعظم کو جھوٹے اور بے بنیاد مقدمے میں پھنسایا گیا اور ان کے خلاف کوئی ثبوت ہیں نہ ہی کسی گواہ نے ان کے خلاف بیان دیا۔انہوں نے کہا کہ یہ سیاسی مقدمہ ہے جس میں سزا کا کوئی امکان نہیں، اس لیے وزیر اعظم کو بری کیا جائے ۔پراسیکیوٹر نے عمران خان کے وزیراعظم بننے سے قبل درخواست کی مخالفت کی تھی جبکہ وزیراعظم بننے کے بعد حمایت کر دی اور کہا کہ اگر عمران خان کو بری کر دیا جائے تو انہیں کوئی اعتراض نہیں کیونکہ یہ سیاسی طور پر بنایا گیا مقدمہ ہے جس سے کچھ نہیں نکلنا اور صرف عدالت کا وقت ضائع ہو گا۔دوسری جانب 2014ء دھرنے میں کارکنان کی ہلاکت پر شاہ محمود قریشی کی مدعیت میں نواز شریف کیخلاف درج مقدمہ کے اخراج کی درخواست کی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے مخالفت کر دی تاہم عدالت نے فیصلہ محفوظ کر لیا۔عدالت نے شاہ محمود قریشی کو مخاطب کرتے ہوئے ریمارکس د یئے کہ جوڈیشل نہیں ایڈمنسٹریٹو آرڈر ہے اور آپ کو سن لیا ہے آئندہ ہفتے فیصلہ کر دینگے ۔وزیر خارجہ نے کہا کہ پولیس نے اخراج رپورٹ بناتے وقت قانونی تقاضے پورے نہیں کیے ۔