تن کی آنکھیں رکھنے ولے حیران تھے کہ من کی آنکھیں اتنی اجلی‘ اتنی شفاف اور اتنے حوصلوں کی مالک بھی ہو سکتی ہیں؟ ہم نے تو نابینا افراد کو بس‘ ٹرین ‘ گلی کی نکڑ پر یا بازار میں ایک دوسرے کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر بھیک مانگتے ہی دیکھا تھا۔ چند سکے ان کی جھولی میں ڈال کر اپنے انسان ہونے کا سرٹیفکیٹ لیتے رہے۔ ہمیں حضرت عبداللہ بن مختومؓ جیسے نابینا مگر صاحب علم صحابی رسولؐ کا حال معلوم ہے۔ ہم نصابی سطح پر ہیلن کیلر جیسی ادیبہ سے بھی واقف ہیں‘ ہم ہومر جیسے باکمال شاعر سے آگاہ ہیں لیکن ہم ملکی آبادی کے دو فیصد‘ اپنے اردگرد رہنے والے نابینا افراد کی مشکلات کی تو کیا خبر رکھتے‘ ہمیں تو ان کی صلاحیتوں کا بھی اندازہ نہیں۔ یہ کوتاہی اور غفلت مجھ سے ہی نہیں ہو رہی‘ ہر پاکستانی لگ بھگ ایک ہی لاپروائی میں گرفتار ہے۔ بہرحال بات ہو رہی تھی من کی آنکھوں والوں کی۔ چند سال قبل میں اور مرحوم اطہر ندیم صاحب بصارت سے محروم طلباء کے مہمان تھے۔ ’’سفید چھڑی مرکز‘‘ میں نابینا طلباء کے ہوسٹل‘ کمپیوٹر سنٹر اور فن و ہنر کے شعبے کام کر رہے ہیں۔ اس سارے منصوبے کے خالق بہت پڑھے لکھے اور روشن ‘ دماغ ڈاکٹر محمد اقبال ہیں جو نابینا ہونے کے باوجود پی ایچ ڈی کئے ہوئے ہیں۔ ڈاکٹر اقبال سے مل کر ہم جیسے لوگ حوصلہ پاتے ہیں‘ زندگی سے لڑنے اور پھر فتح پانے کے گر سیکھتے ہیں۔ ڈاکٹر اقبال کی زندہ دلی اور علمیت نے ہمیں بے انتہا متاثر کیا‘ ہم مشکور ہیں جناب روحی کنجاہی کے کہ ان کے توسط سے ایسی نفیس شخصیت سے ملاقات ممکن ہوئی۔ استاد مکرم اطہر ندیم صاحب اتوار کے روز گھر سے باہر نہیں نکلتے تھے۔ اس روز دیر سے ناشتہ کرنا اور شیونہ بنانا وہ چھٹی کا اصل لطف بتاتے لیکن سفید چھڑی مرکز کی طرف سے دعوت پر انہوں نے اپنے برسوں کے اس معمول کو ترک کر دیا۔ ہم نرسری سٹاپ کے قریب سے چند گلیوں سے ہوتے ہوئے مرکز جا پہنچے۔ ہمیں ایک کشادہ کمرے میں لے جایا گیا جہاں بیس کے لگ بھگ نابینا طلبائ‘ ان کے اساتذہ چند سماجی کارکن‘ این جی اوز کے نمائندے اور ڈاکٹر اقبال تشریف فرما تھے۔ ڈاکٹر اقبال نے اپنی گفتگو روک کر ہمیں خوش آمدید کہا اور گفتگو کا سلسلہ پھر سے ان الفاظ کے ساتھ جوڑ دیا کہ ’’بصارت سے محروم افراد کو چند سکوں کی بھیک یا امداد دے کر آپ یہ نہ سمجھیں کہ آپ نے اپنا انسانی حق ادا کر دیا ہے ان لوگوں کو بھکاری نہ بنائیں‘ انہیں اپنے پائوں پرکھڑا ہونے میں مدد دیں۔‘‘ ڈاکٹر صاحب کی گفتگو کے بعد موسیقی کا دور چلا‘ ایک نابینا طالب علم اور استاد نے بانسری پر کچھ نغموں کی دھنیں سنائیں۔ ایک طالب علم نے ہارمونیم کے ساتھ گائیکی کا مظاہرہ کیا۔ اس کے بعد مشاعرہ شروع ہوا سب سے پہلے ادارے کے مہتمم ڈاکٹر اقبال نے اپنی دو غزلیں مرحمت فرمائیں‘ بڑے عرصہ بعد غزل اپنی معنویت اور رچائو کے اعلیٰ معیار کے ساتھ سننے کو ملی۔ پھر کچھ طلباء نے اپنا کلام پیش کیا۔ احسان ساحر کے بعد میں نے نظم پیش کی اور اختتامی کلام جناب روحی کنجاہی اور اطہر ندیم صاحب کی طرف سے پیش کیا گیا۔ مجھے اور اطہر ندیم صاحب کو خیالات کے اظہار کا موقع بھی دیا گیا۔ پروگرام کے اس مرحلہ کے اختتام کے بعد ہمیں ایک دوسرے مکان میں لے جایا گیا جہاں دو چیزوں نے ہمیں خاصا حیران کیا‘ ایک تو یہ کہ نابینا طلبا کمپیوٹر پر انگریزی اور اردو کمپوزنگ بڑی سہولت سے کر رہے تھے اور دوسرا یہ کہ وہ سفید اوراق جو ہمیں تو کورے دکھائی دیتے تھے لیکن یہ نابینا اپنی انگلیوں کی پوروں سے ان پر ابھرے کچھ ڈاٹس کو چھو کر عبارت پڑھ رہے تھے۔ یہاں ڈاکٹر اقبال کی چند کتب موجود تھیں مزید یہ کہ قرآن پاک کا ایسا نسخہ بھی موجود تھا جو بریل یعنی ڈاٹس کی صورت میں تحریر کیا گیا تھا۔ یہاں پر ہم نے پہلی بار بریل مشین بھی دیکھی اور نابینا افراد کو چمڑہ سلائی کرنے والی آر کی شکل کی پنسلوں سے لکھتے بھی دیکھا۔ ہم نے ایک استاد سے پوچھا کہ کیا آپ بھی غلطی کرنے پر اپنے شاگردوں کو مارتے ہیں تو وہ ہنس کر بولے عموماً ہمارے ہاں جسمانی سزا نہیں دی جاتی لیکن بعض اوقات بچے کی اصلاح کی خاطر معولی جسمانی سزا بھی دی جاتی ہے۔ ایک طالب نے مجھ سے کہا کہ آپ میری طرف سے اخبارات کے مالکان اور پبلشر حضرات سے اپیل کریں کہ وہ کوئی ایسا اخبار بھی نکالیں جو بریل پر ہو یعنی نابینا پڑھ سکیں۔ یہیں ایک ایسے طالب علم سے بھی ملاقات ہوئی جو بلائنڈ ورلڈ کپ جیتنے والی پاکستانی کرکٹ ٹیم کے رکن تھے اور بیسٹ فیلڈر کا اعزاز حاصل کر چکے ہیں۔ میں نے کمپیوٹر پر کام کرتے ایک نوجوان سے دریافت کیا کہ آپ کو کس چیز کی سب سے زیادہ ضرورت محسوس ہو رہی ہے اس نے کہا کہ ہمیں بریل پرنٹر کی شدید ضرورت ہے۔ بریل کمپوٹر پرنٹر کی قیمت انہوں نے ایک لاکھ روپے کے لگ بھگ بتائی تھی اور کہا کہ اس کی وجہ سے ہم نہ صرف کمپیوٹر پر کئے گئے کام کا پرنٹ حاصل کر سکیں گے بلکہ نابینا افراد کے لئے کتب و رسائل کی اشاعت کا کام بھی آسان ہو سکتا ہے۔ برآمدے میں چند نابینا نوجوان کر سیاں بننے میں مصروف تھے اور ان کے استاد وقفہ وقفہ سے ان کے کام کی نگرانی کر رہے تھے۔ مجھے یہاں آ کر ایسے لگا کہ ہم معاشرے کے ایک بڑے حصے کو اپنی ’’سخاوت ‘‘ اور ’’مذہبی فریضے‘‘ کی نذر کر کے انہیں ناکارہ بنا رہے ہیں‘ ہماری نیت اچھی ہے لیکن اس کی سمت درست نہیں۔ سفید چھڑی مرکز سے واپس آتے ہی میں نے ڈاکٹر محمد اقبال کی کتاب’’دیدہ دل‘‘ کھولی ایک صفحہ پر وہ لکھتے ہیں ’’ہم عوام الناس سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ آئیں اور ہمارے حسابات ملاحظہ کریں‘ ہماری کارکردگی دیکھیں لیکن کوئی صاحب دل اس پر کان نہیں دھرتا۔ ایسے میں مجھے یہ لگتا ہے کہ ہمارے نابینا ساتھیوں کی یہ دعا کہ ’’یااللہ ایک عمران خان کا سوال ہے‘‘ کچھ اتنی غلط بھی نہیں تھی۔ اب عمران خان یہ حکومت بنا چکے ہیں۔ اللہ تعالیٰ عمران خان کو اپنے مشن میں کامیاب کرے لیکن وہ لوگ جو عمران خان نہیں‘ ان کی طرف توجہ دینا ان کا بھی مذہبی اور اخلاقی فرض ہے اور اتنا وقت نکالنا ان کے لئے انتہائی ضروری ہے کہ کم از کم وہ یہ تو دیکھ لیں کہ ہماری راہیں درست ہیں یا غلط‘ کیونکہ ہم عمران خان نہیں کہ یہ سب کچھ جانے بغیر عوام کی رگ سخاوت پھڑک اٹھے گی لیکن ہمیں ایک اطمینان ضرور ہے کہ ہم بہرحال ابھی ہمت نہیں ہارے۔ ابھی ہمارے حوصلہ بلند ہیں۔‘‘ ڈاکٹر اقبال اب سرگودھا میں ہیں جہاں نابینا طالبات کی تعلیم اور تربیت کے لئے کچھ منصوبے شروع کرنے کے خواہاں ہیں۔ انہیں ہم سب کے تعاون کی ضرورت اور ہمیں یہ سوچنا ہے کہ ہم این جی اوز ٹائپ تنظیموں میں ہی کیوں الجھ کر رہ گئے ہیں۔ کیا انسانی خدمت کا اس سے بڑا کام ہے کہ آپ کسی ٹھکرائے ہوئے اور بے کس نابینا کو تعلیم اور ہنر جیسے لافانی تحفے فراہم کر دیں؟