مورخہ 21ستمبر کو بین الاقوامی طور پر ’’امن کا دن ‘‘ منایا گیا۔ اس سلسلے میں اسلام آباد کی ایک نجی تنظیم نے سبطین رضا لودھی کی قیادت میںپنجاب آرٹس کونسل راولپنڈی میں امن کے موضوع پر بچو ںکی بنائی گئی پینٹنگز کی نمائش ، واک اور ایک امن کانفرس منعقد کی جس میںخاصی تعداد میں مختلف مذہبی و روحانی،سیاسی وسماجی اور پیشہ وارانہ مہارت رکھنے والے خواتین و حضرات نے شرکت کی۔ کانفرنس نے ملک کو لاحق فرقہ واریت کے خطرات کے پیش نظر اپنے خیالات کا اظہار کیا اور اس سلسلے میں لوگوں کی بروقت آگاہی کے لئے حکومتی اداروں کے ساتھ ساتھ تمام سیاسی مذہبی روحانی اور معاشرتی تنظیموں کو اپنا کردار ادا کرنے کی اشد ضرورت پر زور دیا۔ راقم بھی اِس کانفرنس میں مدعوتھا۔ جس نے اپنے خیالات کا اظہار مندرجہ ذیل نقاط کو مدنظر رکھتے ہوئے کیا۔ پہلا نقطہ تویہ تھا کہ پاکستان دنیا کا وہ واحد ملک ہے جو کسی مسلح جدوجہد کے نتیجے میں نہیں بلکہ ایک پر امن سیاسی اور قانونی تحریک کے نتیجے کے طور پر وجود میں آیا ۔ اسی پر امن اور قانونی تحریک کے نتیجے میںغیر منقسم ہندوستان کی سامراجی حکومت مجبور ہوئی کہ مسلمانوں کو اپنے اکثریتی علاقوں میں بالغ رائے دہی کا حق دے تاکہ وہ برملا اظہار کرسکیں کہ انھوں نے پاکستان کے ساتھ رہنا ہے یا ہندوستان کے ساتھ۔ یہ تحریک اس حد تک قانونی تھی کی تحریک خلافت کے دوران جب گاندھی نے محمد علی جناح کو تحریک میں شامل ہونے کا مشورہ دیا تو انہوں نے اُسے یہ کہہ کر ٹھکرا دیا کہ میں اپنے لوگو ں کو قانون شکنی پر نہیں اُکسائوںگا۔ دنیا میں دوہی ملک مذہب کے نام پر بنے ہیں ایک پاکستان اور دوسرا اسرائیل ۔ پاکستان ہندوستان کے مسلمانوں کی مرضی سے اور اسرائیل سامراجی طاقتوں کے زور و جبر سے فلسطین کی زمین پر تھونپا گیا۔ اسرائیل گذشتہ ستر سالوں سے دنیا بھر کے مسلمانوں کو کھٹکتارہا جبکہ پاکستان دنیا بھر کے غیر مسلموں کو آج تک کھٹک رہاہے، بڑی طاقتوں کے اِسی جبر کانتیجہ ہے کہ اب عربوں کے اندر اسرائیل کے لئے ایک ایسا نرم گوشہ پیدا ہوگیا ہے جس نے اسرائیل کو ایک ایک کرکے تسلیم کرنا شروع کردیاہے ۔عالمی امن کے استحکام کیلئے پاکستان کی تسلیم شدہ کوششوں کے باوجود مغرب کی بڑی طاقتوں میں پاکستان کیلئے کسی بھی قسم کا نرم گوشہ آج تک پیدا نہیں ہوا۔ دوسری بات یہ ہے کہ پاکستان دنیا کا وہ واحد ملک ہے جس کی تحریک نے ایک ایسی درس گاہ سے جنم لیا ہے جس کا پہلا درس ہی’’ اقرا ‘‘ ہے یعنی پاکستان کی آبیاری علم کی گھٹی سے ہوئی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان کے نوے فیصد سے زائد لوگ جس ک نبیﷺ کے نام پر جان نچھاور کرنے کے لئے تیار رہتے ہیں وہ سارے عالمین کے لئے ’’رحمت ‘‘ ہے ۔ رحمت امن میں ہوتی ہے ۔ فساد میںنہیں۔ حسن اخلاق میںہوتی ہے گالم گلوچ میں نہیں بھائی چارے اور یگانگت میںہوتی ہے لڑائی جھگڑوں میںنہیں۔ صح رحمی میںہوتی ہے قطع رحمی میںنہیں ۔ قربان ہونے میں ہوتی ہے ۔کسی کو بھینٹ چڑھانے میں نہیں ۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ رحمت کا تعلق علم سے ہے جہالت سے نہیں۔ پاکستان کو جوڑے رکھنے کی سب سے بڑی طاقت یہی محبت رسولؐ ہے۔ پاکستان کی مسجدیں، امام بارگاہیں ،گرجا گھر اور اب گوردوارے بھی پاکستان کو جوڑنے کے مقامات ہیں ۔ ہمارا دشمن ہمارے ان جوڑنے والے مقامات کو ہمیں توڑنے والے مقامات میں تبدیل کرنا چاہتاہے۔ پاکستان میں لوگوں کے درمیان پرامن بقائے باہمی کے کئی مثبت اور ناقابل تردید پہلوہیں ۔ سب سے بڑی بات تو یہ ہے کہ پاکستان کے لوگ بنیادی طور پر محبت کرنے والے لوگ ہیں۔ لڑنے جھگڑنے والے نہیں۔ جن علاقائی ، مذہبی لسانی ، صوبائی اور طبقاتی بنیادوں پر دنیا بھر میں بدترین لڑائیاں ہوتی رہی ہیں اور آج بھی ہورہی ہیں ،پاکستان میں دشمنوں کی بھرپور کوششوں کے باوجود اِن اختلافات نے باقاعدہ جنگ وجدل اور کشت وخون کی صورت اختیار نہیں کی ۔ قوم کا اتحاد اور اتفاق کبھی پارہ پارہ نہیں ہوا ۔ کیوں؟ اِس لئے کہ ان اختلافات پر محبت رسولؐ حاوی ہے ۔ اس لازوال محبت نے سب کو ایک لڑی میں پرویا ہواہے۔یہ چاہیں بھی تو ایک دوسرے سے جدا نہیں ہوسکتے ۔ اپنی تمام تر بداعمالیوں اور گناہوںکے باوجود پاکستان کے لوگوں نے اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھاما ہوا ہے۔ پاکستان کراچی سے لنڈی کوتل تک صبح اذان کی آواز سے بیدار ہوتاہے ۔ پاکستان کی مائیں آج بھی اپنی اکلوتی اولاد تک کو وطن پر نچھاور کرکے شکرانے کے نفل ادا کرتی ہیں۔ اپنے بیٹوں کی پرچم میں لپٹی ہوئی میتوں کو فخر سے سلامی دیتے ہیں ۔ دنیا کے کسی اور ملک میںایسے مناظر دیکھنے کو نہیںملتے ۔ ملک اور قوم کی سالمیت پر قربان ہونے والے بیٹے اور بیٹیوں کے تابوتوں پر شیعہ یا سنی کا بینر نہیں پاکستان کا جھنڈا لپیٹا جاتاہے۔ پاکستان کے پنجابی پٹھان سندھی بلوچی کشمیری اور اردو بولنے والے سارے رشتوں ناطوں کے مضبوط حصار میںرہ رہے ہیں ۔اب تو پاکستان کے قبائل بھی قومی دھارے میں آگئے ہیں۔ اسلام آبا د میں ہر تیسرا ا ٓدمی پشتوبولتاہے کراچی میں پشاور سے زیادہ پٹھان بستے ہیں ۔ سارا پاکستان شاپنگ کے لئے باڑہ جاتاہے ۔ بریانی ،پلائو ، دال چاول ،نان کباب اور آلو گوشت کے ساتھ ساتھ بنیادی طور پر لنڈی کوتل کا کڑاہی گوشت اور نمک منڈی کے تکے پاکستان بھر کے ہردلعزیز پکوان بن چکے ہیں۔ پھر ہم کون سے اختلافات کی بات کرتے ہیں ؟ وہ اختلافات جو ہمارا دشمن ہمارے اندر دن رات پیدا کرنے اور پروان چڑھانے کی کوشش کررہاہے۔ ہر زبان کی تشریفات ہوتی ہیں جو مصافحہ کرتے وقت ایک دوسرے کیلئے استعمال ہوتی ہیں جیسے فارسی میں خوش آمدید، پشتو میں پخیر راغلے اور پنجابی میں جی آیاں نوں ،کے جملے مصا فحے کے وقت ادا کئے جاتے ہیں مسلمان وہ واحد امت ہے جو مصافحے کے لئے تم پر سلامتی ہو ادا کرتے ہیں۔ پاکستان میںچونکہ سب مسلمان ہیں اِس لئے پنجابی ، سندھی ،بلوچی پٹھان اور دیگر سبھی لوگ السلام علیکم کہہ کر مصافحہ کرتے ہیں ۔ پھر خطرہ کس بات کا ہے ؟ خطرہ صر ف گمراہ ہونے کا ہے۔ خطرہ اندرونی اور بیرونی دونوں طرح کے دشمنوں کی چالوں کا ہے خطرہ مرغوں کو پال پوس کر لڑانے والوں سے ہے۔ مرغوں کی لڑائی مرغوں کے لئے تباہی اور لڑانے والوں کے لئے تفریح یا کاروبار ہوتاہے۔ پاکستان کو تباہی اورنااتفاقیوں سے بچانے والا اللہ ہے اِسی لئے ہم اسلام دشمن طاقتوں کو کھٹکتے ہیں۔ ہمارا اتفاق کھٹکتا ہے ہماری فوج کھٹکتی ہے ، ہمارا اٹیم بم کھٹکتاہے، ،دشمن نا پہلے کامیاب ہوا ہے اور ناہی آئندہ کامیاب ہوگا۔ کیوں؟ اِس لئے کہ 27رمضان المبارک کووجود میںآنے والے پاکستان کے بانیوں میںوہ تین نام محمد علی اور فاطمہ شامل ہیںجن پر ہر مسلمان دن میںپانچ مرتبہ اپنی نماز میں درود بھیجتا ہے چاہے وہ کسی بھی فرقے یا مسلک سے ہو ۔ یہی درود پاکستان کا نگہبان ہے اور انشاء اللہ یہی امن کے معجزات ہونگے۔