لاہور اور اسلام آباد ہائی کورٹ سے ملنے والے ریلیف سے شریف خاندان اور مسلم لیگ(ن) کے حوصلے بلند ہوئے ‘مولانا فضل الرحمن کے آزادی مارچ سے وابستہ اُمیدیں دم توڑ رہی ہیں۔ توقعات یہ وابستہ کی گئی تھیں کہ مولانا ‘سندھ اور بلوچستان سے کم از کم ڈیڑھ دو لاکھ جانثار کارکنوں کے ساتھ جب فاتحانہ پنجاب میں داخل ہوں گے تو بزدار حکومت پر کپکپی طاری ہو جائے گی‘ وہ کوٹ سبزل کے مقام پر کنٹینر لگا کر پرجوش مذہبی کارکنوں کو روکنے کی کوشش کرے گی‘ تصادم ہو گا اور مشتعل کارکن کشتوں کے پشتے لگا دیں گے۔‘آزادی مارچ سے لاتعلق کارکنوں کی غیرت جوش مارے گی اور وہ بھی جوق در جوق سر پر کفن باندھ کر گھروں سے نکل کھڑے ہوں گے‘ ان مذہبی کارکنوں کی دیکھا دیکھی مسلم لیگی متوالے بھی لانگ مارچ کا حصہ بن جائیں گے مگر ع اے بسا آرزو کہ خاک شدہ ملتان اور لاہور میں شرکاء کی تعداد کم و بیش وہی رہی جو پنجاب میں داخل ہونے سے قبل تھی‘ پندرہ سے بیس ہزار۔2013ء اور 2014ء میں اکیلے ڈاکٹر طاہر القادری اتنے لوگ لاہور سے لے کر نکلے تھے۔ مولانا کے مقابلے میں ڈاکٹر طاہر القادری کا حلقہ اثر محدود ہے اور وسائل قلیل۔ پنجاب حکومت نے دونوں بار ڈاکٹر صاحب کے راستے میںرکاوٹیں کھڑیں کیں‘ بسوں اور ویگنوں کے مالکان کو روکا اور ہر ضلع میں گرفتاریاںہوئیں۔ بدھ شام تک وفاقی اور صوبائی حکومت کی طرف سے آزادی مارچ کے راستے میں کوئی رکاوٹ ڈالی گئی‘ بسیں اور ویگنیں پکڑی گئیں نہ کارکن گرفتار ہوئے اور نہ راستے بند کئے گئے ۔لاہور شہر میں پچیس تیس ہزار لوگ داخل ہوں تو شاہدرہ سے ٹھوکر نیاز بیگ تک ہر ایک کو لگ پتہ جاتا ہے ۔ہر سڑک اور چوک متاثر ہوتا ہے مگر آج کسی سڑک پر ٹریفک جام ہوئی نہ مقامی باشندوں کو پتہ چلا کہ مولانا کا قافلہ سخت جاںشہر میں فروکش ہے۔ دفتروں میں حاضری معمول کے مطابق رہی اور آزادی چوک‘ راوی روڈ کے باسی بھی کسی دشواری کے بغیر اپنی منزل مقصود تک پہنچے۔ مسلم لیگ ن میاں صاحب کی عیادت میں مصروف ہے اور پیپلز پارٹی کا وجود لاہور میں ع ہر چند کہیں کہ ہے‘نہیں ہے کوئی بڑا مسلم لیگی لیڈر ٹھوکر نیاز بیگ یا آزادی چوک پر مولانا اور آزادی مارچ کے استقبال کی زحمت کرتا تو شائد ہزار پندرہ سو کارکن بھی نکل پڑتے مگر کسی کو شائدخیال نہ آیا۔ یہ بے مروتی ہے ‘بے مائیگی یا طے شدہ پالیسی؟ ناقدین کا خیال ہے کہ اہل لاہور جولائی 2018ء میں میاں نواز شریف اور مریم نوازکے ایئر پورٹ پر استقبال کے لئے نہ آئے اب مولانا کے لئے کیوں نکلتے۔ کیپٹن صفدر کا البتہ دعویٰ ہے کہ مسلم لیگ کے ایک لاکھ کارکن اسلام آباد جا رہے ہیں جو کسی کو نظر اس لئے نہیں آئے کہ سلیمانی ٹوپی پہن رکھی ہے۔ مولانا اور جمعیت علماء اسلام کی اُمیدیں اب خیبر پختونخواہ سے وابستہ ہیں یا اسلام آبادمیں روپوش سرفروشوں سے جو بعض اطلاعات کے مطابق قیادت نے کمال دور اندیشی سے خفیہ طور پر دارالحکومت تک پہنچائے اور کسی کو کانوں کان خبر نہ ہونے دی۔1997ء میں عمران خان پہلا الیکشن لڑ رہے تھے تو تحریک انصاف کے کارکن ہی نہیں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کے لیڈر بھی ان کی کامیابی کے حوالے سے ٹیوے لگا رہے تھے خان صاحب نے لاہور‘ میانوالی سمیت 9حلقوں سے کاغذات جمع کرائے تھے۔ اس الیکشن میں میاں نواز شریف نے انہیں مسلم لیگ سے اتحاد کے عوض تین نشستوں کی پیشکش کی جو عمران خان نے ٹھکرا دی۔ لاہور میں عمران خان کے مدمقابل نیلام گھر فیم طارق عزیز تھے‘ جو مسلم لیگ ن میں شمولیت سے قبل تحریک انصاف کا ساتھ دینے کے لئے پرجوش تھے مگر خان صاحب نے لفٹ نہ کرائی اور وہ مسلم لیگ میں چلے گئے۔ میں عادت کے مطابق اپنے رپورٹروں ‘باخبرذرائع اور تحریک انصاف کے کارکنوں سے معلوم کرتا کہ لاہور میں خان صاحب کی پوزیشن کیا ہے ؟ جواب ملتا کہ لاہور میں تو خیر پوزیشن کمزور ہے مگر میانوالی کی نشست پکی ہے۔ ایک روز میانوالی سے میرے ایک کرم فرما تشریف لائے تو میں نے خان صاحب کی متوقع انتخابی کامیابی کے حوالے سوال کیا بولے‘ میانوالی میں تو خان صاحب کی پوزیشن کمزور ہے مگر لاہور میں کامیابی یقینی ہے۔ پولنگ ڈے سے دو تین روز قبل میں نے عمران خان کے ایک قریبی اور قابل اعتماد ساتھی کو بتایا کہ خان صاحب کی دونوں نشستوں سے کامیابی مشکوک ہے‘ وہ بولے کس طرح ؟میں نے بتایا کہ اگر میانوالی والوں کی امیدیں لاہور اور لاہوریوں کی امیدیں میانوالی سے وابستہ ہیں تو سمجھو دونوں جگہ سے ہار یقینی۔ اندیشہ یہ ہے کہ خیبر پختونخواہ میں جمعیت کے خیر خواہوں سے وابستہ اُمیدوں کا انجام بھی خدانخواستہ وہی نہ ہو جو اہل پنجاب‘ سندھ و بلوچستان سے غیر معمولی توقعات کا ہوا۔پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن سے گلہ عبث ہے آخر وہ اپنے کارکنوں کو ایک مذہبی رہنما اور تنظیم کے پس پردہ مقاصد اور مفادات کی تکمیل کے لئے وقف کیوں کریں؟2007ء میں صدارتی انتخاب کے موقع پر مولانا نے مسلم لیگ ن بلکہ اپوزیشن سے بے وفائی کی اور اب بھی یہ شکوک و شبہات پائے جاتے ہیں کہ کہیں مولانا قائد حزب اختلاف کے منصب پر ہاتھ صاف کرنے کے ایجنڈے پر تو نہیں۔2002ء ‘2008ء کے دوران وہ یہ کرشمہ دکھا چکے ہیں۔ ایک باخبر اور دانا دوست سے میں نے سوال کیا کہ مولانا کا دھرنا ’’قیدیوں ‘‘کی رہائی میں مددگار ثابت ہو سکتا ہے تو اس نے غالب کی روح سے معذرت کے ساتھ جواب دیا ؎ منحصر ’’دھرنے‘‘پہ ہو جس کی اُمید ناامیدی اس کی دیکھا چاہیے کہنا اس کا یہ تھا کہ دو دن کا دھرنا اگر مولانا کو فیس سیونگ فراہم کر سکے تو غنیمت جانیں۔ مولانا‘ شریف خاندان اور ان کے حامی میڈیا کے سارے اندازے غلط نکلے۔ سندھ سے چار لاکھ‘ بلوچستان سے ایک لاکھ اور پورے ملک سے پندرہ لاکھ افراد اسلام آبادمیں اکٹھا کرنے کی خوش فہمی میں مولانا اور ان کے ساتھیوں نے حکومت گرانے اور ’’سلیکٹرز‘‘ کی ناک رگڑوانے کی بڑہانکی ’’ملاقات‘‘ کو ریاست کی کمزوری ناکامی اور مجبوری گردان کر ’’نرخ بالا کن کہ ارزانی ہنوز‘‘ کا راگ الاپا‘ گوجر خان پہنچنے پر مولانا فیس سیونگ کے خواہاں ہوں گے مگر شائد اب افغان قالین فروش کے بجائے گاہک کی مرضی چلے۔عدالتوں سے قانونی ریلیف اور مولانا کے متوقع عظیم الشان لانگ مارچ‘ تاریخ ساز دھرنے کی کامیابی کے دعوئوں نے میاں صاحب اور ان سے زیادہ مریم نواز کو ایک بار پھر بے لچک انداز فکر اور غیر حقیقی خواہشات کی دلدل میں دھکیل دیا۔ مولانا اور میاں صاحب کے مابین ملاقات کی خواہش اس سوچ کا نتیجہ تھی مگر ’’ڈاکٹروں‘‘ نے خواہشات کا محل مسمار کر دیا‘ مفاہمت میں تاخیر کا فائدہ نہ بہ عجلت ضمانت سے کچھ حاصل۔ اسلام آبادمیں حکومت شائدخاطر سے یا لحاظ سے مولانا کی ایک آدھ فرمائش پوری کر کے لانگ مارچ اور دھرنے کو خوش اسلوبی سے رخصت کر دے اور مولانا بھی جان بچی سو لاکھوں پائے لوٹ کے بدھو گھر کو آئے گنگناتے عازم ڈیرہ اسماعیل خان ہو جائیں مگر اپوزیشن کے لئے بحیثیت مجموعی یہ سارا تام جھام خسارے کا سودا ہے۔ شریف خاندان اور زرداری خاندان کی سودے بازی پوزیشن کمزور تھی‘اب کمزور تر ہو گی اور صادق سنجرانی کے خلاف تحریک عدم اعتماد کی ناکامی سے بڑا جھٹکااسے سہنا پڑے گا۔ خدانخواستہ اگر حالات مولانا اور حکومت کے قابو میں نہ رہے تو بگاڑ کی یہ صورت موجودہ بُرے بھلے جمہوری نظام کی چولیں ہلا دے گی۔ پھر قبل از وقت الیکشن نہیں کچھ اور ہو گا۔ کہیں یہ سرکشوں کے سر کی پکی فصل کٹنے کا وقت تو نہیں؟