میرا اپنے قارئین کے ساتھ ایک خاموش معاہدہ ہے! معاہدہ یہ ہے کہ جب میری رسائی کسی دل کش اور فکر انگیز نئی کتاب تک ہو گی میں اسے اپنے قارئین کے ساتھ شئیر کروں گا۔ چند روز پہلے ڈاکٹر جاوید احمد نے بڑی محبت کے ساتھ مجھے جناب لالہ صحرائی کی نئی کتاب ’’منزل سے قریب‘‘ بھجوائی اس کتاب میں عالمی ادب کے معروف افسانوں اور سفرناموں کے تراجم پیش کئے گئے۔ ہر ادب پارے کا ترجمہ اپنی جگہ تخلیقی ادب کا خزینہ محسوس ہوتا ہے۔ جناب لالہ صحرائی کی نثر نگاری دراصل قلمی ساحری ہی ساحری ہے۔ ان کی نثر شستہ بھی ہے‘ شگفتہ بھی ہے اور پختہ بھی ہے۔ یہ نثر قاری کو اپنی گرفت میں لے لیتی اور پھر قاری دنیا و مافیہا سے لاتعلق ہو کر محو مطالعہ ہو جاتا ہے۔ آج کی جدید نسل جناب لالہ صحرائی کے نام اور کام سے کماحقہ آگاہ نہیں۔ لالہ صحرائی کا اصل نام محمد صادق تھا۔ وہ 14فروری 1920ء کو مہتہ ضلع امرتسر میں پیدا ہوئے اور 7جولائی 2000ء کو اس دار فانی سے کوچ کر گئے۔ قیام پاکستان سے قبل ہی ان کا خاندان ضلع ملتان کے معروف قصبے جہانیاں منتقل ہو چکا تھا۔ اوائل عمر سے ہی لالہ صحرائی کتب و رسائل کا مطالعہ بڑے ذوق و شوق سے کیا کرتے تھے۔ بالی عمریا میں ادبی لگائو اور علمی مضامین و مباحث کے مطالعے کا ذوق و شوق انہیں قدرت کی طرف سے عطا ہوا تھا۔ورنہ آٹھویں نویں جماعت میں کون سرسید احمد خان ‘ الطاف حسین حالی‘ علامہ شبلی‘ ابوالکلام آزاد اور سید ابوالاعلیٰ مودودی جیسے بلند پایہ مصنفین اور غالب و اقبال جیسے بلند مرتبہ شعرا کا مطالعہ کرتا ہے۔ جلد ہی آپ نے لکھنا شروع کر دیا۔ یہ ادب پارے علمی و ادبی رسالوںمیں شائع ہوتے رہے اور اہل نظر سے داد پاتے رہے۔ ان تحریروں میں ادبی و سیاسی مضامین ‘ افسانے ‘ ڈرامے ‘ تمثیلیں ‘ خاکے ‘ انشائیے ‘ سفر نامے اور تراجم شامل تھے۔ زیر نظر کتاب ’’منزل سے قریب‘‘ میں عالمی کلاسیکی ادب کے معروف افسانوں سفر ناموں اور فکر انگیز مضامین کے تراجم شامل ہیں۔ان بلند پایہ ادبی نگارشات کو تخلیقی شگفتگی کے ساتھ کمال ہی مہارت کے ساتھ اردو کے قالب میں ڈھالا گیا ہے کہ ترجمہ اپنے طور پر ایک تخلیقی فن پارہ محسوس ہوتا ہے۔ روس کا شہری لیو ٹالسٹائی عالمی شہرت یافتہ کلاسیکی رائٹر ہے وہ 28اگست 1828ء کو روس میں پیدا ہوا اور 20نومبر 1910ء کو فوت ہوا۔ ٹالسٹائی مصنف ‘ ناول نگار‘ افسانہ نگار اور ڈرامہ نویس تھا۔ وہ ایک فلسفی بھی تھا۔ فوج سے فراغت کے بعد ٹالسٹائی نے اپنا شہرہ آفاق ناول ’’وار اینڈ پیس‘‘ لکھا ’’جنگ اور امن‘‘ کے علاوہ ٹالسٹائی نے دل کو چھو لینے والے افسانے بھی لکھے ہیں۔ ان افسانوں کو پڑھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ اس کرہ ارض میں بسنے والے انسانوں کا چاہے دنیا کے کسی گوشے سے تعلق کیوں نہ ہو ان کی فطرت اور نفسیات عمومی طور پر ایک جیسی ہوتی ہے۔ لالہ صحرائی نے اسی کتاب میں ٹالسٹائی کے دو افسانوں ’’دوگز زمین‘‘ اور ’’قید حیات‘‘ کو شامل کیا ہے۔ دو گز زمین میں انسانی فطرت میں چھپا ہوا ’’ھل من مزید ھل من مزید‘‘ کی پیاس اجاگر کی گئی ہے۔ یہ ایک ایسی پیاس ہے جو کبھی بجھنے کا نام نہیں لیتی۔ اس کی سیرابی کا جتنا اہتمام کرو یہ اتنی ہی بڑھتی جاتی ہے اتنی ہی بھڑکتی جاتی ہے مگر مٹنے کا نام نہیں لیتی۔ ٹالسٹائی کا دوسرا افسانہ جس کا ترجمہ لالہ صحرائی کی کتاب میں موجود ہے اس کا عنوان ہے ’’قید حیات‘‘لالہ صحرائی کے ترجمے کی اثر انگیزی نے اس شاہکار افسانے کو دو آتشہ بنا دیا ہے۔ اس ترجمے کا مرکزی نکتہ یہ ہے کہ اس دنیا میں بعض اوقات انصاف کے نام پر ظلم ہوتا ہے۔ یہ بھی دیکھنے میں آتا ہے کہ ظالم بچ نکلتا ہے اور مظلوم کی داد رسی کے بجائے الٹا اسے سزا کا حقدار قرار دے دیا جاتا ہے اور اگر یہاں انصاف ہوتا بھی ہے تو ادھورا انصاف ہوتا ہے۔ اس کی مثال یوں سمجھئے کہ ایک شخص کے 20برس قید بامشقت بھگتنے کے بعد اگر اصل مجرم اقرار جرم کرے کہ قصور اس کا نہیں میرا تھا یا عدالت اس نتیجے پر پہنچے کہ اس شخص کو غلط سزا دی گئی تھی تو اس انصاف کا مظلوم شخص کو کیا فائدہ۔ اس دوران اس کی عزت اس کی شہرت اس کی دولت سب کچھ مٹ چکا ہوتا ہے۔ اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس دنیا کے علاوہ بھی کہیں اور ایسی عدالت انصاف ہونی چاہیے کہ جہاں ادھورا نہیں پورا انصاف ہوتا ہو۔ یہی ٹالسٹائی کے افسانے ’’قید حیات‘‘ کا تھیم ہے جو پڑھنے سے تعلق رکھتا ہے۔لالہ صحرائی کی اس کتاب میں فرانسیسی ادیب ۔ موسپاں کے دو شاہکار افسانے ’’بہن‘‘ اور ’’دو دوست‘‘ شامل ہیں۔ موسپاں شارٹ سٹوری کا ماسٹرمائنڈ کہلاتا ہے۔ لالہ صحرائی کی شخصیت میں علمیت ‘ ادبیت اور مقصدیت کا حسین سنجوگ دکھائی دیتا ہے۔ انہوں نے کلاسیکی ادب پاروں کے ساتھ ساتھ چار ایسی شخصیات کی تحریروں کو بھی شامل کیا ہے جنہوں نے اسلام قبول کرنے کی اپنی اپنی داستانوں کو نہایت دل آویز انداز میں بیان کیا ہے۔ ان شخصیات میں علامہ محمد اسد‘ مریم جمیلہ‘ عبدالکریم جرمانوس اور فاطمہ ہیرن شامل ہیں۔ علامہ محمد اسد 1900ء میں پیدا ہوئے اور انہوں نے 1992ء میں وفات پائی اسلام قبول کرنے کے بعد انہوں نے عرب دنیا کا سفر کیا۔ وہ پاکستان بھی آئے۔ اسلامی دنیا کے حکمرانوں کے ساتھ ان کے خصوصی مراسم تھے۔ جناب لالہ صحرائی نے ان کی معرکتہ الارا کتاب Road to Makkahکے چارابواب کا نہایت رواں دواں خوبصورت ترجمہ کیا ہے’’منزل سے قریب‘‘ ان چار ابواب میں سے ایک ہے۔ مغربی تہذیب کے بارے میں ایک نومسلم کے پرجوش مگر فکر انگیز خیالات کا دیکھیے لالہ صحرائی نے اپنے معجز بیاں قلم سے کیا اثر انگیز ترجمہ کیا ہے۔’’مغربی تہذیب کی نقالی اختیار کرنے والے مسلمان مرد اور عورتیں اپنے سماج کا ارتقاء روز بروز مسدود کرتے جا رہے ہیں اور نہیں جانتے کہ جو سماج آزادانہ خلاقی کی بجائے دوسروں کی نقالی اختیار کر لے‘ اس کی جوئے بار زندگی کا کم آب ہو جانا یقینی ہے۔بحری جہاز کے یورپ سے عرب دنیا کو لوٹتے ہوئے جب یہ معلوم ہوا کہ ان کا ہمسفر یورپی مسافر ایک نومسلم ہے تو ان کے اندر خوشی کی لہر دوڑ گئی۔ محمد اسد نے ایک جہاز پر تیز بخار کی شکار ایک یمنی مریض کوکونین کھانے کو دی۔ بحری جہاز کے عرب مسافروں نے اسلامی اخوت و مؤدت کا اظہارکرتے ہوئے علامہ اسد کو نقدی کی صورت میں ہدیہ پیش کیا جسے قبول کرنے سے محمد اسد نے معذرت کی اوریورپی آداب کے مطابق برابر تامل کرتا رہا۔ مگر جب طویل قامت عرب نے کہا کہ یہ کسی خدمت کا معاوضہ نہیں محض ہمارا اظہار محبت ہے۔ اس نے کہا آپ کو واسطہ ہے خدا کا آپ کو واسطہ ہے رسولؐ کا۔ عرب کی آواز بھرا گئی۔ اس اصرار کے سامنے علامہ اسد کے انکار نے ہتھیار ڈال دیے۔ آگے علامہ محمد اسد لکھتے ہیں ’’تب میری آنکھیں کھل گئیں اور میں نے دیکھا کہ جہاں سے میں آیا ہوں وہاں لوگوں نے من و تو کے درمیان عظیم دیواریں اٹھا رکھی ہیں لیکن جہاں اب ہوں وہاں چاروں طرف ایسی کوئی دیوار موجود نہیں۔ یہ سوچ کر میں نے اپنے بھائیوں کا ہدیہ دل قبول کر لیا‘نثری کتب کے علاوہ جناب لالہ صحرائی کے سعادت مند صاحبزادگان ڈاکٹر جاوید احمد اور ڈاکٹر نوید احمد نے ان کے دو درجن سے زائد نعت کے مجموعے بھی شائع کئے ہیں’’منزل سے قریب‘‘ دارالنوادر نے شائع کی ہے جو کتاب سرائے لاہور اور فضلی بک سپر مارکیٹ کراچی سے دستیاب ہے۔