سیاست کا مورخ اگر سندھ کے حوالے سے دو چار نام لکھے گا تو ان ناموں میں اس کا نام بھی شامل ہوگا۔ذوالفقار علی بھٹو کے بعد اگر سندھ کے سیاسی افق پر کسی کا نام آب و تاب سے چمکا تو وہ نام جی ایم سید کا ہی تھا۔ وہ جی ایم سید جس کی شناخت بعد میں پاکستان مخالف کی صورت میں ابھری، مگر وہ ہی تو شخص تھا جس نے تحریک پاکستان میں بھرپور حصہ لیا۔ جس وقت سندھ کے وڈیرے اپنی ذاتی عیاشیوں کی نیند میں ڈوبے ہوئے تھے اس وقت اس شخص نے سیاسی اور سماجی بیداری کے لیے جدوجہد کی۔ وہ شخص جو ذاتی طور پر بہت ساری زمینوں کا مالک تھا مگر اس نے کسانوں کی بھلائی اور بہتری کے لیے بھرپور کردار ادا کیا۔ وہ شخص جو سید تھا مگر اس نے تعویذ دھگاگے لکھنے کے بجائے سماجی جاگرتا کے لیے وہ کتابیں لکھیں جو اس کی زندگی میں بہت متنازعہ ہوئیں۔ وہ شخص جی ایم سید ہی تھا؛ جس کے بارے میں کہا جا سکتا ہے کہ وہ اگر پاکستان کا نہیں تو کم ازکم سندھ کا وہ انسان ضرور تھا ،جس کے بارے میں کہا جاسکتا ہے کہ ’’انہیں بہت کم پہچانا گیا‘‘ اس بات کا احساس خود جی ایم سید کو بھی تھا۔ کبھی کبھار تو وہ اس بات پر خود آبدیدہ ہو جایا کرتے تھے۔ وہ شخص کے بارے میں ایک ڈچ اسکاکر نے لکھا ہے کہ ’’وہ عالم اسلام تھا‘‘ وہ شخص جس نے پاکستان کو بنانے میں بنیادی کردار ادا کیا۔ اس شخص کو ملک دشمن قرار دیا گیا۔ یہ وہ شخص تھے جس نے خود اپنے بارے میں لکھا ہے انہوں نے بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح سے جذباتی حد تک محبت کی تھی۔ انہوں نے اپنی یاداشتوں میں لکھا ہے کہ ایک بار جب انہیں اطلاع ملی کہ قائد اعظم پر حملہ ہوا ہے اور اس حملے میں وہ شہید ہوگئے ہیں تو یہ بات سن کر وہ شدت غم سے بے ہوش ہوگئے تھے۔ سندھ میں اگر مسلم لیگ ایک معتبر اور طاقتور جماعت بن کر ابھری تھی تو اس میں جی ایم سید کے کردار کو کبھی فراموش نہیں کیا جا سکتا ہے۔ کیوں کہ انہوں نے اس دور میں سندھ کے کونے کونے میں جاکر قائد اعظم کا پیغام پھیلایا تھا۔ انہوں نے سندھ کے سادہ لوح عوام کو بتایا تھا کہ قائد اعظم ایک عظیم کام میں مصروف ہیں اور ہم سب کو ان کا ساتھ دینا چاہئیے۔ انسان کی فطرت میں یہ بات تلخ حقیقت کی طرح موجود ہے کہ وہ جس شدت سے محبت کرتا ہے اسی شدت سے نفرت بھی کر بیٹھتا ہے۔ جو شخص جتنی قربانیاں دیتا ہے وہ اس قدر ناراض بھی ہو جاتا ہے۔ محبت کرنا والا انسان ناراض ہونے کو اپنا حق سمجھتا ہے۔ اور انسان کیوں ناراض ہوتا ہے؟ وہ اس لیے ناراض ہوتا ہے کہ اسے منایا جائے۔ جی ایم سید ایک بہت سوچنے؛ سمجھنے اور علم والے دماغ کے مالک ہونے کے ساتھ ساتھ بہت جذباتی دل بھی رکھتے تھے۔ اس لیے جب قیام پاکستان سے ایک سال قبل ان کے مسلم لیگ سے اختلافات ہوئے تو ان کے دل میں یہی تمنا تھی کہ انہیں منایا جائے گا۔ یہ بات تاریخ میں لکھی ہوئی ہے کہ جی ایم سید کے مسلم لیگ سے اختلافات نظریاتی قسم کے نہیں تھے۔ ایسا نہیں تھا کہ وہ تقسیم ہند کے نظریے سے دستبردار ہوگئے تھے یا وہ قیام پاکستان کے مخالف بن گئے تھے۔ ان کے اختلافات شخصی اور جماعتی نوعیت کے تھے۔ وہ مسلم لیگ سندھ کے صدر تھے۔ ان کی مرضی تھی کہ پارٹی ٹکٹ ان کو ملنے چاہئیں جن کو وہ پارٹی کے لیے بہتر سمجھتے ہیں۔ جب ان کی بات نہیں مانی گئی تو انہوں نے مسلم لیگ سے استعفی دے دیا۔ مسلم لیگ سے استعفی دینے کے بعد انہوں نے کانگریس میں شمولیت نہیں کی۔ انہوں نے مسلم لیگ پروگریسو کے نام سے اپنی پارٹی بنائی۔ اس پارٹی کی طرف سے قیام پاکستان کی حق میں بھرپور تحریک چلی۔ جو لوگ جی ایم سید کو نفرت اور تعصب کی علامت سمجھتے ہیں ان کو یہ بھی نہیں معلوم کہ یہ جی ایم سید تھے جنہوں نے ہندوستان سے آنے والے مہاجرین کے لیے سندھ کے ایک ایک شہر میں استقبالی کیمپس لگوائے تھے اور ان کو سندھ میں آباد کرنے والی جدوجہد میں ان کا کردار صف اول میں تھا۔ انہیں اس بات کا یقین تھا کہ پاکستان کے بارے میں جو انہوں نے خواب دیکھے اور دکھائے تھے؛ وہ سب سچ ثابت ہونگے۔ قیام پاکستان کے بعد قائد اعظم کو قدرت نے اتنا وقت ہی نہیں دیا کہ وہ اس ملک کو انتظامی ڈگر پر چلائیں۔ قائد اعظم کے بعد اقتدار جن لوگوں کے ہاتھوں میں آیا ان لوگوں نے جی ایم سید جیسی شخصیات کو قومی دھارے میں لانے کے بجائے انہیں ملک سے دور رکھا۔ اس کا سبب یہ بھی تھا کہ انہیں اچھی طرح معلوم تھا کہ ایسے لوگ اصول پرست ہیں ۔ وہ لوگ لالچ سے بک نہیں سکتے۔ خوف ان لوگوں کو بھگا نہیں سکتا۔ ان لوگوں نے یہ ترکیب نکالی کہ جی ایم سید جیسے شاندار شخصیات کو منانے اور انہیں ملکی سیٹ اپ میں لانے کے بجائے ان پر طرح طرح کے الزامات عائد کیے گئے اور انہیں ملک دشمن قرار دیکر ان کی کردار کشی کی اور انہیں مزید ناراض کیا۔ یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ قیام پاکستان 25 برس بعد تک وہ انتظار کرتے رہے کہ ان کی بات سنی جائے گی مگر جب ان کی بات نہیں سنی گئی تب انہوں نے ’’جیئے سندھ تحریک‘‘ کا آغاز کیا۔یہ بھی حقیقت ہے کہ اس کے بعد بھی جی ایم سید سے کوئی بات نہیں کی گئی۔ جب اقتدار میں جنرل ضیاء الحق تھے تب انہوں نے جی ایم سیدسے ملنے کی خواہش ظاہر کی اور اس بات پر کسی کو حیرت نہیں ہوئی کہ جی ایم سید نے نہ صرف جنرل ضیاء سے ملاقات کی بلکہ بعد میں اخبار نویسوں سے بات کرتے ہوئے انہوں نے جنرل ضیاء الحق کے بارے میں یہ تک کہا کہ ’’وہ ایک شریف النفس انسان ہیں‘‘ تاریخ کسی چھاننی کی طرح ہوتی ہے۔ اس میں لوگ چھنتے رہتے ہیں۔ تاریخ سب کو چھان رہی ہے۔ اس وقت جی ایم سید کا امیج کسی اسلام مخالف اور پاکستان دشمن کا امیج نہیں ہے۔ اس وقت جی ایم سید کاامیج ایک ایسے انسان کا امیج نہیں ہے کہ جو کرپٹ ہو۔ اس وقت جی ایم سید کا امیج ایک ایسے سیاستدان کا نہیں جو اقتدار کا بھوکا ہو۔ آج جب ہم ملکی سیاست میں قحط الرجال کا شکار ہیں تو اس وقت ہمیںجی ایم سید جیسے رہنما بڑی شدت سے یاد آتے ہیں۔ وہ سیاستدان جنہوں نے 60 سے زائد کتابیں تحریر کی۔ وہ سیاستدان جنہوں نے ہمیشہ محبت کی بات کی۔ وہ سیاستدان جنہوں نے تاریخ بگاڑنے کے بجائے تاریخ بنانے کی بات کی۔ آج جی ایم سید کسی نفرت اور تعصب کا نام نہیں۔ آج وہ انسانیت اور محبت کے علمبردار سمجھے جاتے ہیں۔ ایک انگریز مفکر برٹرانڈ رسل نے کتنی قیمتی بات لکھی ہے کہ اگر تاریخ کو آزادی سے ارتقاء کرنے دیا جاتا تو آج دنیا بہت مختلف ہوتی۔ آج پاکستان بھی بہت مختلف ہوتا مگر افسوس کی بات یہ ہے کہ: ’’منزل انہیں ملی جو شریک سفر نہ تھے‘‘ مگر کیا اس ملک نے اپنی منزل حاصل کرلی ہے؟ ہمارا ملک تو اب تک مسافر ہے۔ ایک ایسے لالہ صحرائی جیسا مسافر؛ جس کے بارے میں علامہ اقبال نے کیا خوب لکھا ہے: ’’منزل کہاں ہے تیری؟ اے لالہ صحرائی!!‘‘