حال ہی میں میاںنواز شریف کی لندن کے ہائیڈ پارک کے ریستوران میں اپنی فیملی کی خواتین کے ساتھ کافی پینے کی تصویر منظر عام پر آئی ہے جس کا سوشل میڈیا پر وائرل ہوجانا قابل فہم ہے کیونکہ یہ میاں نوازشر یف کے لندن جانے کے طویل عرصے کے بعدمنظر عام پر آئی ہے۔اس سے جہاں ان کے لاکھوں پرستاروں، حامیوں کو یہ اطمینان ہواکہ میاں صاحب کئی بیماریاں لاحق ہونے کے باوجود فعال ہیں وہاں ناقدین اور مخالفین کو یہ تصویر دیکھ کر خاصی تکلیف ہوئی۔ وزیر ریلویز شیخ رشید جو میاں فیملی کے بارے میں پیشگوئیاں کرنے میں یکتا ہیں پہلے سے ہی کہتے آ رہے ہیں کہ میاں صاحب نے غچہ دیا اور نزعی کیفیت کا ڈرامہ رچا کر لندن پد ھار گئے۔ اب شہبازشریف جوکوروناسے لڑنے کے لیے دوماہ قبل واپس آ گئے تھے اور معا ون خصوصی برائے احتساب شہزاد اکبر ان پر اور صاحبزادوں پر انتہائی سنگین قسم کی اربوں روپے کی منی لانڈرنگ کا ازسرنو الزام لگا رہے ہیں تاکہ اب بچ کر نہ جانے پا ئیں۔ وفاقی وزیر سائنس اینڈ ٹیکنالوجی فواد چودھری نے وزیراعظم عمران خان کو خط لکھا ہے جس میں انہوں نے نواز شریف کے پاکستان میں ہونے والے ٹیسٹوں کے بارے تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے۔ وفاقی وزیر نے سوشل میڈیا پر سامنے آنے والی اس تصویر کا حوالہ دیتے ہوئے کہا نواز شریف کی برطانیہ میں تصاویر بتا رہی ہیں وہ صحت مند ہیں اور اس سلسلے میں نوازشریف کی پاکستان میں ہونے والی رپورٹس کے بارے میں تحقیقات کی ضرورت ہے۔ محترمہ مریم نواز بھی اپنی زبان ٹویٹ کے ذریعے اسی وقت کھولتی ہیں جب معاملہ ابا جان کی مدافعت کا ہو۔ مریم نواز نے طویل خاموشی کے بعد یوم تکبیر پر ٹویٹ کیا تھا،اب انہوں نے ٹویٹ کیا ہے کہ تصویر کا مقصد تشہیر نہیں تذلیل تھا جو کہ ہر بار کی طرح الٹا ہو گیا۔جو لوگ زبردستی آئی سی یو میں گھس کر میری بیہوش ماں کی تصاویر بنانے کی کوشش کر سکتے ہیں،انکے لیے میاں صاحب کی گھر کی خواتین/بچیوں سمیت چھپ کر تصویر بنانا کیا مشکل ہے؟ اتنا ہی نیک کام تھا تو بزدلوں کی طرح چھپ کر کیوں کیا؟۔ محترمہ نے ایک اور ٹویٹ میں کہا نواز شریف کا خوف نہ ان کو جینے دیتا ہے نہ چین سے حکومت کرنے دیتا ہے یہی انکی سزا ہے۔ شر یف فیملی خرابی صحت کے حوالے سے سیاست کرنے میں اپنی مثال آپ ہے۔ یہ بات مسلمہ ہے کہ نوازشریف عارضہ قلب میں مبتلا اور دل کا بائی پاس کروا چکے ہیں۔ وہ ایک مر تبہ لند ن کے ایک کلینک میں انجیو پلاسٹی کے دوران شریان پھٹ جانے سے بال بال بچے تھے۔ ان کی گردن کی شریان خاصے عرصے سے بلاک ہے مزید برآں انہیں ذیابیطس اور گاؤٹ کی بھی شکایت ہے لیکن میاں صا حب کی عمر 70سال سے زائد ہے، اس عمر میں میاں صاحب جیسا لائف سٹائل رکھنے والے افراد کا ایسے عارضے لاحق ہو جاناخارج ازامکان نہیں ہوتا۔گزشتہ برس اکتوبر میں میاں صاحب کے جیل میں پلیٹ لیٹس اس حد تک کم ہو گئے تھے کہ انہیں راتوں رات کوٹ نیب لاہور دفتر سے سروسز ہسپتال منتقل کیا گیا اور وہاں جوں جوں دوا کی مرض بڑھتا ہی گیا ۔ علا ج کے باوجود پلیٹ لیٹس کم ہوتے گئے جس سے ان کی زند گی کو خطر ہ لا حق ہو گیا۔ ان کے ذاتی معالج ڈاکٹر عدنان کے علاوہ صوبا ئی وزیر صحت ڈاکٹر یاسمین راشد، حکومت کے قائم کردہ میڈیکل بورڈ اور خود وزیراعظم عمران خان کے معتمد ڈاکٹر فیصل سلطان جو شو کت خانم ہسپتال کے سر براہ بھی ہیں نے یہی کہا کہ میاں صاحب کا حال ہر چند ہے کہ نہیں ہے ۔ اسی بنا پر انہیں ائر ایمبولینس کے ذریعے بغر ض علاج لند ن جانے کی اجازت دے دی گئی۔ قطر ائر ویز کے جہا ز جسے ائر ایمبو لینس کہا جا رہا تھا میں جب میاں صا حب لاہو ر سے سوار ہوئے تو یا ر لوگوں کا ما تھا ٹھنکا کیونکہ عام تاثر یہی تھا کہ انھیں سٹریچر پر لٹا کرجہاز پر سوار کیا جا ئے گا لیکن وہ خود چل کر وکٹری کانشان بناتے ہوئے جہاز میں سوار ہوئے۔ اس موقع پر ایک تصویر ریلیز کی گئی جس میں وہ لگژری جہاز میں آرام سے بیٹھے ہیں اور ان کے سامنے تازہ پھل پڑے ہیں گو یا کہ یہ تصویر ہی وزیر اعظم کامنہ چڑا رہی تھی کہ دیکھو میں بچ کر نکل گیا ہوں ۔ سوال پیداہوتا ہے کہ جب سے وہ لندن گئے ہیں پلیٹ لیٹس کاؤنٹ کے بارے میں کبھی کوئی ذکر کیوں نہیں کیا جاتا نیز کافی عرصے سے شکوک و شبہات کا اظہار کیا جا رہا ہے کہ ان کی رپورٹس میں بڑے پیمانے پر ردوبد ل تو نہیں کیا گیا تھا کیونکہ متذ کرہ رپورٹس ایک نجی لیبارٹری سے کرائی گئی تھیں اور غالباً کسی دوسری لیب سے انھیں کاؤنٹر چیک نہیں کیا گیا یا میاں صاحب پر اللہ تعالیٰ کی خصوصی رحمت ہے کہ لندن کی ٹھنڈی فضا میں ان کے پلیٹ لیٹس ٹھیک ہو گئے۔ کئی ماہ سے کہا جا رہا ہے کہ میاں نواز شریف کی انجیو گرافی ہونا باقی ہے مزید برآں ان کی گردن کی شریان کا بھی آپریشن کرانا پڑے گا جس کے لیے وہ جرمنی یا امریکہ جائیں گے۔ اللہ تعالیٰ انہیں صحت عطا فرمائے لیکن فی الحال تو وہ ایک دن کے لیے بھی ہسپتال میں داخل نہیں ہوئے۔ کیا یہ سب میاں صاحب کو لند ن بھیجنے کے لیے کسی خصوصی ڈیل کا حصہ تھا جس سے وزیراعظم کو لاعلم رکھا گیا یا وہ یہ کہہ کر کہ مجھے غچہ دیا گیا تجاہل عارفانہ سے کام لے رہے ہیں۔ یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ میاں صاحب نے صحت کوبنیاد بنا کر نقل مکانی کی ہو۔ پرویز مشرف کے دور میں جب وہ جدہ میں مقیم تھے ان کے معتمد ساتھی بریگیڈ ئیر نیاز کے ذریعے پیغام رسانی ہوئی کہ میاں صاحب کے لندن میں مقیم صاحبزادے حسن نواز خطرناک بیماری میں مبتلا ہیں لہٰذا انہیں جدہ سے لندن جانے دیا جائے، میاں صاحب نے یقین دہانی کرائی وہ انسانی ہمدردی کی بنا پر جا رہے ہیں لہٰذا وہ سیاست نہیں کریں گے۔ پرویزمشرف آمر ہونے کے باوجود طبعاً شریف آدمی تھے لیکن میاں صاحب نے لندن پہنچتے ہی ہیتھروایئر پورٹ پر کارکنوں کی موجودگی میں مشرف پر لفظی گولہ باری کردی۔ خادم اعلیٰ بھی جدہ قیام کے عرصے میں بیمار ہوئے، وہ کینسر کے موذی مرض کے علاج کے لیے نیویارک چلے گئے اور وہاں ان کی کامیاب سرجری بھی ہوئی۔ میاں شہبازشریف کا اسٹیبلشمنٹ سے اچھا تال میل رکھنے کا رویہ ڈھکا چھپا نہیں اور وہ بڑے فخر سے اس کا اقرار بھی کرتے ہیں، اپنے برادراول اور بھتیجی کا جارحانہ بیانیہ تبدیل کرنے اور ان کی گلو خلاصی کرانے میں بھی ان کا کلید ی کردار بتایا جاتاہے۔ وطن واپسی کے بعد وہ بھی کورونا وائرس سے لڑنے کے بجائے اس سے ڈر کر ماڈل ٹاؤن میں اپنے گھر میں محصور ہو کر رہ گئے ہیں حتیٰ کہ اپنی تحریک پر بلائے گئے قومی اسمبلی کے اجلاس میںبھی شرکت نہیں کی۔ حال ہی میں یوم تکبیر کے موقع پر وہ کیک کاٹنے کی تقر یب میں بھی شریک نہیں ہوئے ۔ اب ان کا کہنا ہے کہ ان کے ایک فوٹو گرافر کا کورونا ٹیسٹ پازیٹو نکل آیا لہٰذا وہ قرنطینہ در قرنطینہ میں ہیں۔ عمران خان اس لحاظ سے خوش قسمت ہیں کہ شر یف برادران بوجوہ انہیں للکارنے سے قاصر ہیں لیکن نہ جانے حکومتی ترجمان کیوں شریف برادران کے غم میں دبلے ہو رہے ہیں۔ مسلم لیگ (ن) کی اعلیٰ لیڈ ر شپ میں بھی سخت اضطراب پایا جاتا ہے کہ ہم پاکستان کی سب سے بڑی اپوزیشن جماعت تو ہیں لیکن ہماری منزل کیا ہے؟۔