بجھتا ہوا چراغ بچانے نہیں دیا تھوڑا سا آسرا بھی ہوا نے نہیں دیا ہم کو انا کے دوش پہ لا کر بیٹھا دیا یاروں نے ہم کو یار منانے نہیں دیا کیا کیا جائے اور کیا کہا جائے۔ بس اتنا کہ اپنے بس میں کچھ نہیں اور یہیں سے بے بسی اور بے کلی جنم لیتی ہے۔ میر بھی کہتے چلے گئے کہ جو چاہو سو آپ کرو ہو ہم کو عبث بدنام کیا۔ یعنی ناحق ہم مجبوروں پر یہ تہمت ہے مختاری کی۔ لوگ بڑے ظالم ہیں خان صاحب سے سوال کر رہے ہیں کہ یہ ’’این آر او‘‘ کیا ہوتا ہے جنوں کا نام خرد رکھ دیا خرد کا جنوں۔ جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے۔ سنا ہے اور کاش یہ سچ ہی ہو کہ ان لوگوں پر جو جہانگیر ترین کے پاس جا حاضر ہوئے تھے برہم ہوئے ہیں اور وہ سمجھتے ہیں کہ یہ تو ان کے اعلامیہ کا جنازہ نکال دے گا۔ خان صاحب نے واشگاف الفاظ میں کہہ دیا ہے کہ کسی کو بھی این آر نہیں ملے گا۔انہوں نے لفظ ’’کسی‘‘ پر اتنا زور دیا ہے کہ اس کی لپیٹ میں اپنے بھی آ سکتے ہیں ان کا یہ کہنا کہ چاہے اس عمل میں ان کی حکومت ہی چلی جائے تو پروا نہیں ۔ میں سمجھتا ہوں کہ اگر سچ مچ ایسا ہے تو ان کی’’ساکھ‘‘ بچ سکتی ہے اور یہ سودا ہرگز مہنگا نہیں۔ ایسے ہی ایک شعر ذہن میں آ گیا: سخت مشکل تھی مگر نام خدا کے آگے رکھ دیے ایک طرف میں نے سہارے سارے بات یہ ہے کہ جب حق کے ساتھ کھڑے ہونے کا فیصلہ کر لیا جائے تو پھر باطل تو راضی نہیں رہے گا۔واقعتاً یہ کیا تماشہ ہے اور پوری قوم کے ساتھ ایک مذاق ہے کہ جب آپ کا نام چینی مافیا میں ہے اور رپورٹ جاری ہو چکی ہے تو آپ سارے لوٹے شوٹے اکٹھے کر کے خان صاحب کو بلیک میل کرنے آن سامنے کھڑے ہوں۔ آپ اپنی بے گناہی ثابت کریں آپ کے ساتھ تو پھر بھی رعایت برتی گئی وگرنہ ن لیگ کے رہنما نیب کا شکار ہو کر جیلیں بھگت چکے جبکہ آپ خان صاحب کو سپورٹ کرنے کی بجائے مال بناتے رہے اور پھر آپ کی لائی ہوئی مہنگائی نے خان صاحب کے لئے مسئلہ پیدا کر دیا گویا جن پہ تکیہ تھا وہی پتے ہوا دنے لگے۔ معلوم نہیں جہانگیر ترین کے ساتھیوں کا مستقبل کیا ہو گا شاید وہی جو ساتھیوں کا ہو تا ہے۔ ویسے یہ ساتھی سفید ہاتھی ثابت ہوتے ہیں لیکن مصیبت یہ ہے کہ ہمارے اس بدبودار نظام میں ایسے ساتھیوں کی سب کو ضرورت ہوتی ہے یہ لوگ سب کے ساتھ آن مل سکتے ہیں مگر یہ ہوتے کسی کے نہیں۔ بہت ہی خطرناک لوگ ضمیر اور عزت نفس سے یکسر بے نیاز۔ ایسے ہی کومل جوئیہ کا شعر یاد آ گیا: منسوب چراغوں سے طرفدار ہوا کے تم لوگ منافق ہو منافق بھی غضب کے چلیے اب ذرا مزے مزے کی باتیں بھی کر لیں۔ ہمارے پیارے شاہد آفریدی نے کس قدر معصومیت دکھائی کہ خان صاحب سے ایک سوال پوچھ لیا کہ نواز شریف اور زرداری کو چھوڑیں آپ بتائیں کہ آپ کیا کر رہے ہیں۔ اب ہم یہ سوچتے ہیں کہ خان صاحب کے ساتھ کیا کر رہے ہیں۔ آپ یقین مانیے ان کے پاس بھی تو کوئی کام نہیں بلکہ ان کے ذمہ یہی کام لگایا گیا ہے: یہ دکھ نہیں کہ وہ سمجھا نہیں مرے فن کو مخالفت کا سلیقہ نہیں تھا دشمن کو باقی آپ اپنی باتوں میں جس قدر چاہیں مبالغہ آمیزی کریں اور جو چاہیں حاشہ آرائی و زیبائی کریں ہم سنیں گے اور پڑھیں گے۔ آپ بے شک کہیں کہ اس قوم کو پچھلے ستر سال میں بھی اتنی خوشحالی نصیب نہیں ہوئی جتنی اب ملی ہے آپ جتنا مرضی گروتھ ریٹ بتاتے رہیں آپ کے معاشی اشاریے ستاروں پر کمندیں ڈالتے رہیں۔ اس پر بے حال اور نڈھال عوام آپ سے کچھ نہیں کہیں گے کہ خاموشی سے اچھی زبان کوئی نہیں۔ ویسے ان ترجمانوں کو زبان ضرور سیکھ لینی چاہیے کہنے کو تو یہ عام سا بیان ہے یا فارمیلٹی ہے کہ کہہ دیا کہ اب مستقبل میں حکومت ترقی کے لئے کوشاں رہے گی۔ اگر اس بیان میں ’’مزید‘‘ کا لفظ لگا دیجیے تو آپ کے وعدے کو پر لگ جائیں گے یعنی کہنا چاہیے مستقبل میں حکومت مزید ترقی کی طرف جائے گی۔ سنا ہے کہ سیاسی پارٹیاں پھر متحرک ہونے جا رہی ہیں۔ پی ڈی ایم نے ایک مرتبہ پھر پیپلز پارٹی اور این اے پی کو دعوت دی ہے۔ میرا دھیان کسی اور طرف جا رہا ہے کہ اگر ایسا ہوا کہ پی ڈی ایم نے باہر نکل کر تحریک چلانے کی کوشش کی تو کورونا کی لہر ہی آ سکتی فی الحال تو پی ڈی ایم میں تازہ لہر انگرائی لے رہی ہے ناصر کاظمی نے کہا تھا: وقت اچھا بھی آئے گا ناصر غم نہ کر زندگی بڑی ہے ابھی دل میں اک لہر سی اٹھی ہے ابھی کوئی تازہ ہوا چلی ہے ابھی ایک پرلطف واقعہ کا اضافہ چوہدری نثار کی پریس کانفرنس تھی۔ وہی پرانی اور پرانی باتیں۔ معلوم نہیں کیا ایجنڈا لے کر وہ آئے ہیں۔ فردوس عاشق نے غلط نہیں کہا کہ 3سال تک حلف نہ اٹھانا علاقے کے ووٹرز کی توہین ہے اور یہ غیر سنجیدہ بھی ہے پتہ نہیں چوہدری صاحب ہمیشہ نیم دروں اور نیم بروں ہی رہے ہیں۔ مجھے تین سال پرانی ان کی کانفرنس بھی یاد ہے جس نے مجھے تب کا لکھا ہوا قطعہ یاد دلا دیا: کائیں کائیں کائیں آئو کھچڑی پکائیں لیکن دال اور چاول آئیں بائیں شائیں بھائی صاحب!وقت بہت قیمتی ہے اپنی کانفرنس کا کوئی مقصد بھی تو سامنے لائیں تیس پینتیس سال آپ نے نواز شریف کے ساتھ گزار دیے۔ آپ ان کے ساتھ انقلابی نہ بن سکے کہ آپ شہباز شریف لابی کے ہیں۔ تبھی تو سیاست میں ہلچل آئی کہ تبدیلی کے بعد ایک اور تبدیلی متوقع تھی جو کچھ وقت کے لئے شاید ٹل گئی ہے کہ خان بھی بھرے بیٹھے ہیں۔ ایک شعر ساتھ اجازت: اے سعدؔ ہم کو لاکھ تردد کے باوجود دنیا نے ایک پیج پہ آنے نہیں دیا