لوگ تو چیئرمین نیب کے خلاف ریفرنس دائر کئے جانے کا خطرہ محسوس کر رہے تھے مگر قرعہ نکل آیا سپریم کورٹ آف پاکستان کے سینئیر جج جسٹس قاضی فائز عیسی کے نام، معزز جج کے خلاف الزامات نواز شریف ، شہباز شریف اور آصف زرداری پر لگنے والے الزامات سے مختلف نہیں ہیں، تین بار وزیر اعظم بننے والا جیل جا سکتا ہے تو کوئی منصف کیوں نہیں، جسے حکمران سے زیادہ صادق اور امین ہونا چاہئیے، حکومتی حلقے دعوے کرتے ہیں کہ برطانیہ اور سپین میں بہت جائیدادیں پکڑی گئی ہیں، برطانیہ میں بھی ان کی آف شور کمپنیاں ہیں، ان کی اہلیہ محترمہ کے پاس بھی بہت مال ہے، میرے خیال میں اس سے پہلے کہ ہم آگے بڑھیں، ہمیں جسٹس قاضی فائز عیسی اور ان کی اہلیہ محترمہ کا خاندانی پس منظر معلوم ہونا بہت ضروری ہے, تاریخ کے صفحات اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ دونوں میاں بیوی جدی پشتی امیر ہیں، جسٹس فائز کے والد کو قائد اعظم کا قریبی ساتھی ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہے، قائد اعظم کے حکم پر ہی انہوں نے بلوچستان میں پاکستان مسلم لیگ کی بنیاد رکھی تھی، اس نیک مقصد میں ان کا ساتھ سردار عثمان جوگیزئی، جان محمد کاسی، ارباب کرم خان، غلام محمد ترین اور میر جعفر خان جمالی نے دیا، 1942ء میں ان لوگوں نے کوئٹہ میں مسلم لیگ کا پہلا جلسہ منعقد کیا جس کے مہمان خصوصی لیاقت علی خان تھے، 1943ء میں قائد اعظم محمد علی جناح دو ماہ تک جسٹس قاضی عیسی کے مہمان رہے تھے، 23مارچ1940میں جب لاہور میں قرارداد پاکستان منظور ہوئی تو بلوچستان کی طرف سے اس قرارداد کے حق میں تقریر بھی قاضی عیسی نے ہی کی تھی،یہ تو تھا جسٹس قاضی فائز عیسی کا مختصر سا فیملی بیک گرائونڈ، لیکن اس پس منظر کے معانی یہ بھی نہیں کہ سپریم کورٹ کے سینئیر جج ہونے کے ناطے ان کے خلاف کوئی ریفرنس نہیں بھجوایا جا سکتا، اعلی ترین عدالتوں کے کئی اعلی ترین جج ماضی میں جو کچھ کرتے رہے وہ ریفرنسز نہیں پھانسیوں کے حقدار تھے، یہ سلسلہ شروع ہواتھا مولوی تمیز الدین کیس سے ، جسٹس قاضی فائز عیسی سے ہٹ کر بات کی جائے تو یہ کردار ابھی مکمل طور پر ختم نہیں ہوا، اس کردار کی کوئی نہ کوئی جھلکی کبھی کبھار نظر آتی ہی رہتی ہے،جسٹس فائز کی جانب سے صدر پاکستان، وزیر اعظم ہاؤس اور سپریم کورٹ رجسٹری کو جو خط موصول ہوا وہ بنام صدر پاکستان ہے، اس کا متن اس طرح ہے۔۔۔۔جناب عزت مآب صدر پاکستان، مجھے ،، سرکاری ذرائع،، سے معلوم ہوا ہے کہ آپ کی جانب سے میرے خلاف کوئی ریفرنس بھجوایا گیا ہے، میں جاننا چاہتا ہوں کہ ایسا ہے یا نہیں، اگر جواب ہاں میں ہے تو اس ریفرنس کی ایک کاپی مجھے بھی دے دی جائے،جسٹس فائز کا صدر کے نام یہ خط ان کا قانونی حق ہے اور اس کامتن بھی عین آئینی ہے،ایڈیشنل اٹارنی جنرل پاکستان زاہد ابراہیم نے یہ کہتے ہوئے اپنے عہدے سے استعفی دے دیا ہے کہ ،،، میں عدلیہ کے وقار کو خطرے میں دیکھ رہا ہوں،،،، زاہد ابراہیم جناب جسٹس ریٹائرڈ فخر الدین جی ابراہیم کے صاحبزادے ہیں،اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا جسٹس قاضی فائز عیسی عمران خان کی حکومت میں ملزم گردانے گئے ہیں؟ جی نہیں، انہیں ان حالات کا سامنا پاکستان پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں کرنا پڑا جب وہ میمو کمیشن کے سربراہ تھے ،اس کیس میں ان کا فیصلہ یہ تھا کہ حسین حقانی پاکستان کے وفادار نہیں ہیں،،،،،،اس کمشن کی تشکیل میاں نواز شریف کی درخواست پر ہوئی میاں صاحب نے میموگیٹ سکینڈل کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا تھا اور کالا کوٹ پہن کر عدالت عظمیٰ میں پیش ہوئے۔اس وقت وہ پیپلز پارٹی کے معتوب ٹھہرے تھے، پاکستان مسلم لیگ ن کے آخری دور حکومت میں انہوں نے وزیر داخلہ چوہدری نثار کے کالعدم تنظیموں سے تعلقات اور باہمی ملاقاتوں پر سوال اٹھا دیے، اور پھر یہ وہی جسٹس فائز عیسی ہیں جنہوں نے فیض آباد دھرنے پر فیصلہ سنا یا مریم نواز کا جسٹس فائز کے حوالے سے بیان سن کر میں تو چکرا ہی گیا اور اس سوچ میں پڑ گیا کہ کیا یہ بی بی اپنی ہی سیاسی جماعت کی تین سال پرانی تاریخ سے بھی ناواقف نہیں؟ بات صرف مریم نواز کی نہیں ہے، سب سیاستدانوں کا یہی حال ہے، وہ زیادہ تر معاملات کی تہہ در تہہ سے ناواقف ہوتے ہیں، حکمرانوں سے زیادہ معاملہ فہم تو رکشہ ڈرائیور ہوتے ہیں، آپ کسی رکشہ پر بیٹھیں اور دوران سفر اس سے سیاسی گفتگو شروع کر دیں ،آپ کو لگ پتہ جائے گا کہ اصل ایشوز اور ان کی بنیاد رکشہ ڈرائیور زیادہ جانتا ہے یا ہمارے سیاستدان؟ میں نے کئی وزراء اعظم اور صدور کے عشائیے اور ظہرانے اٹینڈ کئے ہیں، میں نے ان تقریبات میں کئی بار دیکھا کہ ملک کا صدر یا وزیر اعظم کسی نہ کسی بزعم خود دانشور کے نرغے میں ہوتا ہے اور اس سے ملکی حالات دریافت کر رہا ہوتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جسٹس فائز عیسی پر الزامات ہو سکتے ہیں، ان الزامات کی سنجیدگی بھی ممکن ہے لیکن اب ،، سلیکٹو لیکس،، افواہوں کے قدموں تلے آ گئی ہیں، جسٹس فائز عیسی کے خلاف پہلے بھی دو ریفرنس دائر ہوچکے ہیں، اور یہ کوئی پرانی نہیں پچھلے برس کی ہی بات ہے، دوسرے ریفرنس کو بھی سابق چیف جسٹس پاکستان جناب ثاقب نثار نے مسترد کر دیا تھا، لوگوں کو سابق چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ جسٹس شوکت عزیز صدیقی کے خلاف ریفرنس کی پوری تفصیل بھی یاد ہے، حکومتی رویہ سے عدالتی ساکھ بھی متاثر ہوگی، جسٹس فائز عیسی بلوچستان ہائی کورٹ کے چیف جسٹس رہ چکے ہیں، سن 2023/2024میں وہ چیف جسٹس آف پاکستان بھی بننے جا رہے ہیں اگر وہ موجودہ صورتحال سے بچ نکلے،نیوز چینلز کے حالات حاضرہ کے پروگرامز کی یہ ٹاپ اسٹوری بن چکی ہے، ایسا نہیں ہونا چاہئیے تھا، ان کی حمایت اور مخالفت میں مباحثے نہیں ہونے چاہئیں تھے، یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ جسٹس فائز نے ایک یا ایک سے زیادہ اداروں کی تضحیک کی، یہ بات بھی ڈسکس نہیں ہونی چاہئیے تھی، کوئی مانے یا نہ مانے میں عدلیہ کے ماضی کے ٹریک کے باوجود اسے ایک مقدس ادارہ سمجھتا ہوں، ماضی میں ججوں نے بڑی بڑی فاش غلطیاں کیں، ماتحت عدلیہ میں رشوت خوری پولیس سے بھی زیادہ ہے، لوگوں کو انصاف سے محروم رکھا گیا، فیصلے چمک کی روشنی میں ہوتے رہے لیکن ان سب باتوں کے باوجود میں عدلیہ کو ایک مقدس ادارہ گردانتا ہوں، یہ مقدس ادارہ ہے اور اسے مقدس ادارہ ہی رہنا چاہئیے، وہاں سے انصاف نہیں ملتا تو کم از کم انصاف کی امید تو بندھتی ہے، یہ امید کی شمع بھی گل کر دی گئی تو پاکستان کے عوام کے پاس جینے کا کون سا دوسرا سہارا رہ جائے گا؟ اپنے چاروں طرف دیکھئے، آپ کو اندھیروں کے سوا کچھ نظر نہیں آئے گا، اسی طرح عمران خان کی حکومت بھی لوگوں کے لئے روشنی کی علامت بنی ہے، عوام موجودہ حکومت سے پوری طرح مایوس نہیں ہوئے، روشنی نظر آ رہی ہے چاہے ابھی تک وہ سیاہ بادلوں کی اوٹ میں ہے، لوگ حیران ہیں کہ ملکی تاریخ میں بڑے بڑے بدنام جج سامنے آئے، ان کی کہانیوں اور افسانوں کے بھی بڑے چرچے رہے مگر وہ ریٹائرمنٹ کے بعد بھی پاک دامن ہی رہے، جسٹس فائز کیخلاف کوئی مواد ہے تو ضرور ریفرنس پیش ہونا چاہئیے، اگر پردے کے پیچھے کچھ اور ہے تو یاد رکھا جائے کہ کہانیاں قطار در قطار ہیں، پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو نے اس ریفرنس کو ٹارگٹڈ ریفرنس کا نام دیتے ہوئے شک ظاہر کیا ہے کہ نظام عدل بدلا جا رہا ہے،اور اعلی عدلیہ میں مرضی کے جج بٹھانے کی کوشش کی جا رہی ہے، بلاول بھٹو کے ان خدشات کو صرف حکومت رد کر سکتی ہے اپنی خاموشی توڑ کر اور اس کہانی کی اصل تصویر سامنے لاکر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔