ڈاکٹر خورشید رضوی سے پہلی ملاقات جدہ میں میاں محمد خالد حسین کے وسیع و عریض ڈرائنگ روم میں ہوئی۔ خالد صاحب مہمانوں کے تعارف میں تعجیل کرتے ہیں لیکن اس دن وہ بھول گئے۔ڈاکٹر صاحب موتی رول رہے تھے۔ کچھ اشعار ان کے سن رکھے تھے۔ان کے باذوق شاگرد فاروق گیلانی سے،غیر معمولی حافظے کے اظہر سہیل سے دو حرف تسلی کے جس نے بھی کہے اس کو تصویر دکھا ڈالی، افسانہ سنا ڈالا جو کھلی کھلی تھیں عداوتیں،مجھے راس تھیں وہ جو زہر خند سلام تھے،مجھے کھا گئے کچھ شعر ایسے ہوتے ہیں کہ سنتے ہی دل و دماغ پہ ہمیشہ کے لیے رقم رہتے ہیں۔فیض احمد فیضؔ نے کہا تھا:زندگی کے سب تیور اسد اللہ غالبؔ نے بیان کر ڈالے۔ بعد والوں کے کہنے کو کچھ زیادہ باقی نہ رہا۔ شاعر کا وظیفہ شاید یہی ہے کہ حیات کی ان جہات کو جمال کے ساتھ بیان کرے، عامی کیا، مفکرین کی نگاہ بھی جن پہ نہیں پڑتی۔ ندیوں، آبشاروں، جھیلوں، درختوں، پرندوں اور سرِ آسماں دھنک کے رنگوں کی طرح۔ ابلاغ کا حسن بھی خالق کو یقینا عزیز ہے۔ وہ حسن کا پروردگار ہے۔ اسے وہ عزیز رکھتا ہے۔ والٹئیر نے کہا تھا:Every word of a writer is an act of generocity ۔ تمام زمانوں کے سب سے جلیل القدر شاعر، بیسویں صدی کے علمی مجدد اقبالؔ نے ارشاد کیا تھا: جب کوئی اچھا شعر سنو تو سمجھو کوئی مسیح مصلوب ہوا ہے۔ دل و جاں پہ گزرتی ہے توگداز میں ڈھلتی ہے۔ میرؔ صاحب فرماگئے مصرعہ کبھو کبھو کوئی موزوں کروں ہوں میں کس خوش سلیقگی سے جگر خوں کروں ہوں میں خورشید رضوی کی شاعری حسنِ بیاں ہی نہیں، ایک سعید روح کا گداز اس میں جھلکتا ہے۔ ایک بار ان کی خدمت میں عرض کیا کہ ایک روئے زیبا کی یاد ان کے اشعار میں پیہم جھلکتی ہے۔ ایک کہانی سی، جو چھتنار درختوں، گلشن میں آگ لگاتے پھولوں اور چاندنی راتوں کے فراق میں ڈھلتی رہی؛حتیٰ کہ امر ہو گئی۔ ایک ہوک سی ان کی شاعری میں سنائی دیتی ہے۔ کب نکلتاہے کوئی دل میں اتر جانے کے بعد اس گلی کے دوسری جانب کوئی رستہ نہیں ڈاکٹر صاحب نے ارشاد کیا: آپ لکھ ڈالیے یہ کہانی۔ ایک اخبار نویس کو یہ تاب کہاں، یہ مجال کہاں۔ تاروں کے ضیاء ، گلوں کی مہک اور نصف شب کو جاگتی آنکھوں کی داستاں کوئی رشید احمد صدیقی یا محمد حسین آزا د ہی رقم کر سکتاہے۔ سہنا پڑتا ہے، دل پہ بتانا پڑتا ہے۔ شعر ہی نہیں، سچی نثر کی شناخت بھی وہی ہے خشک ڈھیروں تنِ شاعر کا لہو ہوتاہے تب نظر آتی ہے اک مصرعہ تر کی صورت صلاح الدین ایوبی کی وفات کے فوراً بعد ان کے ہم سفر نے جلیل القدر فاتح کی سوانح لکھ ڈالی تھی۔ بعض اوراق اس داستاں کے ایسے ہیں کہ خود کو تھامے رکھنا مشکل ہو جاتاہے۔ مثلاً طوفانی لہروں میں لرزتا بحری جہاز۔ عرشے پہ یکا یک نمودار ہونے والا ایوبی اور اس کے یہ الفاظ: حکمرانی سے میں تنگ آچکا۔بہت وقت کارِ حکمرانی میں برباد ہوتاہے۔ چاہتا ہوں کہ ایک لشکر بناؤں اور زمین کے آخری کونے تک اللہ کے دشمنوں کا پیچھا کروں۔ سوانح نگار لکھتا ہے: میں حیران رہ گیا۔ بس اتنا کہہ سکا: صلاح الدین تم ایسا صاحبِ ایماں کوئی دوسرا نہیں ہوگا۔ پلٹ کر اس نے پوچھا: تم ایسا کیوں کہتے ہو۔جواب ملا:کیا آپ دیکھتے نہیں کہ خوف نے چہرے پیلے کر دئیے ہیں۔ منکسر آدمی شرمایا اور اپنے کیبن کی طرف لوٹ گیا۔ خالد صاحب کو خدا خوش رکھے۔ بارہا ان کی رفاقت میں ڈاکٹر صاحب کی محفل میں باریابی کا شرف حاصل ہوا۔ ایسی احتیاط، ایسی شائستگی اور ایسا علم۔ جی شاد ہو جاتا ہے۔ ایک دن اچانک کہا: کوئی ساعت ہوتی ہے کہ پروردگار کے کرم سے خیال پرواز کرتا ہے۔ ایسا ہی ایک لمحہ تھا، جب سورۃ والعصر پہ غور کرنے کی توفیق ارزاں ہوئی قسم ہے زمانے کی بے شک انسان خسارے میں ہے مگر وہ کہ ایمان لائے اور صالح عمل کیے حق کی وصیت کی اور صبر کی ارشاد کیا: زمانے کی بے رحم امواج میں اسی کی کشتی سلامت رہے گی، جو سچائی کے ساتھ صبر کا دامن تھامے رکھے وگرنہ خسارا ہی خسارا۔ ورنہ وہی کہ آدمی ظلم اور جہالت کی نذر ہو جائے گا۔ جیسا کہ عصرِ رواں کے عارف نے کہا تھا: اس لیے کہ آدمی اپنے فرض کو کمتر اور اپنی استعداد کو زیادہ فرض کر لیتاہے۔ پھر ڈھلوان کا سفر۔ ڈاکٹر صاحب کی شاعری تب اپنے عروج کو پہنچتی ہے، جب وہ سرکارؐ کا ذکر کرتے ہیں یا بارگاہِ ایزدی میں دعا کا ہاتھ اٹھاتے ہیں۔ اجلی زندگی کے باوجود بالیدگی کی ایک بے کراں تمنا حسرتوں کا بھی کوئی روزِ جزا ہے یا نہیں میری حسرت میں تو تھا تیری اطاعت کرنا اور یہ کہ اپنا چلتا ہوا بت چھوڑ زمانے کے لیے اور عرصہ ء ایام سے ہجرت کر جا جاں سے آگے بھی بہت روشنیاں ہیں خورشید اک ذرا جاں سے گزرجانے کی ہمت کرجا نعت لکھتے ہیں تو کبھی یوں لگتا ہے کہ دربارِ رسالتؐ میں سر جھکائے کھڑے ہیں شان ان کی سوچیے اور سوچ میں کھو جائیے نعت کادل میں خیال آئے تو چپ ہوجائیے سونپ دیجے دیدہء تر کو زباں کی حسرتیں اور اس عالم میں جتنا بن پڑے رو جائیے یا حصارِ لفظ سے باہر زمینِ شعر میں ہو سکے تو سرد آہوں کے شجر بو جائیے اے زہے قسمت کسی دن خواب میں پیشِ حضورؐ فرطِ شادی سے ہمیشہ کے لیے سو جائیے اے زہے قسمت اگر دشتِ جہاں میں آپؐ کے نقشِ پا پر چلتے چلتے نقشِ پا ہوجائیے ایک مختصر تحریر میں اس نادر آدمی کی سب جہات کا احاطہ ممکن نہیں۔ ایک استاد ہیں اور ایسے کہ تلامیز کے دلوں میں بستے ہیں۔ ایسے محقق کہ عرق ریزی شعار ہے اور رو رعایت سے آشنا ہی نہیں۔ قدیم عربی ادب پہ ان کا لکھا اعتبار اور وثوق کے سب قرینوں پہ پورا اترتا ہے۔ عہدِ جاہلیت کی عرب شاعری پہ ان کے مضامین ہمیشہ یاد رکھے جائیں گے۔ اہلِ علم دائم ان سے اکتسابِ فیض کرتے رہیں گے۔ آدمی حیرت زدہ رہ جاتاہے کہ قلم توڑ دیا۔ دہائیوں تک ایسی غوّاصی اس بحر میں کی ہے کہ لاکھوں لولوئے لالہ ڈھونڈ کر لائے اور اردو زبان کا دامن مالا مال کر دیا۔ انگریزی اور فارسی پر دسترس، پنجابی کے عظیم صوفیا کی شاعری پہ ایک سچی اور کھری نگاہ۔ کم ایسا ہوتاہے، بہت خال۔ النادر و کالمعدوم۔ نامور عرب شاعروں پر کہ ابد الآباد تک باقی رہیں گے، ان کے مضامین ایسی شاید ہی کوئی دوسری نظیر ہو۔ ممتاز ہم عصر نے کہا تھا: داد کی آرزو ہو تو بس یہ سوجھتا ہے کہ اپنی پوری لائبریری آپ کی نذر کر دوں۔ وہی بات، جو غالبؔ نے مومنؔ کے اس شعر پہ کہی تھی تم میرے پاس ہوتے ہو گویا جب کوئی دوسرا نہیں ہوتا ڈاکٹر صاحب کی شخصیت کا ایک عظیم وصف ان کا جذباتی اعتدال ہے۔ اپنے ہم عصروں میں جس نے انہیں ہمیشہ ممتاز اور بالا رکھا۔عمر فاروقِ اعظمؓ ایک خاص دیار کے چرواہوں سے پوچھا کرتے کہ فلاں تیز دھار کانٹوں والی جھاڑیوں میں اپنی بکریاں کیسے چراتے اور اپنا دامن کیسے بچاتے ہو۔شاعروں کے قبیلے میں ڈاکٹر خورشید رضوی کی انفرادیت تہذیبِ نفس ہے۔ ایسا اعزاز کہ کم کسی کو نصیب ہوتاہے۔ شاعرانہ عظمت الگ ڈاکٹر صاحب کی نثر بھی ایسی ہے کہ شاخ در شاخ پھول سے کھلتے چلے جاتے ہیں۔ ابر سا برستا رہتاہے۔ گرد و پیش کا گنوار پن شائستہ آدمی کو ملول کرتاہے۔ خود کو وہ تھامے رکھتاہے۔ یہی ملال قلب و جاں میں اترتا ہے تو ہیرے موتی ڈھالتا ہے۔ اللہ صحت و سلامتی کے ساتھ ان کا سایہ ہمارے سروں پہ قائم رکھے۔بائبل کی زبان میں ایسے ہی لوگ زمین کا نمک ہیں۔وہ نادرِ روزگار، جو قدرت استثنا کے طور پر پیدا کرتی ہے۔شیکسپیئر کے ضمن میں اقبال ؔ نے کہا تھا حفظِ اسرار کا ہے فطرت کو سودا ایسا رازداں پھر نہ کرے گی کوئی پیدا ایسا جدہ کی کہانی ادھوری رہ گئی۔ خالد صاحب کی لائبریری پہ نگاہ ڈالتے ہوئے یکایک ڈاکٹر صاحب نے پوچھا: جدہ کے ہوائی اڈے سے برٹرینڈرسل کی کتاب آپ کیسے نکال لائے۔ عرض کیا: لارڈ برٹرینڈرسل کیا کوئی بریلوی ہے کہ روک لیا جاتا۔ ڈاکٹر صاحب نے پلٹ کر دیکھا اور پوچھا: آپ کون صاحب ہیں۔ یہ ایک تعلق کاآغاز تھا۔ اس کی یادیں سنہری اور سایہ گھنا ہے۔