دوستو! میں نے بہت غور کیا تو کھلا کہ دنیا میں بندے کا کام صرف بندہ بن کر رہنا ہے۔ تبھی تو یگانہ نے یگانہ سی بات کی تھی’’خدا بنے تھے یگانہ مگر بنا نہ گیا‘‘خدا کا بندہ بننا انسانیت کی معراج ہے۔ بندہ وہی ہے جو بندگی کرے اور خالق کی خلق کی مخلوق سے محبت کرے۔ جو لوگوں کیلئے جیتا رہا وہ بعداز مرگ بھی جیتا رہا‘ بلھے شاہ اساں مرنا ناہیں‘ گور پیا کوئی ہور‘‘ میں منو بھائی کے بارے میں بھی کچھ ایسے سوچتا ہوں۔ ان کا قلمی کام بھی اپنی جگہ توصیف و تعریف کے قابل ہے مگر ان کا عملی کام جو انہوں نے تھیلسیمیا کے مریضوں کے لئے سندس فائونڈیشن کے کیمپ میں آکرکیا انہیں ہمیشہ ہمیشہ زندہ رکھے ہے ‘ وہ خدا کے حضور سرخرو ہونگے۔ 14جنوری کوان کی برسی تھی تو برادر یاسین خاں نے مجھے بھی مدعو کیا۔ میں سمجھتا ہوں کہ سندس فائونڈیشن کے یاسین خان نے منو بھائی سے اپنے تعلق خاطر کا حق ادا کر دیا کہ انہوں نے اب تک ہرجگہ سندس کا چیئرمین منو بھائی ہی کو لکھ رکھا ہے۔ یہاں تک ہی نہیں منو بھائی کے نام پر وہ ایک ہسپتال کا سنگ بنیاد رکھنے جا رہے ہیں‘ یہی تو قدم قدم یادگار بنانے والی بات ہے۔ علی رئوف بھی پیش پیش تھے۔ وہ تو اکثر منو بھائی کے ساتھ ہوتے تھے۔ تعلق یہی ہے کہ منو بھائی کا موبائل نمبر تک انہی کے پاس ہے اور ہم بھی فون ملاتے ہوئے منو بھائی کو ذہن میں رکھتے ہیں۔ ایک مقامی ہوٹل میں ایک زبردست قسم کی تقریب تھی کہ منو بھائی کے کام کو سراہا جائے اور ان کی یادیں بھی تازہ کی جائیں۔ سٹیج پر بھی ایک کہکشاں تھی اور اس کہکشاں میں ستارے کچھ زیادہ ہی تھے جو ایک وقت میں پورے نہیں آ رہے تھے۔ شجاعت ہاشمی کی نظامت تھی‘ ظاہر ہے وہ ہمیشہ بڑے پروگرام کی نقابت کرتے ہیں یا وہ بڑے پروگرام کی ضرورت ہوتے ہیں۔ مہمانوں کے نام لکھنے بیٹھا تو کالم کا دامن سکڑ جائے گا۔ ان میں حسن نثار‘ حسین نقی‘ چودھری محمد سرور سے لے کر سہیل وڑائچ تک کئی مہمان تھے۔ میں سمجھتا ہوں منو بھائی کا دوسرا نام سندس ہے۔ ایک مرتبہ ان سے گفتگو کرنے میں اور افسانہ نگار تسنیم کوثر سندس کے دفتر میں گئے۔ بتانا میں یہ چاہتا ہوں کہ ہم نے منو بھائی کو ان ایکشن دیکھا۔ وہ علی الصبح تیار ہو کر باقاعدہ دفتر میں بیٹھتے۔ نگرانی کرتے نیلے رنگ کا پینٹ کوٹ ان کو کتنا بھلا لگ رہا تھا اور پھر ان کی مخصوص مسکراہٹ ہاتھ میں ہاتھ لے کر گرمجوشی کا اظہار۔ ان کی باتیں اور ہم ہمہ تن گوش۔ یاسین خان بھی ساتھ تھے۔ ایک اور بات نہایت قابل ذکر ہے کہ تھیلسیمیا کے مریضوں سے گفتگو بھی کرتے۔ بعض مریض تو اس سے آفاقہ محسوس کرتے۔ انہیں ایک بڑے آدمی کی تیمار داری کرنا کتنا اچھا لگتا ہو گا۔ کچھ مریضوں سے ہم نے ملاقات بھی کی۔ ایسے لگتا تھا کہ منو بھائی کے ہاتھ مقصد آ گیا تھا اور انہوں نے اس کے لئے اپنے آپ کو وقف کر دیا تھا۔ اصغر ندیم سید نے بڑی دلچسپ باتیں کیں۔ انہوں نے بتایا کہ تینوں دوست منو بھائی‘ جاوید شاہین اور احمد مشتاق تتلاتے تھے۔ ایک مرتبہ جب یہ تینوں ٹی ہائوس آئے تو حبیب جالب نے کہا ’’یہ تھتھوڑا گروپ کہاں سے آیا ہے۔ اس زمانے میں ہتھوڑا گروپ مشہور ہوا تھا۔ حامد رانا بھی آیا تھا کہ اس نے منو بھائی کے مشہور ڈرامہ سونا چاندی میں سونا کا کردار کیا تھا۔ لخت حسنین بھی لندن سے آئے تھے۔ انہوں نے بتایا کہ اس کی انٹرنیشنل تنظیم مسلم ہینڈز بھی منو بھائی کے ایک خط کی اساس پر قائم ہوئی تھی جس میں انہوں نے ایک معذور کے لئے اپنے کالم میں الیکٹریکل چیئر مانگی تھی۔ سب لوگ منو بھائی کے حوالے سے اپنی یادیں شیئر کر رہے تھے۔ گورنر پنجاب چودھری محمد سرور نے کہا کہ وہ عملی طور پر سندس کے کاز کو سپورٹ کریں گے ہلکی سی سیاست بھی وہاں چلی جب پرویز رشید نے کہا کہ ہر جگہ پارلیمنٹ کو گالی دی جاتی ہے تو جواباً چودھری صاحب نے کہا کہ پارلیمنٹ تو کوئی چیز نہیں ہوتی اصل میں تو اس میں بیٹھے ہوئے لوگ مراد ہوتے ہیں۔ پارلیمنٹ کو تو کوئی گالی نہیں دیتا۔ غالباً آئی اے رحمن نے کہا وہ منو بھائی کو سب سے بڑا عوامی شاعر سمجھتے ہیں۔ اس بات کی تائید کی جا سکتی ہے مگر ان کے کالم بھی عوامی ہوتے تھے۔ خاص طور پر تعلیم اور صحت کے حوالے سے انہوں نے شاندار کالم لکھے وہ معیشت کو بھی سمجھتے تھے۔ اصل میں ان کے سینے میں ایک ہمدرد دل تھا۔ وہ بہت میٹھے اور پیارے آدمی تھے۔ یکسر عوامی سوچ رکھنے والا آدمی اور منافقانہ رویے کے حامل سرمایہ دار اور جاگیر دار کا تیہ پانچا کرنے والا دماغ۔ ایک یاد مجھے بھی ستاتی ہے کہ جب میں یونیورسٹی میں تھا اپنے بھائی عبداللہ شاہ کی وفات پر میری انگریزی نظم ایک اخبار میں چھی تو منو بھائی نے اپنے گریبان کے کالم میں اس نظم کا اردو ترجمہ شائع کیا۔ میں شکریہ ادا کرنے گیا تو حیرت سے بولے ’تم ہو سعداللہ شاہ ‘ میں تو سمجھا کوئی بھاری بھرکم شاعر ہو گا‘ یہ واقعہ ان کے ساتھ گہرے تعلق کا باعث بنا۔ ادبی تنظیم روش کے پروگراموں میں آتے۔ کہیں بھی سوشل یا عوامی کام ہوتا ان کی ترجیحات میں آ جاتا۔ میں تقریب کی باتیں کم اس لیے بیان کر رہاہوں کہ اکثر روٹین کی باتیں تھیں۔ فواد چودھری نے بھی کچھ باتیں کیں شکر ہے ان کا لہجہ ذرا دھیمہ ہی رہا۔ حسن نثار کی باتیں تو ہم دو روز پہلے ان کے کالم میں پڑھ چکے تھے کہ انہیں فخر حاصل ہے کہ وہ منو بھائی اور عباس اطہر کے ساتھ کام کرتے رہے۔ منو بھائی بتایا کرتے تھے کہ ان کے تتلانے کے باعث بچے ان کا مذاق اڑاتے‘ لڑکیاں ان کے ساتھ ہمدردی رکھتیں تو وہ ان کے درمیان آسودگی محسوس کرتے۔ وہ شاید اسی باعث عورتوں کے حقوق کی بات کرتے۔ ایک نامور خاتون نے تو انہیں یعنی منو بھائی کو اعزازی خاتون بھی قرار دے دیا تھا۔ ناصر نقوی‘ صغریٰ صدف اور کچھ اور دوستوں نے بھی خیالات کا اظہار کیا۔ شجاعت ہاشمی صاحب نے مجھے بھی پکار لیا کہ شاعروں کی طرف سے نمائندگی کروں میں نے بھی منو بھائی کی سندس کے لئے دو چار اشعار پڑھ دئیے: ایک جگنو ہی سہی ایک ستارا ہی سہی شب تیرہ میں اجالوں کا اشارہ ہی سہی ہیں ابھی شہر میں ناموس پہ مرنے والے جینے والوں کے لئے اتنا سہارا ہی سہی ہم کو جلنا ہے بہر رنگ سحر ہونے تک اک تماشہ ہی سہی ایک نظارہ ہی سہی (ناصر جالب) کافی دوستوں سے ملاقات ہوتی ۔ طاہر سرور میر عرصہ بعد ملا‘ بابا نجمی‘ ناصر رانا اور دوسرے۔