نچلی منزل ڈوبنے کا جب نظارا دیکھنا اپنی منزل کے لیے پھر کیوں کنارا دیکھنا اب کے رونا بھی جو چاہیں رو نہیں پائیں گے ہم حال ہو گا اس سے آگے کیا ہمارا دیکھنا خدا جانے ہم کدھر جا رہے‘ کیا کر رہے ہیں۔ اپنا ہی کچھ پتہ ہے نا منزل کی کچھ خبر۔ ایک بے سمت ہجوم۔ پاکستان کے لوگ یقیناً افسردگی کے عالم میں ہیں کہ کچھ بھی محفوظ نہیں۔ میں تو دو تین دن سے دکھ اور تکلیف کی کیفیت میں ہوں کہ ہم دین کے کیسے خیر خواہ ہیں کہ دین کے لیے وجہ بدنامی بن رہے ہیں۔ ہمارا دین اپنی اساس میں سلامتی کا مذہب ہے۔ عدل و انصاف کا داعی ہے ۔ وہی جو آدمی کو انسان بنا کر اللہ سے جوڑنے آیا جس پر نبوت تمام ہوئی وہی جس کے باعث پوری دنیا شاد ہوئی جس کی سیرت شرف انسانیت‘ حق اور سچ کی تجسیم‘ رحمت کی صورت گری۔ ذرا حالی کو پڑھیئے۔ وہ نبیوں میں رحمت لقب پانے والا‘ مرادیں غریبوں کی برلانے والا‘ مصیبت میں غیروں کے کام آنے والا‘ وہ اپنے پرائے کا غم کھانے والا‘ خطا کار سے درگزر کرنے والا‘ آپ پڑھتے جائیے اور سر دھنستے جائیں کہ محسن انسانیت کا ایجنڈا کیا تھا۔ اور انقلاب آفریں پیغام کیا تھا۔ بنیادی بات ہے کہ ہمیں حضورؐ کی سیرت کے اس پہلو سے دور رکھا گیا جہاں انسان سازی ہوتی ہے۔ ہم نے حضور کی تعلیمات کو بھلا دیا تو اللہ کیسے یاد رہ سکتا تھا۔ یہ جو ظلمت و بربریت مذہب کے نام پر ہورہی ہے اس کا دین تو کیا انسانیت سے بھی کوئی تعلق نہیں۔ افتخار عارف نے بڑے سلیقے سے اشارہ کیا تھا: رحمت سید لولاک پہ کامل ایماں امت سید لولاک سے خوف آتا ہے وجہ اس کی یقیناً یہی کہ نہ تو مناسب تعلیم دی گئی اور نہ تربیت ہوئی۔ آپ مجھے کہنے دیجئے کہ خود فرقہ واریت نے یہ دن دکھائے کہ وہ دوسری جگہ پر خود کو محفوظ اور آسودہ نہیں سمجھتے۔ اس طرح آپس میں کھینچا تانی شروع ہوگئی۔ تم نے روکے محبت کے خود راستے اس طرح ہم میں بڑھتی گئی دوریاں۔ اللہ تو قرآن پاک میں اپنے دین کی بات کرتا ہے وہی مسلمین کا تذکرہ کرتا ہے۔ وہی مسلمین جو اللہ سے ڈرتے ہیں او رسول کریمؐ کی اطاعت کرتے ہیں۔ اس کے سوا سب کچھ باطل ہے کہ خدا نے خود کہہ دیا کہ اے محبوب ان سے کہہ دو کہ اگر تم اللہ سے محبت کرتے ہو تو میری اطاعت کرو۔ ہم تو کسی اور کام میں لگ گئے۔ حضور کی اطاعت سے مراد آپ کی تباع کرنا ہے۔ ہم تو کسی اور طرف نکل گئے اور خاص طور پر سود کے ضمن میں تو اللہ اور رسول کے اعلان جنگ کی بھی پروانہیں کی۔ ان دنوں فہم قرآن کی جسارت کی ہے تو جگہ جگہ قرآن حالات کی سچائی کھول کر رکھ دیتا ہے۔ ہماری ساری معاشرت میں اور معیشت میں۔ وہ تو کسی اور دنیا کا واقعہ لگتا ہے کہ امیرالمومنین سب کو سن رہے ہیں کہ ایک بچی ماں کو جواب دیتے کہہ رہی ہے کہ دودھ میں ملاوٹ کرکے اگر کوئی نہیں دیکھتا اللہ تو دیکھ رہا ہے۔ یہاں تو آنکھوں کے سامنے ملاوٹ ہوتی ہے۔ سچ مچ ہم اللہ سے نہیں ڈرتے۔ ہم تو اللہ کے احکام سے واقف ہی نہیں اور اپنی مطلب باری کے لیے مذہب کو بہانہ کرتے ہیں‘ ہم دہرے مجرم ہیں: کسے خبر تھی کہ لے کر چراغ مصطفوی جہاں میں آگ لگاتی پھرے تی بو لہبی سیالکوٹ کا واقعہ کہ جس میں پرنتھا کمارا کو مارنے کے بعد جلا دیا گیا۔ سفاکی اور درندگی کا استعارا ہے۔ کچھ شرپسندوں نے اپنے مفادات کے حصول کے لیے چندنا عاقبت اندیشوں نے ایک ایسا قبیح کام کیا پورے پاکستان کا سر شرم سے جھک گیا۔ پوری دنیا میں ہماری وطن کی رسوائی ہوئی اور دشمن کے اس بیانیے کو تقویت ملی کہ ہم بے رحم اور انتہا پسند ہیں۔ اسلام کا نام لے کر کسی کا بھی گلا کاٹ سکتے ہیں۔ ’’جانے کب کون کسے مار دے کافر کر کے‘‘۔ سب تماشائی بنے ہوئے ویڈیو بناتے رہے۔ ایک ملک عدنان نامی آدمی ہے جس نے پرنتھا کمارا کو بچانے کی کوشش کی جسے وزیراعظم کی طرف سے تمغہ شجاعت سے نوازا گیا ہے۔ اچھی بات ہے مگر جتنا نقصان ہو چکا اس کا ازالہ ممکن نہیں۔ تحقیق نے سب کچھ بتا دیا کہ پرنتھا کمار نو سال سے وہاں کام کرا رہا تھا۔ ایک ڈسپلنڈ آدمی تھا۔ کام کے لیے سختی اس کا شعار تھا۔ اس حوالے سے آپ بہت کچھ پڑھ چکے ہوں گے۔ وہ چند جو پکڑے گئے ہیں جنہوں نے اپنی دشمنی یا ناپسندیدگی کی تشفی کے لیے ہجوم کی مدد سے اسے مار دیا پوچھ گچھ کے عمل سے گزریں گے۔ کیمروں نے ان کے چہرے محفوظ کرلیے تھے۔ 13 ملزمان کا ریمانڈ منظور ہوا ہے۔ یہ کیس پوری دنیا کی نظر میں آ چکا ہے کہ ہم نے اپنے مہمان کے ساتھ کیا کیا۔ اس معاملے کو بڑی خوش اسلوبی سے ہی حل کیا جا سکتا تھا۔ مالکوں کے نوٹس میں لاتے۔ پولیس آتی مذاکرات ہو جاتے۔ معافی تلافی ہو جاتی مگر بدبخت تو اس قتل کے لیے تلے ہوئے تھے۔ اصل میں لوگوں کے پچھلے چند سالہ واقعات سے کافی شہ ملی ہوئی ہے کہ جب اجتماعی مسئلہ بن جائے تو سٹیٹ سرنڈر کر جاتی ہے۔ ہمارے رویے بہت عجیب و غریب ہیں۔ لوگوں کا یہ رویہ اچانک نہیں بنا۔ اصل میں انہیں کسی کا ڈر نہیں۔ آپ پیچھے دھرنوں کا دیکھ لیں کہ کیسے دھمکیاں دی جاتی تھیں اور اپنے ہاتھوں سے سرکاری اہلکاروں کو سزا دینے کی بات تھی۔ : یہ شہر سنگ ہے یہاں ٹوٹیں گے آئینے اب سوچتے ہیں بیٹھ کے آئینہ ساز کیا ہمیں بھی ایسے واقعات کے ایک طویل سلسلہ ہے۔ بہرحال ساری خرابی کے باوجود لوگوں کو کھلا آپشن نہیں دیا جا سکتا۔ قانون کی حکمرانی از بس ضروری ہے۔ ہمیشہ ہم کچھ دن شور مچاتے ہیں اور حکومت سنی ان سنی کرتی جاتی ہے اور کوئی اگلا سانحہ ہو جاتا ہے۔ تشدد کے انفرادی اور اجتماعی واقعات جوں کے توں ہیں۔ اب بھی مان لینا چاہیے کہ دین کی سمجھ اور سیرت سے آشنائی ضروری ہے۔ اس سانحہ کا باعث ہرگز ہرگز مذہب نہیں بلکہ مذہب سے دوری ہے اور جہالت ہے۔ ہماری حکومت اور اپوزیشن اچھا معاشرہ بنانے کی طرف توجہ نہیں دیتی اور اچھے معاشرے کی شاید انہیں ضرورت بھی نہیں۔شعیب بن عزیز کے شعر کے ساتھ اجازت: منسوب چراغوں سے طرفدار ہوا کے ہم لوگ منافق ہیں منافق بھی بلا کے