بگلا پکڑنے والی کہانی تو آپ نے سن رکھی ہو گی؟ ایک دوست نے دوسرے دوست سے کہا‘ آئوبگلا پکڑتے ہیں وہ کیسے پکڑیں گے؟ جھاڑیوں کے پاس بگلا ایک ٹانگ پر کھڑا مچھلی پکڑنے کے لئے متوجہ ہے‘میں آپ کو تھوڑی سی موم دیتا ہوں‘ موم پکڑو جھاڑی کی اوٹ میں بگلے کی نظر سے بچ کے قریب چلے جائو‘ موم کی ڈلی بگلے کے سر پر چپکا کر واپس آ جائو‘ ہم یہاں انتظار کریں گے۔بگلا مچھلی پکڑنے کے بعد جونہی اڑے گا دھوپ اور گرمی سے موم پگھل کر اس کی آنکھوں میں پڑے گی وہ موم آنکھوں میں پڑنے سے کچھ دیکھ نہیں سکے گا اور اندھا ہو کر گر پڑے گا‘ تو ہم بھاگ کر اسے پکڑ لیں گے‘ دوسرے دوست نے کہا اتنا تردد کرنے کی آخر کیا ضرورت ہے‘ اگر جھاڑیوں کی اوٹ میں چھپ چھپا کے بگلے کے قریب پہنچ گئے تو سر پر موم رکھنے کی بجائے اسی وقت پکڑ لیں گے‘ پہلے دوست نے بگڑ کر کہا‘ ایسا تو کوئی اناڑی بھی کر سکتا ہے مگر میری ذہانت اور منصوبہ بندی کے مطابق شکار کرنا‘ ایرے غیرے کا کام نہیں۔ سنا ہے ہمارے ’’ بھائیوں‘‘ نے بگلا پکڑنے والے منصوبہ ساز کو بلا بھیجا ہے کہ اس کی قیادت میں پاکستانی عبقریوں کا ایک آزمودہ گروہ ترتیب دیا گیا ہے‘ سارے منصوبہ ساز عبقری سر جوڑ کر بیٹھیں گے اور منصوبہ بنائیں کہ تین مرتبہ پاکستان کے وزیر اعظم رہنے والے نااہل نواز شریف کو پاکستان واپس لا کر سیاست میں متحرک کرنے اور عمران خاں کے مقابلے میں اتارنے کی خاطر‘ پہلے عمران خاں کو بھی الیکشن کمیشن کی مدد سے تاحیات نااہل کروا دیا جائے‘ جب عمران خاں بھی سیاست کے لئے تاحیات نااہل ہو جائے تو اس کے ساتھ سودا بازی کر کے دونوں کی نااہلی ختم کرنے کے لئے اسمبلی میں قانون سازی کر لی جائے‘ یوں ان دونوں کے ساتھ ساتھ ’’جھونگے‘‘ میں ’’ترین‘‘ صاحب کی نااہلی بھی ختم ہو جائے گی‘ نواز شریف کو واپس لانے‘ سیاست کے لئے اہل بنانے کے لئے سیدھی‘ سادی اور آسان تجویز پر عملدرآمد کی تیاری آخری مراحل میں ہے۔ نواز شریف پاکستان کی سیاست میں تسلیم شدہ حقیقت تھے لیکن آج وہ اتنے اہم ہرگز ہیں جتنے ظاہر کئے جا رہے ہیں‘الیکشن کمیشن کا فیصلہ اور اس کے اثرات کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا جا رہا ہے اور اسے نواز شریف کے لئے ایک توازن(بیلنس) کے طور پر پیش کیا جا رہا‘جس کی مدد سے ٹوٹے پھوٹے نواز شریف کو تازہ دم عمران خاں سے بھڑ جانے کے قابل بنا لیا جائے گا‘ معاملات اس طرح نہیں ہیں جس طرح دکھائے اور ظاہر کئے جا رہے ہیں نواز شریف ان کے لئے اتنے محبوب کب سے ہو گئے؟کہ اسٹیبلشمنٹ سارا وقت ان کے لئے سوچے اور سر دھڑ کی بازی لگا دے‘ اس ساری منصوبہ بندی کے اندر ایک منصوبہ ہے‘ ملفوف ہونے کے باوجود نامعلوم ہرگز نہیں‘ نواز شریف بگلا نہیں جھاڑی ہے جس کی اوٹ میں چھپ کر عمران خاں تک پہنچنا ہے‘ اس کو دبائو میں لاکر یا بہلا پھسلا کر راہ پر لانے کا مقصد نواز شریف کی گلو خلاصی نہیں ہے‘ نواز شریف آئے نہ آئے ان کی بلا سے یہ ’’بڈاوا‘‘ (مرا ہوا کوّا) انہوں نے کسی اور مقصد کے لئے لٹکا رکھا ہے‘ جو بات رات کو سونے نہیں دیتی دن کو بے چین رکھتی ہے‘ وہ دراصل امریکی انڈر سیکرٹری کی دھمکی بھرا وہ خط(سافر) ہے‘ جو پاکستان کے امریکہ میں مقیم سفیر نے بھیجا‘ جس کی حقیقت کو ہم چشموں کی موجودگی کے سبب تسلیم کرنا پڑا‘ اب وہ خط صدر پاکستان کی طرف سے لکھی گئی ایک تحریر کے ساتھ ‘سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کے پاس کمیشن بنانے کی خاطر مناسب وقت کے انتظار میں ہے اور ’’مناسب وقت‘‘ بھی زیادہ دور نہیں رہ گیا‘ اس کے کٹ جانے میں بھی محض تین مہینے ہیں‘چار ماہ کٹ گئے‘ تین بھی گزر ہی جائیں گے۔ ان تین مہینوں کے لئے عمران خاں نے نیا مشغلہ نکالا ہے‘ وہ خوش اور مسرور ہے‘ اندر ہی اندر لطف اٹھاتے مزہ لیتے ہوئے۔یہ پرانی بات ہے ان دنوں کی جب پانامہ پیپرز کے افشا کے بعد نواز شریف کے خلاف مقدمہ سپریم کورٹ میں زیر سماعت تھا‘ عمران خاں کے ہاں ہم چار لوگ دوپہر کے کھانے پر مدعو تھے خالد بھائی‘ طارق پیرزادہ‘ ہارون الرشید اور راقم الحروف ‘ عمران خاں کی مصروفیت زوروں پر تھی، لگتا تھا کہ اسے کان کھجانے کی فرصت نہیں ہے‘ مگر وہ تازہ دم ہشاش بشاش اور خوش نظر آ رہا تھا‘ کھانے کی میز پر خالد بھائی کے سامنے اپنی کرسی سنبھالتے ہی بلند آواز میں مخاطب ہوا ’’خالد بھائی‘ آج کل بڑا مزہ آ رہا ہے‘ بڑا مزہ آ رہا ہے‘ نواز شریف کی حالت دیکھ کر ان کے ہر روز نیا جھوٹ سن کر بڑا مزہ آ رہا ہے‘ خوشی چھپائے نہیں چھپ رہی تھی‘ ویسے وہ چھپاتا بھی نہیں‘ عمران خاں کو سیاست سے نابلد اور سادہ لوح سمجھنے والی غلطی شاید دور ہو چکی ہو‘ لیکن عمران خاں کو سب کی بے چینی اور ملفوف پیش کشوں کے پیچھے چھپے ہوئے اصلی مقاصد کی پوری خبر ہے‘ وہ دوستوں سے باتیں کرتا اور ان کے بے چینیوں سے لطف اٹھاتا ہے‘ اس نے اپنے لئے کارآمد اور اپنی پسندیدہ مصروفیت ڈھونڈ لی ہے‘ ڈھونڈی کہاں؟ خود چل کر آ گئی ہے‘ 9 قومی اسمبلی کے حلقوں میں انتخاب‘ ساری کے ساری سیاسی پارٹیاں اور اکیلا عمران خاں ہر حلقے میں ان کے سامنے‘ عوام ہے کہ اسے دیکھ دیکھ کر نہال ہوئی جاتی ہے‘ اس کی تقریروں سے جذبہ اور لطف کشید کرتے ہوئے‘ عوام اور عمران بمقابلہ ساری سیاسی جماعتیں اور بے بسی‘ سب سے دلچسپ حالت صحافت اور دانشوری کے پردے چھپے پٹواریوں کی ہے‘ جنہیں روزانہ کی بنیاد پر جھوٹ گھڑنا او رلکھنا پڑتا ہے‘ جھوٹ شائع ہوتا ہے اور اسی صفحے پر اس کی تردید بھی‘ کیا دلچسپ نظارے ہیں جو ہر روز دیکھنے‘ سننے اور پڑھنے کو ملتے ہیں۔فیصل آباد شہر کے انتخابی حلقہ نمبر 108سے بھی عمران خاں الیکشن میں اتریں گے‘ کل بروز جمعہ ان کے کاغذات نامزدگی جمع کروائے گئے ہیں‘ اسی شام حلقہ 108سے چند سابق بلدیاتی نمائندے میاں شفیق صاحب سے ملنے ان کے گھر آئے ہوئے تھے‘ ان دونوں نے تین چار دہائیاں چوہدری شیر علی کے ساتھ گزار دیں‘ پھر ان کے بیٹے کو بھی دو دفعہ قومی اسمبلی کا ممبر بنوایا‘ گزشتہ انتخاب میں ہارتے بھی دیکھا‘ بتا رہے تھے کہ اس بڑھاپے میں چوہدری شیر علی اور عابد شیر علی کی حالت دیکھی نہیں جاتی‘ گھر گھر معافی تلافی‘ منت ترلا‘ حتیٰ کہ رانا ثناء اللہ کے گناہوں پر بھی معافی اور شرمندگی لیکن حلقے کے لوگ ہیں کہ آنکھ نہیں ملاتے‘ فرخ حبیب مقابلے میں ہوتے تو کوئی مقابلہ بھی تھا‘ اب عمران خاں کے مقابلے میں گھر سے نکلنا بھی محال‘پرانے سے پرانے دوست اور کارکن ابھی سے کہتے ہیں عمران خاں مقابلے میں نہ ہو تو ہم حاضر ہیں‘ کوئی کہتا ہے‘ بچے نہیں مانتے‘ کوئی بولتا ہے‘ بیوی بیٹیاں بیٹے ایک دن پہلے سے دوسرے شہروں میں اس کا جلسہ سننے جاتے ہیں حالانکہ گھر میں اتنا بڑا ٹی وی رکھا ہے‘ گھر بھر کو ناراض کر کے عابد شیر علی کا ساتھ نہیں دے سکتے‘ بعض کہتے ہیں ناحق پیسہ ضائع نہ کرو اگلے انتخاب کے لئے بچا کے رکھو۔اسے بلا مقابلہ جانے دو اسی میں عزت ہے۔ان حالات میں ہو گا کیا؟