آٹے اور چینی کے مسائل پیدا ہوئے تو بہت سی سیاسی پیش گوئیاں شروع ہو گئیں، جس میں سب سے پر زور مارچ کے مہینے میں عمران خان کی حکومت کی رخصتی کی افواہ ہے۔ یہ افواہیں ختم نہیں ہو رہی ہیں، مولانا نے مارچ کے مہینے میں تحفظ دستور تحریک چلانے کا اعلان کیا ہے ۔ پہلے والی تحریک میں پاکستان کی دو اہم جماعتوں نے با دل نخواستہ سپورٹ کیا لیکن انکے دھرنے میں شریک نہیں ہوئے۔ اب مولانا نے تحریک کا نام ایسا رکھا ہے جو جمہوریت کی دعویدار مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کے لئے شاید قابل قبول ہو۔پتہ نہیں اس نام کے بارے میں انہوں نے ان جماعتوں سے مشورہ کیا ہے کہ نہیں۔لیکن اس سارے واویلے میں مہنگائی کا مسئلہ سب سے اہم ہوتا جا رہا ہے۔ اس میں کوئی شک بھی نہیں ہے ۔پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کے دلائل معاشی مشکلات کے حوالے سے درست ہو سکتے ہیں کہ انکی وجہ سے ڈالر مہنگا ہوا، افراط زر بڑھی جس کا براہ راست اثراشیاء کی قیمتوں پر پڑتا ہے۔لیکن اصل بات یہ ہے کہ ڈالر کی قیمت میں اضافے کے اثرات کن اشیاء کی قیمتوں پڑتے ہیں اور کس حد تک پڑتے ہیں یہ تو حکومت کو پتہ ہونا چاہئیے۔ حکومت کو یہ بھی پتہ ہونا چاہئیے کہ جب پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ ہوتا ہے یا ڈالر کی قیمت بڑھتی ہے تو پاکستان میں ہر کاروباری ادارہ اور شخص بھلے وہ سڑک پر مکئی کے بھٹے بیچ رہا ہو فوراً اشیاء کی قیمتیں بڑھا دیتے ہیں۔کسی حکومت نے آج تک کوشش نہیںکی کہ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں ردوبدل کے بعد کاروباری لوگوں کو مادر پدر آزادی نہیں ہونی چاہئیے کہ وہ اپنی مرضی سے تخمینہ لگا کر کسی بھی چیز کی قیمت اس بہانے خود ہی مقرر کر لیں۔ اس بارے میں کبھی کوئی میکانزم بنانے کی کوشش نہیں کی گئی۔ ہمارے ہاں مقامی طور پر بننے والی اشیاء کی پروڈکشن کی قیمت کا تخمینہ اور کس حد تک اس پر منافع لیا جا سکتا ہے اس بارے میںبھی کسی حکومت نے کوئی کام نہیں کیا۔صوابدیدی اختیارات کے تحت سرکاری ادارے قیمتوں کے تعین کا اگر اختیار بھی رکھتے ہیں تو اس میں تکنیکی معاملات کو نہیں دیکھا جاتابلکہ چہرہ یا کمپنی دیکھی جاتی ہے کہ اسکو کتنی قیمت پر مصنوعات بیچنے کی اجازت دی جائے۔اکثر اس قسم کے فیصلے صنعتکار کے حق میں جاتے ہیں جیسے کہ ہم نے کچھ ماہ قبل ادویات کی قیمتوں میں اضافے کے حوالے سے دیکھالیکن کبھی کبھار یہ قیمت صنعتکار کے حق میں نہیں ہوتی۔ حکومت کی بنیادی ذمہ داری ہے کہ وہ صنعتکار، تاجر کے ساتھ ساتھ صارف کا خیال بھی رکھے۔ہمارے ہاں سب سے مظلوم صارف ہے بھلے وہ امیر ہو یا غریب۔ آپ ایک ہی شہر میں ، خاص طور پر اسلام آباد جیسے،ہر دوسری مارکیٹ میں آپکو اشیائے ضرورت کی قیمتوں میں اتنا فرق ملے گا کہ آپ سر پکڑ کر بیٹھ جائیں گے۔ ایک گروسری سٹور سے اگر آپ مہینے کا سامان دس ہزار میں خرید رہے ہیں تو کسی اور جگہ سے (منحصر ہے کہ آپ کونسے سیکٹر سے خریداری کر رہے ہیں) یہی سامان آپکو بارہ ہزار میںملے گا اور شاید ایف سیکٹر کے سٹور سے یہی سامان پندرہ ہزار میں ملے۔اسی طرح سے سبزی اور فروٹ جو کہ مجھے خود بھی ہفتہ وار پالا پڑتا ہے۔ عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ قیمتوں کا یہ تفاوت صرف اس وجہ سے ہے کہ حکومتی مشینری جس نے ان قیمتوں میں استحکام یاتوازن رکھنا ہوتا ہے وہ بالکل کام نہیں کر رہی۔ صرف ایپ بنا کر لوگوں کو بیوقوف بنایا جا رہا ہے۔ لوگوں کو ہی نہیں اس ہائی ٹیک پاکستان تحریک انصاف حکومت کو بھی الو بنایا جا رہا ہے۔ حکومت کے انتظامی امور کے ذمہ دار تمام افسران ٹوئٹر اکائونٹس پر بہت ایکٹو ہیں اور اسکے ذریعے اپنی کارکردگی کا ڈھول بجائے جا رہے ہیں۔ حکومت کا سیاسی بازو اسکو دیکھ دیکھ کر سر دھن رہا ہے کہ واہ کیا کام ہو رہا ہے۔ اشیاء کی قلت سونے پر سہاگہ، لیکن بھلا ہو آٹا کی قلت اور چینی کی قیمت کا حکومت کو احساس ہوا ہے کہ یہ بھی کوئی کام ہے ۔جب ملک میں اشیاء کی قلت ہوتی ہے تو عوام اور خواص سب اس سے متاثر ہوتے ہیں۔ میکرو اکنامک استحکام پر عمران خان کی حکومت اس قدر منہمک ہو گئی تھی اس بارے میں انہوں نے سوچنا ہی چھوڑ دیا تھا۔اب اگر سوچنا شروع کر ہی دیا ہے تو لگے ہاتھوں قیمتوں کو ریگولرائز کرنے کے لئے مستقل بندوبست کی کوئی سبیل ہونی چاہیئے۔وقتی اقدامات سے مہنگائی اور اشیاء کی قلت کو نہیں روکا جا سکتا۔ اسکے لئے ایک منظم کاوش کی ضرورت ہے۔ موجودہ انتظامی ادارے بھی اس میں معاون ہو سکتے ہیں لیکن اس کیلئے اگر کوئی نیا ادارہ بھی تشکیل دینا پڑے تو کوئی ہرج نہیں ہے۔ جیسا کہ شروع میں عرض کیا کہ اجناس اور مصنوعات کی قیمتوں کے تعین کے حوالے سے حکومت کو تمام تکنیکی معاونت لینی چاہیئے۔ ایسا ادارہ ہو جو ڈیٹا کی بنیاد پراجناس اور مصنوعات کی تیاری کے حوالے سے تمام ان پٹ کاسٹ سے آگاہ ہو۔اسکے مارکیٹ میں پہنچنے تک اس پر آنے والی لاگت کا تخمینہ درست ترین لگایا جا سکتا ہے جس کے بعدایک معقول منافع شامل کر کے حکومت قیمت کا تعین کر دے اور انتظامی مشینری کے ذریعے اس بات کو یقینی بنائے کہ ایک مقررہ قیمت سے زیادہ کوئی دکاندارنہ بیچے۔یہ طریقہ کار کم از کم مقامی مصنوعات اور اجناس کی قیمتوں کے حوالے سے قابل عمل ہے۔ اسکے علاوہ دنیا بھر سے اشیاء کی قیمتوں کا تعین اور اسکو برقرار رکھنے کے حوالے سے تجربات سے فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے۔سب سے اہم یہ کہ اگر پٹرولیم مصنوعات اور ڈالر کی قیمت میں اضافے کے بعد اشیاء ضروریہ کی قیمتیں بڑھتی ہیں تو انکی قیمتوں کے ساتھ اشیاء کی قیمتوں میں اسی تناسب سے کمی کو بھی یقینی بنایا جائے۔ ایک آخری بات، مہنگائی کی اس لہر سے سب سے زیادہ متاثر تنخواہ دار طبقہ ہو رہا ہے کیونکہ انکی تنخواہوں میں اس قدر اضافہ نہیں ہوا جتنا افراط زر میں ہوا ہے۔ اس لئے کم از کم حکومت سرکاری ملازمین کو تو اس مد میں ریلیف دیدے بھلے عارضی ہی سہی۔