جب طاہر القادری اپنا دھرنا سمیٹ کر چلے گئے تو عمران خان اکیلے رہ گئے۔ اس کے بعد کنٹینر کے سامنے چند کرسیاں جن پر سرشام کچھ لوگ آ کر بیٹھ جاتے عمران کی تقریر کے درمیان موسیقی پر بے ڈھنگا سا ڈانس کرتے اور گھروں کو رخصت ہو جاتے۔ عمران خان دھرنے کے ذریعے حکومت گرانے کا خواب لے کر آئے تھے۔ اسمبلیوں سے مستعفی ہونے‘ سرحد اسمبلی توڑنے کی دھمکی اور امپائر کی انگلی جو ان کی سیاست کا استعارہ بن گئی تھی کا انتظار کرتے رہے۔ پھر پشاور میں آرمی پبلک سکول کے سانحہ کے بعد یہ دھرنا اس طرح ختم ہوا جیسے تھا ہی نہیں۔ اس کے نتیجے میں ایک عدالتی کمیشن بن گیا جس کے لئے نواز شریف پہلے ہی تیار تھے اور اس کمیشن کی رپورٹ میں بھی انتخابات میں کوئی منظم دھاندلی ثابت نہ ہو سکی۔اس سوال پر آج تک بحث ہوتی ہے کہ کیا یہ دھرنا عمران کی غلطی تھی۔ لیکن سچ تو یہ ہے کہ یہ دھرنا ان کی کامیابی کا دیباچہ بن گیا۔126روز تک انہوں نے تقریروں کے ذریعے اپنا پیغام پاکستان کے ہر گھر تک پہنچا دیا۔تبدیلی کا جو خواب انہوں نے دھرنے کے دوران دکھایا 2018ء کے انتخابات کے نتیجے میں اس کی تعبیر پا لی۔آج وہ ڈھائی سال سے پاکستان کے وزیر اعظم ہیں۔ شاید وہ اس اعتبار سے خود کو خوش قسمت سمجھ رہے ہوں کہ اسی دوران پاکستان کی مقتدر قوتیں ان کی پشت پر کھڑی رہیں حکومت کے لئے سب سے بڑا چیلنج بننے والی پی ڈی ایم اپنی پیدائش کے پانچ ماہ کے اندر ہی ایک بھیانک انجام سے دوچار ہو گئی۔ لیکن پی ٹی آئی کی صفوں میں ابھرتے اختلافات نے جہاں عمران کے سامنے مختلف سوالات کھڑے کر دیے ہیں وہاں مہنگائی کے سونامی نے عمران حکومت کی مقبولیت کو ایک بہت بڑی شکست و ریخت سے دوچار کر دیا ہے۔ مہنگائی میں ہوشربا اضافے نے حکومت کی تمام پالیسیوں‘تدبیروں اور ترکیبوں پر پانی پھیر دیا ہے۔ذرا غور کیجیے اگر آپ مہنگائی کے معنی تلاش کریں تو لگتا ہے کہ مہنگائی درحقیقت ایک علامت ہے۔ کوئی بھی چیز اس وقت مہنگی ہوتی ہے جب منڈی میں اس کی کمی ہو جائے اور اس چیز کی مانگ اور اسے لینے والوں کی تعداد میں کمی نہ ہو جیسے ہی اس چیز کی سپلائی میں اضافہ ہوتا ہے اس کی قیمت نیچے کی طرف کھسکنے لگتی ہے پوری دنیا کا یہ نظام یونہی چلتا آیا ہے اور چلتا رہے گا حکمران کتنی ہی طرم خانی کر لیں اور معاشیات کے ماہرین کتنی ہی ترکیبیں بیان کر دیں آخرکار نتیجہ یہی نکلتا ہے کہ بازار کو اس کے فطری انداز میں چلنے دیا جائے طلب اور رسد کا توازن خراب نہ ہو۔ مہنگائی ہو تو حکومت رسد کی طرف دوڑے اور قیمت منڈی پر چھوڑ دے۔اگر حکومت اپنی اس مدت میں معیشت کے اس بنیادی چلن کے متعلق سمجھ چکی ہوتی تو اس کا طرز عمل یہ نہیں ہوتا جو آج ہے یہ سراسر نالائقی ہے۔طلب اور رسد کا معاملہ سمجھنے کے لئے آپ کو ایک گھنٹہ اور اوسط درجے سے بھی کم عقل درکار ہے اگر حکومت کے کسی بقراط کے پاس اتنی سوجھ بوجھ ہوتی تو تین سال اس صورتحال کو بہتر کرنے کے لئے کافی تھے۔ گندم کی مثال لیجیے اسلام آباد‘ لاہور اور پشاور میں حکومت کے نادان کھلنڈروں کو اس حقیقت کا علم تو ہو گا کہ پاکستان میں ہر سال دو لاکھ 60ہزار ٹن گندم استعمال ہوتی ہے۔ جولائی کے مہینے میں جب ان لوگوں کو حکومت ملی تھی ،اس وقت گندم کی کاشت کو چار سے پانچ ماہ باقی تھے۔ اگر کوئی ہوشیار معاشیات دان ہوتا تو وہ اخبارات کے تجارتی اور معاشی صفحات پڑھ کر یہ سبق سیکھ سکتا تھا کہ آئندہ سال بوائی کے لئے کتنی گندم درکار ہے اگر تھوڑی بہت کمی بیشی ہوتی تو وہ پچھلے سال کی ہمارے اسٹاک میں موجود تھی۔ افلاطون کی حکمت عملی دیکھئے کہ نئی گندم آنے سے پہلے پچھلی گندم بیچ ڈالی گئی اور ایسا بحران پیدا کیا جو اب تک ختم ہونے کا نام نہیں لے رہا۔ چینی کو لے لیجیے ان لوگوں نے اپنی کوتاہ بینی کی وجہ سے سبسڈی اور ایک مسئلہ بنا دیا اور اس کی ٹکٹکی سے جہانگیر ترین کو باندھ دیا اور اپنے نالائق بیورو کریٹوں سے اس کی تحقیق شروع کرا دی۔ حکومت کی یہ ٹیم جہانگیر ترین کا تو کچھ سکی۔چینی کی صنعت کو برباد کر دیا۔انہوں نے غلط اعداد و شمار جھوٹ اور فریبی باتیں کر کے ایک ایسا کرائسس پیدا کر دیا جس کی سزا پوری قوم بھگت رہی ہے۔ اور آئی ایم ایف نے آنکھیں ماتھے پر رکھ لیں۔ لکھ لیں کہ توانائی سیکٹر میں ہم جس پالیسی پر عمل کر رہے ہیں اور اندھا دھند بجلی کی قیمت بڑھا رہے ہیں وہ دن دور نہیں جب بجلی کا عام بل امریکہ سے اوپر چلا جائے گا اور اس مد میں آمدنی کے حوالے سے پاکستان بنگلہ دیش سے بھی پیچھے رہ جائے گا۔حکومت میں آنے سے پہلے اسد عمر ٹیکس نیٹ کو بڑھانے کا دعویٰ کر رہے تھے اور انگلیوں پر گن گن کر ٹیکس چوری کے اہداف کی نشاندہی کر رہے تھے۔لیکن حکومت میں آنے کے بعد اب پورے ٹیکسیشن نظام پر ایک عمیق نظر ڈال لیں حکومت اس وقت 2500ارب روپے پٹرول پر لیویز کی مد میں جمع کرتی ہے اور عام لوگوں کی ضرورت کی ہر اس چیز جس میں بجلی اور پٹرول شامل ہے ان کی قیمتیں بڑھا کر عام آدمی کی قوت خرید کو کم و بیش تحلیل کرتی جا رہی ہے، اسی لئے مہنگائی اور بے روزگار میں بڑی تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے ،جو باعث تفتیش ہے۔