ٹی وی سکرین پر فواد چوہدری کو دیکھ دیکھ آنکھیں بوجھل ہو گئی ہیں۔ فرما رہے ہیں کہ احتساب کے عمل میں مزید تیزی آئے گی، نواز اور زرداری کا لوٹا ہوا پیسہ قرض اتارنے میں مددگار ہوگا۔ ایک معصوم سا آدمی حیرت سے مجھ سے پوچھنے لگا کہ کیا فواد چوہدری سچ فرما رہے ہیں؟ اس سادگی پر کون نہ مر جائے اے خدا۔ انہوں نے یہ بھی فرمایا کہ کرپشن پر نرمی دکھائی تو یہ ووٹرز سے غداری ہوگی مگر ساتھ ہی اس وضاحت کی کیا ضرورت ہے کہ وزیراعظم سچے عاشق رسولؐ ہیں: بے یقینی کی بات کیا کرتے مسئلہ پر یقین کا تھا ہی نہیں بات مگر تبدیلی کی تو ضرور ہوگی کہ اب تبدیلی محسوس بھی ہونے لگی ہے۔ خاص طور پر میرے جیسے لوگوں کو جنہوں نے باقاعدہ فیملی سمیت سب نے تبدیلی کو ووٹ دیئے۔ ہوسکتا ہے اس میں حکومت کا بھی کوئی قصور نہ ہو اور یہ ساری عدد کی سازش ہو مگر جو کچھ سامنے آ رہا ہے وہ کچھ زیادہ خوش کن نہیں۔ وہ لوگ جو تنخواہ پیشہ ہیں۔ پریشان اور بے بس دکھائی دیتے ہیں۔ یوٹیلیٹی بلوں سے لے کر روزمرہ کی اشیا تک وہ باقاعدہ ایک شکنجے میں کسے جا رہے ہیں۔ اان کے بینک میں پڑے پیسے بھی محفوظ نہیں رہے۔ ایک عجب بے سکونی اور بے برکتی سی نظر آ رہی ہے۔ بجلی اور گیس کے بلوں پر لوگ بلبلا رہے ہیں۔ پٹرول کے مہنگا ہونے سے ہر چیز کے نرخ بڑھ گئے ہیں۔ تازہ خبر یہ کہ پٹرولیم میں اضافہ کے باعث ریلوے نے 25 نومبر سے پانچ سے سات فیصد کرایوں میں اضافے کا فیصلہ کیا ہے۔ بجلی کی سبسڈی ختم ہونے سے 2 کروڑ 53 ہزار صارفین متاثر ہوں گے۔ اربوں روپے کا بوجھ بیٹھے بٹھائے صارفین پر پڑے گا۔ ہر طرف سے عوام پر شکنجہ کسا جارہا ہے اور ساتھ ساتھ دل جلانے والا بیان بھی داغا جارہا ہے کہ اس سے عام آدمی متاثر نہیں ہوگا۔ پتہ نہیں وہ عام آدمی چاند پر رہتے ہیں یا مریخ پر۔ افسوسناک بات تو یہ ہے کہ سب کچھ مہنگا کرنے کے بعد اور سعودیہ اور چین سے پیکجز لینے کے بعد ہم سمجھتے تھے کہ آئی ایم ایف کے منحوس سائے شاید ہٹ جائیں مگر نہیں صاحب پیاز بھی کھانے پڑیں گے۔ آئی ایم ایف کے ساتھ نشستیں شروع ہو گئی ہیں۔ ان مذاکرات کی کامیابی کے بعد عوام کی پشت پر مزید مہنگائی کے تازیانے لگیں گے۔ اب ہمارے کچھ ٹائیگر دوست میرے کالم سے یہی سمجھیں گے کہ میں پی ٹی آئی کے خلاف لکھنے لگا ہوں۔ قبلہ حقیقت بتانا میرا فرض ہے۔ ڈاکو چور تو آپ کے قابو نہیں آتے، آپ نے بے چارے عوام پر ہی کاٹھی رکھ دی ہے۔ جائیں تو کدھر جائیں۔ یہ انتخاب تو خود ہمارا ہے: الجھا ہے پائوں یار کا زلف دراز میں لو آپ اپنے دام میں صیاد آ گیا یقینا کہیں گے کہ ایسی تبدیلی کے لیے کچھ قربانی تو دینا پڑتی ہے۔ ظاہر ہے ویسے بھی ہمیشہ ہی سے عوام ہی قربانی دیتے آئے ہیں۔ قربانی تو ہمیشہ بکرا ہی دیتا ہے اور وہی چھری کے نیچے آتا ہے۔ تاجر طبقہ کا عیش ہے آپ لاکھ ٹیکس لگالیں، انہوں نے وہ ٹیکس صارف پر ڈال دینا ہے بلکہ کچھ ٹیکس اپنا بھی اس میں شامل کردینا ہے۔ مزدور اپنی دیہاڑی بڑھا دے گا مگر وہ جو سفید پوش ہے وائٹ کالر والا، وہ کیا کرے گا۔ وہ تو لگی بندھی تنخواہ لیتا ہے۔ خاص طور پر جو تاجر کے پاس پرائیویٹ ملازم ہے جو آٹھ گھنٹے کی بجائے 12 سے 14 گھنٹے کام کرتا ہے وہ اگر مالک سے مطالبہ کرے گا تو اسے باہر کا راستہ دکھا دیا جائے گا۔ وجہ یہ کہ بیروزگاری اس قدر ہے کہ کم تنخواہ پر کوئی اپنا پائوں ادھر ٹکالے گا۔ اس کے ساتھ امن و امان کا مسئلہ بھی تکلیف دہ ہے۔ حالیہ احتجاج میں جو کروڑوں روپے کا نقصان ہوا ہے وہ بھی عوام پر ہی تقسیم ہوگا۔ وہ لوگ تو بدقسمت ٹھہرے جن کی گاڑیاں اور موٹرسائیکل نذر آتش کردیئے گئے۔ اگر ہم ایسے ہیں تو حاکم کیسے ہوں گے۔ میں سمجھتا ہوں کہ ملک کا اس سے بڑا دشمن کوئی نہیں جو ملک کی املاک کو نقصان پہنچاتا ہے۔ لوگوں کی گاڑیوں کا نقصان بھی قومی نقصان ہے۔ تخریب کاروں کو یقینا عبرت کا نشان بنا دینا چاہیے۔ کچھ ایسے قرائن ہیں کہ جوتکلیف دہ ہیں۔ مثلاً میں فواد چوہدری کی ترجیحات سن رہا تھا جس میں فلم، ڈرامہ اور میوزک سرفہرست ہے۔ مزید یہ کہ انہوں نے فرمایا کہ فلم والے اتنی سرمایہ کاری کرتے ہیں اور سنسر والے بڑے آرام سے سین سینسر کردیتے ہیں۔ وہ کہہ رہے تھے کہ وہ یہ آزادیاں دیں گے۔ پتہ نہیں یہ سب کچھ اسی حکومت میں کیوں ہورہا ہے۔ میں پی ٹی آئی کی عاصمہ حدید کی منطق سن رہا تھا جس نے یہودیوں کے ساتھ راہ استوار کرنے کے بارے میں لیکچر دیا اور ایک اپنی ہی انٹرپٹیشن کرڈالی ۔ نہ جانے اسرائیل سے پینگیں بڑھانے کا معاملہ کیا ہے۔ کہنا میں یہ چاہتا ہوں کہ نہ جانے کیوں عوامی مسائل سے ہٹ کر متنازع مسائل کی طرف توجہ کیوں دی جا رہی ہے۔ یقینا پی ٹی آئی والے اس کو ایک پراپیگنڈا ہی کہیں گے مگر سوچیں گے نہیں۔ ان کی ترجیحات میں عوامی مسائل کو حل کرنا ہونا چاہیے۔ آپ خود اپنی ادائوں پر ذرا غور کریں ہم اگر عرض کریں گے تو شکایت ہوگی لوگ تو آپ سے ریاست مدینہ کی امید لگائے بیٹھے ہیں جس کا وعدہ خان صاحب بار بار کراچکے ہیں۔ دی یونیورسٹی آف فیصل آباد میں رحمت العالمین کانفرنس میں اسی نکتہ پر زور دیا گیا کہ ریاست مدینہ کو بنیاد بنانے تک فلاحی ریاست نہیں بن سکتی۔ عشق مصطفی کے بغیر ایمان مکمل نہیں۔ یہ چراغ جلے گا تو روشنی ہوگی۔ پاکستان مدنی ریاست میں بدلے گا تو سکون نصیب ہوگا۔ اس وقت سیرت النبیؐ کی ترویج میں مسئلہ کا حل ہے۔ آپؐ کے اسوہ ہی کو اجاگر کرنا ضروری ہے۔ ایسی متبرک کوششوں سے ہدایت کی ہوائیں چلیں گی۔ میاں حنیف صاحب کی منعقد کردہ کانفرنس کا پڑھ کر دل خوش ہوا اور ایک آرزو دل میں پیدا ہوئی کہ اے کاش مجھے بھی مدعو کیا جاتا اور ہم اس متبرک محفل سے خوشبو بار ہوتے اور کچھ آنکھوں دیکھا حال لکھتے۔ میں سمجھتا ہوں کہ فیصل آباد یونیورسٹی لاہور کیمپس ایک ایسا پلیٹ فارم ہے جس سے نظریہ پاکستان کو زندہ رکھا جاسکتا ہے اور بھارتی ثقافتی یلغار کو روکا جا سکتا ہے اور خاص طور پر لبرل ازم کی ہوا کے سامنے بند باندھا جاسکتا ہے۔ آخر میں حفیظ تائب کی نعت کا ایک شعر کہ اس شعر کی روح ہی ہمیں درکار ہے: خوشبو ہے دو عالم میں تری اے گل چیدہ کس منہ سے بیاں ہوں ترے اوصاف حمیدہ