ان دنوں گھسے پٹے لطیفے بھی کیسے نئے اور تازہ لگنے لگے ہیں۔ ایک شخص نیکر پہن کر بیری سے بیر اتار رہا تھا۔ کسی نے پوچھا ’’جناب! کیا ہو رہا ہے‘‘ بولے زندگی میں دو ہی کام کیے ہیں ‘ اچھا پہننا اور اچھا کھانا‘‘ بیر کو چھوڑیے اب تو کھیرے کی اہمیت کس قدر بڑھ گئی ہے۔ حالانکہ ایک مرتبہ ایک شخص نے کھیرا پھانکوں میں کاٹ کر پاس بیٹھے ہوئے لوگوں میں بانٹ دیا اور خود آرام سے ایک طرف ہو کر بیٹھ گیا۔ ایک دوست نے کہا ’’یار تم خود کھیرا کیوں نہیں کھا رہے؟‘‘ اس نے ترت جواب دیا یہ کوئی بندے کھاتے ہیں؟‘‘ نہیں صاحب اب کے ایسا نہیں ہے مجھے کھیرے کی اہمیت اور قدر اس وقت پتہ چلی جب سلاد کے لئے کھیرا خریدا تو وہ 80 روپے کلو تھا۔ آپ اندازہ کریں ماضی قریب میں 80روپے کی سبزی آ جاتی تھی آپ بھی کہتے ہونگے کہ میں کیا قصہ لے بیٹھا جبکہ اس وقت عمران خاں یو این جا رہے ہیں دوسرے لفظوں میں یہ چھوٹے چھوٹے مسائل کیا اہمیت رکھتے ہیں۔ ہم مگر کیا کریں چھوٹے لوگوں کے بڑے بڑے مسائل یہی ہیں۔ مجھے بتائیے کہ ہم کہاں جائیں کہ روزانہ کی بنیاد پر چیزیں گرانی کی طرف جا رہی ہیں لوگوں کے مسائل آخر کون حل کرے گا۔ بڑی ڈبل روٹی جو خان صاحب کے آنے سے پہلے 60روپے کی تھی پہلے وہ 80روپے کی ہوئی اور اب 100روپے کی۔ اسی طرح دوسری اشیائے صرف میں اضافہ ہو رہا ہے۔ لے دے کے کبھی اعلان کر دیا جاتا ہے کہ گھی میں 10روپے یا 15روپے کم کرنے کا اعلان۔یہ اونٹ پر سے تنکا اتارنے والی بات ہوتی ہے۔ واشنگ پائوڈر کا پتہ چلائیں تو آپ کے ہوش ٹھکانے آ جائیں چینی مہنگی ہوئی تو آسمان سر پر اٹھا لیا گیا تھا۔ اب چینی 75روپے کلو ہے۔ سرکار کوبھلا اس مہنگائی سے کیا سروکار ۔میں نہیں کہتا کہ یہ خان نے جان بوجھ کر کیا کیونکہ میرا موقف تو اس کے بارے میں یہ رہا ہے کہ وہ اگر چاہے بھی تو بددیانتی نہیں کر سکتا۔ مگر جب ہوا کمزور ہو کر اوپر اٹھتی ہے تو اس کی جگہ لینے کے لئے اردگرد سے ہوائیں رش کرتی ہیں تو بگولہ بن جاتا ہے۔ کچھ اسی طرح سے پانیوں میں بھنور پڑتے ہیں جو بعض اوقات اتنے خطرناک ہوتے ہیں کہ نائو ڈبو دیتے ہیں۔ خان کے رتن آہستہ آہستہ کھل رہے ہیں۔ ایک زمانے میں ہمارے ساتھ ایک بزرگ استاد مشاعرہ پڑھا کرتے تھے ان کا ایک شعر مجھے کبھی نہیں بھولا: خطائوں کی چبھن فوراً کہاں محسوس ہوتی ہے ندامت کی طرف آتا ہے دل آہستہ آہستہ مگر کیا کیا جائے کہ جس نے کی شرم اس کے پھوٹے کرم۔ احساس ندامت تو اللہ کا انعام ہے اور نیک سرشت لوگوں کا خمیر اور ضمیر ۔ آپ ذرا فیاض الحسن چوہان کے بیٹے کا معاملہ ہی دیکھیں کہ کیا کیا موشگافیاں کی جا رہی تھیں اس معاملے پر پردہ ڈالنے کے لئے۔ آخر ہیڈ ایگزامینر نے بھانڈا ہی پھوڑ دیا۔ 14نمبروں کو بڑھا کر 30کئے گئے دستخط بھی ہوئے اور سب ایگزامینر نے اتفاق بھی کر لیا۔ اب سب سے دلچسپ بلکہ مضحکہ خیز بات یہ ہے کہ دیکھا جا رہا ہے یا سراغ لگایا جا رہا ہے کہ یہ نمبر ایگزامینر نے خود بڑھائے یا دبائو میں آ کر سبحان اللہ۔ میرا تعلق بھی ایجوکیشن سے رہا ہے۔ یہ ساری باتیں ایک مذاق کے سوا کچھ نہیں۔ پرچے پر فکٹیشیئز نمبر ہوتے ہیں۔ ایگزامینر کو کوئی خواب آیا تھا یا کوئی اس کے پاس علم کشف ہے۔ سب کچھ چل رہا ہے اوروں کو نصیحت خود میاں فصیحت ’’ہوئے تم دوست جس کے دشمن اس کا آسماں کیوں ہو‘‘ کیسے کیسے نابغے خان کو ملے ۔ سارے علامے اور الہامے۔ ایک فواد چودھری ہیںجو آخر کار ایک سائنس دان بن بیٹھے اور اس نے عید کے چاند کیلنڈر سے خوب شہرت پائی ۔ انتہائی سنجیدہ موضوعات پر مزاحیہ باتیں کرتے ہوئے فیصل واوڈا سمیت کیسے رتن ہیں۔ تقریریں سنیں تو جیسے یہ چاند پر پیوند لگا کر آتے ہیں، یا تارے توڑ کے لاتے ہیں۔ لیکن صرف چاند سے کھیلنے والے لاڈلے۔ مجھے دلچسپ بات یاد آئی کہ ہمارے دوست انور ملک جو کہ خاصے لحیم یعنی موٹے تھے انہوں نے ایک مشاعرے میں جب یہ شعر پڑھا: تارے توڑ کے آئوں گا امبر سے لیکن آنے جانے میں کچھ دیر لگے گی میں پاس سے بول پڑا ’’دیر تو پھر لگے گی‘‘ بس پھر کیا تھا، محفل کشت زعفران بن گئی۔ یہ بھی سارے ایسے ہی ہیں کہ آسمان کو پیوند لگانے والے اور تارے توڑ کے لانے والے کوئی زمینی کام ان کے قابو کا نہیں۔ زمینی حقائق سے یکسر نابلد۔ اصل میں ان کے پاس ٹارگٹ ہی بہت بڑے تھے کہ کروڑ نوکریاں ‘ پچاس لاکھ گھر اور اربوں درخت ان کاموں کے لئے الہ دین کا چراغ مل نہ سکا۔ کسی نے درست ہی تو لکھا کہ ’’نواب آف سبز باغ‘‘ کہتی ہے تجھ کو خلق خدا غائبانہ کیا ’’اب اور کچھ نہیں تو بلدیاتی الیکشن کا ڈول ڈالا جا رہا ہے۔ یہ بھی ایک اچھی حکمت عملی ہے لوگوں کو کسی نہ کسی طرف لگائے رکھو۔ یہی کچھ آخر کار ن لیگ نے کیا تھا مگر حرام ہے کہ بلدیاتی الیکشن میں ساری پونجی لگانے والوں کو کبھی کوئی اختیار ملا ہو۔ باقی کام بھی اسی حکمت عملی کے تحت ہیں۔ فلاں پہ پابندی لگا لواور پھر کچھ عرصہ بعد پابندی اٹھا لو اور تو اور مزدوروں کو تنگ کرنے سے بھی نہیں چوکے، اور سرمایہ داروں کو فری ہینڈ دینے کے لئے فیکٹریوں کا دورہ کرنے والے انسپکٹرز پر پابندی لگا دی گئی۔ وہ بات کہ کسی کو سکھ کا سانس نہ آنے دو۔ کبھی انڈے نکالنے اور کبھی مرغیاں پالنے کی بات‘ اب ایک اورمسئلہ درپیش ہے کہ نمک اس قوم کا مقدر بدل سکتا ہے۔ انڈیا کا نمک بند کر کے قرضے اتار سکتے ہیں وغیرہ وغیرہ، ہر بات پر ہنسی آتی ہے یہاں تو جو بھی نمک کی کان میں گیا نمک ہو گیا۔ اس سے پہلے کوئلوں کی دلالی تھی خدا کے لئے کوئی کرنے والی بات کریں۔ ابھی تو آئی ایم ایف کو جواب دینا ہے ۔ مقصد یہ ہے کہ وہ چیخیں جو مہنگائی نے نکلوائی تھیں! اب وہ بھی نہیں نکلیں گی۔ چلیے طفیل ہوشیار پوری کا ایک اچھا شعر یاد آیا: خشک آنکھوں سے عمر بھر روئے ہو نہ جائے کسی کی رسوائی بہرحال یہ خزاں کا موسم ہے پت جھڑ عروج پر ہے۔ شہباز گل مستعفی ہو چکے‘ وزیر اعلیٰ کے مشیر عون چودھری بر طرف، عوام کی امیدیں بر نہ آئیں کہ وہ آخری پتہ نہیں گرے گا کہ اسے پینٹر نے پینٹ کر رکھا ہے ایک شعر کے ساتھ اجازت: خود ہی روئیں گے ہمیں پڑھ کے زمانے والے ہم بھلا رنج و الم پاس کہاں رکھیں گے