مہنگائی اب ایک ایسا جن بن چکی ہے جو کسی بھی عامل سے قابو میں نہیں آ رہی۔ اب سستی سبزیاں عوام کے لئے خواب و خیال بن کر رہ گئی ہیں۔ جب عام ضرورت کی اشیا عام آدمی کی پہنچ سے باہر ہو جائیں تو تسلیم کر لینا چاہیے کہ مہنگائی ہو گئی ہے۔ٹماٹر ‘ آلو‘ پیاز تو ایسی سبزیاں ہیں جو ہر امیر اور غریب کے گھر کی ضرورت ہیں لیکن اب یہ عام آدمی کی پہنچ سے باہر ہو چکی ہیں۔ ان کے علاوہ دیگر کئی سبزیاں تو ایسی ہیں کہ وہ پہلے ہی غرباء کی پہنچ سے باہر ہو چکی تھیں۔ اتوار بازار اسی لئے بنائے گئے تھے کہ مہنگائی کے عفریت پر قابو پایا جا سکے لیکن وہ کسی طور بھی عوام کو ریلیف دینے میں ناکام ہو چکے ہیں۔منڈیوں اور اتوار بازاروں میں اگر ٹماٹر 200روپے کلو تک فروخت ہو رہے ہیں تو عام بازار میں ان کی قیمت تین سو روپے سے بھی زائد ہو چکی ہے۔ حتیٰ کہ بعض سبزی فروش تو ہری مرچیں اور ہرا دھنیا بھی اب قیمتاً دیتے ہیں جو سبزی خریدنے پر اضافی طور پر دے دیا جاتا تھا، جب عام آدمی کے استعمال کی عام اشیاء کے نرخ آسمان سے باتیں کرنے لگ جائیں تو حکومتی وزراء کو بھی چاہیے کہ وہ آسمان سے زمین پر اتر آئیں اور زمینی حقائق کا سامنا کریں عوام کو مشورے نہ دیں، ان کے جذبات سے نہ کھیلیںبلکہ عملی اقدامات اٹھائیں۔ اتوار بازاروں کے دورے کریں‘ متعلقہ محکموں کو فعال بنائیں‘ اگر یہ مصنوعی مہنگائی ہے تو اس کا تدارک کریں عوام کے جذبات کا خیال کریں اور مہنگائی کے جن کو قابو کریں۔ عوام کو ریلیف دینا حکومت کی ذمہ داری ہے، حکومت اپنی یہ ذمہ داری پوری کرے۔