روزنامہ 92 نیوز کی رپورٹ کے مطابق سابق حکومت کی جانب سے منگلا ڈیم بحالی نو کا 16کروڑ کا ٹھیکہ من پسند کمپنیوں کو ایک ارب 31 کروڑ میں دینے کا انکشاف ہوا ہے۔ واپڈا کے منصوبوں کی تکمیل میں تاخیر سے کئی گنا اضافہ کوئی نئی بات نہیں۔ ماضی میں منڈا ڈیم حکومتی مجرمانہ غفلت کا شکار رہا ہے۔ اس منصوبے میں فرانس کی سرکاری کمپنی نے ڈیزائننگ کے اخراجات برداشت کرنے کی ذمہ داری لی تھی اور 18 کروڑ روپے کی ایک قسط بھی جاری کر دی تھی مگر حکومت 2000 ء سے 2015 ء تک پی سی ٹو کی منظوری نہ کر سکی جس کی وجہ سے منصوبے کی مالی اعانت کر دی تھی۔ واپڈا کے افلاطونوں کی قابلیت کا پول تو آڈٹ رپورٹ نے کھول دیا ہے جس کے مطابق راولپنڈی، چکوال اور اٹک میں تعمیر کئے جانے والے ڈیمز کی تعمیر سے ایک انچ رقبہ بھی سراب نہیں ہو سکا۔ آڈٹ حکام نے ان چار سو ڈیمز کے معاملہ کی انکوائری کی سفارش کی ہے۔ بدقسمتی سے ہماری ماضی کی حکومتیں نہ صرف واپڈا حکام کے احتساب کے بجائے منصوبوں میں اپنا حصہ وصول کرتی رہیں بلکہ اپنے مفادات کے لئے منصوبوں کو التوا کا شکار بھی کرتی رہی ہیں۔ اب منگلا ڈیم کی بحالی نو کی لاگت میں705 فیصد اضافے کا انکشاف ہوا ہے۔ بہتر ہو گا حکومت معاملے کی شفاف تحقیقات کو یقینی بنائے اور ذمہ داران کو انصاف کے کٹہرے میں لائے تاکہ سرکاری خزانہ لوٹنے والوں کو نشان عبرت بنایا جا سکے۔