سپریم کورٹ نے جعلی بینک کھاتوں کے ذریعے مبینہ منی لانڈرنگ کے بارے میں مقدمے کی سماعت کرتے ہوئے بروقت اور موثر تحقیقات کے لیے نوازشریف طرز کی جے آئی ٹی بنانے کا عندیہ دیا ہے۔سابق وزیر خزانہ اپنے چارسالہ دور وزارت میں ملک کو کھربوں روپے کا مقروض کرکے خود عدالتی مفرور قرار دیئے جا چکے ہیں۔ سابق حکمرانوں نے دعوے تو کرپشن کی کمائی پیٹ پھاڑ کر نکالنے کے لیے تھے مگر ان کے دور اقتدار میں کراچی میں مبینہ طور پر ایک وزیر کے گھر سے اربوں روپے برآمد ہوئے تو کروڑ ڈالر سمندر کے راستے بیرون ملک بھجوانے کی کوشش بھی کی گئی۔ ایک ماڈل گرل سابق صدر آصف علی زرداری کے لیے منی لانڈرنگ کے الزام میں جیل تک پہنچ گئی۔ سیاسی مصلحتوں کی شکار حکومت قومی دولت بیرون ملک منتقل کرنے والوں کی سہولت کار بنی رہی اور ایان علی کے خلاف قانونی کارروائی میڈیا کوریج تک ہی محدود رہی۔ یہ حکومتی مصلحت پسندی کا ہی نتیجہ ہے کہ بااثر شخصیات نے جعلی اکائونٹس کے ذریعے حرام کی کمائی بیرون ملک منتقل کرنے کی جرات کی ہے۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ پیشہ ور ملزمان قانونی موشگافیوں کو اپنے فائدے میں استعمال کرکے مقدمات کو اس وقت تک التوا کا شکار کئے رکھتے ہیں جب تک اپنے خلاف شواہد مٹانے میں کامیاب نہیں ہو جاتے ۔اس تناظر میں دیکھا جائے تو چیف جسٹس کا سابق صدر اور ان کی بہن کے خلاف منی لانڈرنگ کے الزامات کی تحقیقات کے لیے نوازشریف طرز کی جے آئی ٹی بنانے کی تجویز قابل عمل اور موثر محسوس ہوتی ہے۔ بہتر ہوگا کہ معزز عدالت نہ صرف 35 ارب کی منی لانڈرنگ کا سراغ لگانے کے لیے جے آئی ٹی کی تشکیل دے بلکہ معاملہ کی شفافیت اور سبک رفتاری کو یقینی بنانے کے لیے سپریم کورٹ کے معزز جج کو نگران بھی مقرر کرے ۔