وزیراعظم کے مشیر برائے احتساب شہزاد اکبر نے پریس کانفرنس میں بتایا ہے کہ دس ممالک میں پاکستانیوں کی املاک اور اثاثوں کی تلاش کے دوران 5.3 ارب ڈالر کے اثاثوں کا سراغ ملا ہے۔ روپوں میں تبدیل کرنے سے یہ رقم 700 ارب روپے بن جاتی ہے۔ مشیر برائے احتساب کا کہنا ہے کہ یہ پیسہ مختلف طریقوں سے ملک سے باہر لے جایا گیا۔ جن لوگوں کے اثاثوں کا انکشاف ہوا ہے انہیں نوٹس بھجوا دیئے گئے ہیں۔ حکومت نے فوری اقدامات کے طور پر کچھ ممالک میں پاکستانیوں کی غیرقانونی دولت کے اکائونٹس منجمد کرا دیئے ہیں۔ وطن عزیز میں حکومت کا تصور بڑا عجیب ہے۔ سیاسی جماعتیں عموماً جو تصور حکومت بیان کرتی ہیں وہ فرد واحد کے تصور سے جدا ہے۔ ہمارے ہاں حکومت سے مراد طاقت اور اختیار لیتے ہیں۔ سیاسی جماعتیں تمام ریاستی اداروں پر کنٹرول کی اہلیت کو اقتدار سمجھتی ہیں۔ حکومت کو یہ حق حاصل ہوتا ہے کہ وہ مختلف قسم کی پالیسیاں تشکیل دے اور سیاسی و انتظامی مسائل کا حل تلاش کرے۔ ماضی کی کسی بھی حکومت کی کارکردگی کا اس معیار کوسامنے رکھ کر جائزہ لینے سے معلوم ہوتا ہے کہ سیاسی جماعتیں حکومتی اختیار کو اس انداز میں بروئے کار لائیں کہ فرد واحد اور جمہوری حکومت کا فرق باقی نہ رہا۔ ملک آزاد ہوا تو وسائل کی کمی تھی، بھارت نے متحدہ ہندوستان کے خزانے سے پاکستان کو پورا حصہ دینے سے انکار کردیا۔ بانیان پاکستان نے دل و جان سے محنت کی اور ملک کے اثاثوں میں اضافہ کی کوششیں کیں۔ ملک میں پانی کے ذخائر تعمیر کئے گئے۔ نہری نظام کو بہتر بنایا گیا، صنعتیں لگا کرروزگار کے موقع پیدا کئے گئے۔ زرعی بینک کے توسط سے کسانوں کو جدید ٹیکنالوجی حاصل کرنے میں مدد دی۔ انگریز ریلوے جیسا شاندار ٹرانسپورٹ نظام چھوڑ گئے تھے۔ اس نظام کو بہتر کرنے کی کوشش کی گئی۔ فولاد اور اسلحہ کے کارخانے لگائے گئے۔ پی آئی اے کی شکل میں قومی افتخار کا باعث ادارہ بنایا گیا۔ پھر ایسے لوگ حکمران بننے لگے جو قومی اثاثوں کی لوٹ مار کو اپنا حق سمجھتے تھے۔ ملک کی لوٹ کھسوٹ کا عمل انیس سو نوے کے عشرے میں تیز ہوا۔ موٹروے بنے، بجلی پیدا کرنے والے نجی پاور پلانٹ قائم کئے گئے، کارخانوں اور فیکٹری کے لائسنس دے کربااثر افراد اور خاندانوں کو سیاسی حامی بنایا گیا، بینکوں سے اربوں روپے کے قرضے صرف اس لیے معاف کرائے گئے کہ قرض دار کے سیاسی اثرورسوخ سے اپنا اقتدار مستحکم کیا جائے۔سیاسی رشوت کا ایک طریقہ ترقیاتی کاموں کے ٹھیکے دینا تھا۔ اراکین اسمبلی کے خاندان کے افراد خود کو ٹھیکیدار کے طور پر جسٹرڈ کراتے اور پھر غیر معیاری کام کرکے ترقیاتی بجٹ اپنی جیب میں ڈال لیتے۔ اس معاملے میں کچھ ایسی مراعات اور فوائد بھی تھے جو کسی لائسنس، قرضے یا ٹھیکے کی ذیل میں نہیں آتے تھے۔ سرکاری ملازمتوں کی خریدوفروخت، بھتہ خوری، شہریوں کی املاک پر قبضے، فراڈ سے روپیہ جمع کرنا اور رشوت خوری سے ہر بااختیار نے اربوں روپے جمع کئے۔ اس پورے عرصہ میں وہ ادارے خاموش تماشائی بنے رہے جن کے فرائض میں شامل ہے کہ وہ ان برائیوں اور بدعنوانی کو قابو میں رکھیں۔ بدعنوانی کے واقعات میں شدت آتی گئی اور حکومتیں ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھی رہیں۔ پولیس اور دوسرے ادارے قوانین میں سقم کا جواز پیش کر کے خود کو بری الذمہ قرار دیتے رہے۔ کسی نے اس پر توجہ نہ دی کہ اس امر کا جائزہ کیوں نہیں لیا جارہا کہ بدعنوان عناصر شہریوں کا استحصال کرنے، سرکاری خزانے کو لوٹنے اور قومی دولت بیرون ملک لے جانے میں آزاد کیوں ہیں۔ معمولی فہم و فراست کا مالک شخص بھی یہ جانتا ہے کہ اگر وہ اپنے گھر کی چیزیں محلے میں پھینک دے گا تو گھر کے اثاثے ختم ہو جائیں گے۔ ریاست بھی ایک گھر ہے جس میں کئی طرح کے قیمتی اثاثے ہوتے ہیں۔ بدعنوان حکمران اور ان کے اتحادی ریاست کی طاقت بننے والے وسائل کو چرا کر باہر لے جاتے ہیں اور ریاست کی کمزوری کا باعث بنتے ہیں۔ وزیراعظم کے مشیر برائے احتساب شہزاد اکبر نے بتایا ہے کہ ایسے پانچ ہزار بینک اکائونٹس کا کھوج لگا لیا گیا ہے جن کے ذریعے منی لانڈرنگ کی گئی ہے۔ ان اکائونٹس سے جو رقم دوسرے ممالک میں غیرقانونی طور پر بھیجی گئی اس کا حجم ایک ارب ڈالر سے زائد ہے۔ مشیر برائے احتساب نے دبئی اور یورپی ممالک میں رقوم چھپانے اور ناجائز اثاثے بنانے والے پاکستانیوں کو خبردار کیا ہے وہ اس دولت کو چھپا نہیں سکیں گے تاہم پاکستانی قوم اس سلسلے میں ریاست اور اس کے اداروں سے مزید متحرک اور فعال کردار کی توقع کرتے ہیں۔ مشہور زمانہ پانامہ لیکس میں نوازشریف خاندان سمیت کئی اہم افراد کی آف شور کمپنیوں اور اثاثوں کی تفصیلات سامنے آ چکی ہیں۔ اس سکینڈل کو جس طرح قانونی سے زیادہ سیاسی بنانے کی کوشش کی گئی اس سے پتہ چلتا ہے کہ حکمران طبقات اپنے گرد قانون کا شکنجہ مضبوط ہوتا دیکھ کرکس طرح عوام کو گمراہ کرنے کا انتظام کرتے ہیں۔ یہ سلسلہ ابھی جاری ہے۔ نوازشریف اور ان کی اولاد کے خلاف سزا کا معاملہ عدالتوں میں ہے۔ حکومت کے علم میں وہ مسائل آ چکے ہوں گے جن کی وجہ سے منی لانڈرنگ کرنے والے خود کو ریاستی اداروں سے طاقتور سمجھ رہے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ بیرون ملک موجود دولت کو جلد سے جلد وطن واپس لایا جائے اور آئندہ یہ سلسلہ روکنے کے لیے بینکنگ نظام اور حکومتی اداروں کی نگرانی کے عمل کو قانونی و انتظامی سطح پر مستعد بنایا جائے۔