پاکستان کے کسی ایک شہر کو ترقی کی منازل طے کرنے کے لئے اگر یہ آزادی دے دی جائے کہ تم جس طرح، جہاں سے اور جیسا بھی چاہے سرمایہ حاصل کرو، تمہیں کوئی پوچھنے والا نہ ہوگا، بلکہ ملکی قانون تمہیں مکمل تحفظ دے گا، تو وہ شہر ایکدم چند برسوں میں دنیا کا امیر ترین اور ترقی یافتہ شہر بن جائے گا۔ یہ کوئی ہوا میں اڑنے والی مضحکہ خیز بات نہیں ہے بلکہ’’جدید مہذب‘‘ دنیا کی سب سے بڑی حقیقت ہے۔ دنیا بھر میں لاتعداد ایسے ملک اور شہر ہیں جواسی طرح خوشحال ہوئے ہیں۔ ان میں سے صرف دو جگہوں کی مثال ہی اس ’’حقیقت‘‘ کو عیاں کرنے کے لئے کافی ہے۔ ’’لکسمبرگ‘‘ یورپ کا شہر جو مکمل آزاد ملک بھی ہے، اس کی فی کس آمدنی اٹھاسی ہزار تین سو بارہ (88,312)ڈالر ہے۔ دوسرا شہر ’’جنیوا‘‘ ہے، جو سوئٹزرلینڈ کا خوبصورت مقام ہے، اور اس کی فی کس آمدنی ایک لاکھ بارہ ہزار (1,12,000)ڈالر ہے اور یہ شہر اپنی فی کس آمدنی کے حساب سے دنیا بھر میں پہلے مقام پر کھڑا ہے۔ کوئی سوال کر سکتا ہے کہ آخر ان دونوں شہروں میں ایسی کیا زرعی، صنعتی یا معدنیاتی دولت ہے کہ یہ دنیا کے امیر ترین مقامات ہیں اور دنیا بھر کے لوگ ان شہروں کو ترقی، شہری زندگی اور خوبصورت ماحول کی وجہ سے رشک کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ یہ صرف دو نہیں ہیں بلکہ ایسے لاتعداد شہر ہیں جہاں صنعت و زراعت اور معدنیات کے نام پر کچھ نہیں ہوتا، مگر وہ دنیا کے امیر ترین شہروں میں آتے ہیں، وجہ صرف ایک ہے کہ ان شہروں کو خاص طور پر یہ آزادی دی گئی کہ وہ جس طرح، جہاں سے اور جیسا سرمایہ حاصل کریں اور پھر اس سرمائے کو اپنے ہاں تحفظ بھی دیں۔ ایسا ہی ایک شہر اگر پاکستان میں بھی آباد کیا جائے، جہاں دنیا بھر کے ممالک سے بددیانت، چور، کرپٹ، منشیات فروش، عورتوں کی سمگلنگ کا دھندہ کرنے والے، مافیا کے ڈان، ٹیکس چور، بھتہ خور اور بددیانت سیاست دان اپنا سرمایہ جمع کروایں اور پھر انکے اس سرمائے کو مکمل تحفظ حاصل ہوتو ایک سال کے اندر اندر پاکستان کے اس شہر کی فی کس آمدنی بھی دنیا کے امیر ترین شہروں کے برابر آ جائے گی۔ یہ تصویر اس لئے کھینچی ہے کہ اس وقت دنیا بھر میں ــ’’منی لانڈرنگ‘‘ اور ’’کرپشن‘‘ کے دھندوں کے سرمائے کی تمام محفوظ پناہ گاہیں یورپ اور امریکہ میں واقع ہیں۔ ہر چور، ڈاکو، بھتہ خور اور منشیات فروش کو وہیں تحفظ ملتا ہے، لیکن ایف اے ٹی ایف کی ’’گرے لسٹ‘‘ میں پاکستان کو ڈالا جاتا ہے اور اس کے بعد پاکستان کی پوری حکومتی مشینری اس گرے لسٹ سے نکلنے کے لئے منی لانڈرنگ کے خلاف قانون سازی کر رہی ہوتی ہے۔ سیاسی قیادت اور ریاستی کمزوری کی اس سے بدترین مثال نہیں ہوسکتی۔ یہ کمزوری اور دیوالیہ پن آج سے نہیں بلکہ ہم میں بحیثیت قوم یہ مرض بہت پرانا ہے، جسے انگریزی زبان میں ’’Chronic‘‘ یعنی کہنہ، دیرینہ اور دائمی کہتے ہیں۔ ہماری معاشی ترجیحات کا یہ عالم ہے کہ یہاں گذشتہ بارہ سالوں میں آٹھ ہزار خطرناک مجرموں کو اس وجہ سے پھانسی کی سزا نہیں دی جاتی، تاکہ کچھ مصنوعات یورپ کے بازاروں میں بک سکیں اور قاتل، ڈکیت اور جنسی درندے اس لئے اپنے انجام کو نہیں پہنچائے جاتے تاکہ پاکستان کے سرمایہ دار کا بیرون ملک کاروبار پھلتا پھولتا رہے۔ اس دیوالیہ پن میں کون سیاست دان ہوگا جو سینہ تان کر عالمی برادری کو کہے گا کہ ہمیں منی لانڈرنگ کے خلاف قانون سخت بنانے کے لئے دبائو ڈالنے والو، پہلے اپنے گریبان میں تو جھانکو۔ دنیا بھر سے بددیانت اور چور سیاست دانوں سے لے کر جرائم پیشہ افراد تک، ہر ایک کی پناہ گاہ تو تم خود ہو۔ منی لانڈرنگ اور بددیانتی والے سرمائے کے تحفظ کے حوالے سے دنیا بھر سے چھ ممالک علیحدہ علیحدہ خصوصیات کے حوالے سے شہرت رکھتے ہیں۔ پہلے نمبر پر ’’کیمن آئی لینڈ‘‘ (Cayman Island)ہے، اس کی خصوصیت یہ ہے کہ اگر آپ وہاں اپنا سرمایہ چھپاتے ہیں تو وہاں پوری دنیا میں سب سے کم ٹیکس آپ کو دینا پڑے گا اور وہاں پر سرمائے کو اِدھر سے اُدھر کرنے پر بھی کسی قسم کا کوئی کنٹرول نہیں ہے۔ یہاں کیپٹل گین، ودہولڈنگ، پراپرٹی، کارپوریٹ اور انکم کے حوالے سے کسی قسم کا کوئی ٹیکس نہیں لیا جاتا۔ یہاں کے بنک آپ کے سرمائے کی خبر کسی کو نہیں دیتے۔ یہ آئی لینڈ یا جزیرہ برطانیہ کا حصہ ہے، لیکن اس پر خاص طور پر برطانوی قانون لاگو نہیں کیا گیا۔ امریکہ کے سرمایہ داروں نے اندازاً 32ہزار ارب ڈالر یہاں اس لئے چھپائے ہیںتاکہ انہیں امریکہ میں ٹیکس نہ دینا پڑے۔ دوسرے نمبر پر ’’سوئٹزرلینڈ‘‘ آتا ہے، جس کی شہرت اثاثوں کے تحفظ (Asset Protection)کے حوالے سے سب سے بہتر ہے۔ ملک میں رازداری کے قوانین تین سو سال پرانے ہیں۔ کوئی بنک کا اہلکار اگر کسی کھاتے دار کی معلومات کسی کو بتائے گا تو اسے چھ ماہ قید کی سزا ہوگی۔ یہاں سرمایہ کو خفیہ رکھنے کیلئے اس کا تعلق آپ کے ملک سے براہ راست ختم کیا جاتا ہے اور پہلے ’’کُک آئی لینڈ‘‘ (Cook Island)اور ’’نیوس‘‘ (Nevis)میں اسے لے جاکر، پھر یہاں لایا جاتا ہے۔ تیسرے نمبر پر ’’جزائر غرب الہند‘‘ (Caribbean)کا جزیرہ ’’نیوس‘‘ (Nevis)ہے۔ اس کی وجہ شہرت یہ ہے کہ یہاں ’’آف شور کمپنیاں‘‘ بنانا سب سے آسان ہے۔ اس وقت دنیا کی ستر فیصد آف شور کمپنیاں یہاں رجسٹرڈ ہوئی ہیں۔ یہاں کے قوانین کمپنیوں کے لئے آئیڈیل ہیں اور یہاں پر بنائی گئی کمپنیاں عالمی سٹاک ایکسچینج میں بھی رجسٹر ہو سکتی ہیں۔ کمپنیوں کے ڈائریکٹرز اور مالکان کے لئے خصوصی تحفظاتی قوانین ہیں۔ چوتھے نمبر پر بھی وسطی امریکہ میں واقع ملک ’’بیلازہ‘‘ (Beliza)ہے۔ یہ قدیم مایا تہذیب کا امین ہے۔ یہاں بہت بڑے جنگل اور بے شمار سمندری حیات کے ساتھ ساتھ چار لاکھ انسان بھی رہتے ہیں۔ اس کی خصوصیت یہ ہے کہ آپ کو یہاں چوری کے سرمائے پر سب سے زیادہ سود ملتا ہے۔ یہاں افراط زر نام کو نہیں اور اس ملک میں رازداری کے قوانین بہت سخت ہیں۔ پانچویں نمبر پر جرمنی آتا ہے جو سرمائے کے تحفظ کے لئیے بہترین ہے۔ یہاں کے بنک دنیا کے سب سے محفوظ بنک تصور ہوتے ہیں، جہاں سرمایہ ڈوبتا نہیں ہے۔ اس کے علاوہ جرمنی کے بنکوں میں اکائونٹ کھولنے کے لئے وہاں موجود ہونا ضروری نہیں ہے۔ آپ اپنے ملک کی جیل میں بیٹھے ہوئے بھی وہاں اکائونٹ کھلوا کر سرمایہ منتقل کر سکتے ہیں۔ چھٹے نمبر پر ’’سنگاپور‘‘ ہے، جو سرمایہ داروں کے لئے جنت ہے۔ آپ کے پاس 2لاکھ ڈالر ہیں تو آپ اس ملک میں آف شور اکائونٹ کھول سکتے ہیں اور پھر اس کے بعد یہ بنک خود بخود آپ کی باقی ماندہ دولت کی بھی سرمایہ کاری کا پلان بنا کر آپ کو منافع کما کر دے گا اور سوال نہیں کرے گا کہ سرمایہ کہاں سے آیا۔ ان ممالک کے علاوہ اس وقت یورپ کے پندرہ مقامات، افریقہ کے تین، جزائر غرب الہند یا وسطیٰ امریکہ کے 17مقامات، مشرق وسطیٰ کے 2 مقامات اور مشرق بعید کے 13مقامات ایسے ہیں جہاں آزادانہ اور بے خوف طریقے سے آپ اپنا چوری کا سرمایہ جمع کرواسکتے ہیں اور پھر اس سرمائے سے کاروبار بھی کر سکتے ہیں یا اس کے سود سے عمر بھر پرتعیش زندگی گزار سکتے ہیں اور ایسا کچھ کرتے ہوئے آپ پر کوئی ہاتھ بھی نہیں ڈالے گا۔ یورپی یونین کے تمام ممالک نے انسانی حقوق کے ایک ایسے کنونشن پر دستخط کر رکھے ہیں، جس کے مطابق اگر کوئی قاتل، چور، منشیات فروش یا بددیانت سیاست دان کسی یورپی ملک کے پاس اپنا سرمایہ لاتا ہے اور پھر وہاں سیاسی پناہ بھی لے لیتا ہے، تو بیشک آپ کا اس مفرور شخص کے ملک کے ساتھ مجرموں کے تبادلے کا معاہدہ ہی کیوں نہ ہوا ہو، آپ اسے کسی ایسی صورت میں واپس اس کے اپنے ملک کے حوالے نہیں کریں گے، جب اس بات کا خطرہ ہو کہ اگر وہ اپنے ملک واپس چلا گیا تو اس پر تشدد ہوگا یا اسے پھانسی دے دی جائے گی۔ جرم کے سرمائے پر پلنے والے اور خوشحال نظر آنے والے یہ یورپ کے ہی ملک ہیں جو چوروں، قاتلوں، عورتوں کے سمگلروں اور منشیات فروشوں کے اتنے ہمدرد ہیں اور کیوں نہ ہوں اسی لوٹ مار کے پیسے سے تو وہ خوشحال ہیں۔